اپنی نوعیت کے سب سے بڑے مطالعے کے مطابق سو سال عمر تک پہنچنے والے افراد میں ساٹھ کی دہائی کے بعد سے گلوکوز، کریٹینائن اور یورک ایسڈ کی سطح کم ہوتی ہے۔ یہ مطالعہ کسی شخص کے سو سال کی عمر تک پہنچنے کے امکانات کی پیشنگوئی کرنے کے لیے ایک سادہ خون کے ٹیسٹ کی بنیاد بن سکتا ہے
یہ نتائج ایک طویل ترین تحقیق سے سامنے آئے ہیں۔ جریدے جیرو سائنس میں شائع ہونے والی یہ تحقیق 1893 سے 1920 کے درمیان پیدا ہونے والے افراد کے خون میں مختلف مالیکیولز کی سطح کی پیمائش اور ان پر نظر رکھنے والی اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے
کیرولنسکا انسٹیٹیوٹ کے سائنسدانوں سمیت دیگر نے 1985 سے 1996 کے درمیان کلینیکل ٹیسٹنگ سے گزرنے والے ساڑھے چوالیس ہزار سویڈش باشندوں کے خون کے مالیکیولز کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا اور 2020 تک ان کی نگرانی کی
انہوں نے خاص طور پر 1893 اور 1920 کے درمیان پیدا ہونے والے افراد پر توجہ مرکوز کی، جو 64 سے 99 سال کے درمیان تھے، جب ان کے خون کے نمونوں کی پہلی بار جانچ کی گئی، اور جب وہ سو سال کی عمر کے قریب پہنچ گئے تو ان کی دوبارہ جانچ کی گئی
مطالعے میں شامل تقریبا بارہ سو افراد میں سے تقریباً 2.7 فیصد، سو سال کی عمر تک پہنچے
محققین نے اس سب سیٹ کے اعداد و شمار کا موازنہ ان ساتھیوں کے ساتھ کیا، جو ان سے کم عمر تھے
تجزیے میں خون کے بارہ مالیکیولز پائے گئے، جو میٹابولزم، سوزش کے ساتھ ساتھ جگر اور گردے کے افعال سے وابستہ تھے، جو پچھلے مطالعات میں عمر بڑھنے یا اموات سے بھی منسلک تھے
ان مالیکیولز میں میٹابولزم کی نشاندہی کے طور پر مجموعی کولیسٹرول اور گلوکوز، سوزش کی سطح کی نشاندہی کرنے والے یورک ایسڈ، جگر کی صحت کی نشاندہی کرنے والے انزائم اور گردے کی صحت کی پیمائش کے طور پر کریٹینائن شامل تھے
محققین نے خون میں البومین اور آئرن کی سطح کا بھی جائزہ لیا
جگر کے انزائم اور البومین کے علاوہ، دیگر تمام مالیکیولز کا تعلق کسی شخص کی عمر سو سال تک پہنچنے کے ساتھ پایا گیا
جن لوگوں میں کولیسٹرول اور آئرن کی سطح بڑھتی ہے، ان کے سو سال تک پہنچنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جبکہ کم سطح والے افراد کے کا امکان کم ہوتا ہے
تاہم مالیکیولز کے لیے بشمول گلوکوز، کریٹینائن، یورک ایسڈ، اور جگر کے انزائمز کی کم سطح کا تعلق سو سال سے زیادہ زندہ رہنے کے امکانات سے تھا
محققین نے مؤقر آنلائن جریدے ’دی کنورسیشن‘ میں لکھا، ”ہم نے دیکھا کہ مجموعی طور پر جو لوگ اپنی سوویں سالگرہ تک پہنچے ان میں گلوکوز، کریٹینائن اور یورک ایسڈ کی سطح ساٹھ کی دہائی سے کم تھی۔“
ان کا کہنا تھا، ”سو سال عمر پانے والے افراد میں سے بہت کم میں گلوکوز کی سطح پہلے والی زندگی میں 6.5 سے زیادہ تھی، یا کریٹینائن کی سطح 125 سے اوپر تھی۔“
محققین کا کہنا ہے کہ اگرچہ گروپوں کے درمیان مطالعے میں پایا جانے والا فرق کچھ معاملات میں کم تھا، لیکن نتائج اب بھی میٹابولزم ، غذائیت اور لمبی عمر کے درمیان ’ممکنہ تعلق‘ کی نشاندہی کرتے ہیں
تاہم، مطالعہ طرز زندگی کے عوامل یا خون کے ان مالیکیول لیول کے لیے ذمہ دار جین کا نہیں بتاتا
سائنسدانوں نے مطالعے میں لکھا ہے ’اگرچہ سو سال کی عمر تک پہنچنے میں امکان کا بھی ممکنہ طور پر ایک کردار ہوتا ہے، موت سے ایک دہائی سے زیادہ پہلے بائیو مارکر کی ویلیوز میں آنے والا فرق بتاتا ہے کہ جینیاتی اور/یا طرز زندگی کے عوامل جو ان بائیو مارکر کی سطحوں میں نظر آتے ہیں، غیر معمولی لمبی عمر کے لیے بھی کردار ادا کر سکتے ہیں، تاہم، یہ سوچنا مناسب ہے کہ غذائیت اور شراب نوشی جیسے عوامل ایک کردار ادا کرتے ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے گردے اور جگر کے ساتھ ساتھ گلوکوز اور یورک ایسڈ پر نظر رکھنا شاید کوئی برا خیال نہیں ہے۔“