سولہویں صدی کے وسط میں پوٹوسی (بولیویا کا شہر) کا شاہی شہر مہم جُو لوگوں کے اجتماعات کے لئے موزوں ترین جگہ تھی۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ چاندی کی کانیں دریافت ہونے کے پانچ سال کے اندر یہاں کی آبادی بیس ہزار نفوس سے بڑھ چکی تھی۔ محاورہ ہے کہ کان کنی والا شہر شیطانی لڑائیوں والا شہر ہوتا ہے، یہ محاورہ پوٹوسی شہر کی فتح کے بعد کی دو صدیوں پر بلکل سچ ثابت ہوتا ہے۔ جب 1550 کا سال اختتام پذیر ہو رہا تھا، تو لائسنس یافتہ ڈیگو ڈی ایسکیول شہر کا میئر تھا۔ وہ ایک لالچی اور بغض سے بھرا شخص تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ چاندی کی سلاخوں کے عوض انصاف بیچتا تھا۔
جناب میئر صاحب کی ایک کمزوری انار تھا اور اس شاہانہ شہر میں اس کی عاشق مزاج سازشوں کی افواہ بھی گردش کرتی رہتی تھی۔ اسے کبھی بھی علاقائی پادری نے سینٹ پال کا خط پڑھ کر سننے کی خطرناک صورتحال میں نہیں ڈالا تھا۔وہ اپنے ’پرانے بیچلرز کے بھائی چارے‘ سے تعلق رکھنے پر شیخیاں بگھارتا تھا۔۔ جو میری رائے میں اگر سماجی برائی نہیں تھی تو بھی کسی بھی ہم سائے کی نجی جائیداد کے لئے خطرہ ضرور تھی۔۔ کچھ کا کہنا تھا کہ کمیونسٹ اور بیچلرز ایک ہی جنس کے دو رخ ہیں۔
اس وقت یہ جناب پوٹوسی ہی کی ایک لڑکی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے تھے، لیکن وہ قانون سے وابستہ کسی بھی پیشے سے منسلک شخص کے ساتھ کوئی رشتہ رکھنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ بہت سلیقے سے اسے انکار کرتے ہوئے ایک خوبرو نوجوان سپاہی کی حفاظت میں چلی گئی، جو تکمان / Tucuman میں تعینات ڈویژن میں خدمات سر انجام دے رہا تھا۔ وہ اس نوجوان دوشیزہ کے حسن کا اسیر ہو گیا۔ میئر اسے ٹھکرانے والی ناشکرگزار لڑکی اور اس پر ترجیح دیے جانے والے نوجوان سپاہی دونوں سے انتقام کی آگ میں جلنے لگا۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں، شیطان کبھی نہیں سوتا۔۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک رات ان بے شمار جوّا خانوں میں سے، جو مقامی قوانین کے برخلاف ایک ہی گلی میں موجود تھے، ایک میں لڑائی شروع ہو گئی۔۔ ایک نا تجربہ کار جواری، جو چال چلنے میں زیادہ ہوشیار نہیں تھا، اس نے تین پانسے / مہرے بہت زیادہ داؤ والی شرط پر گرا دئیے، جس پر دوسرے جواری نے چاقو نکال لیا۔
اس کے نتیجے میں ہونے والے ہنگامے اور چیخ و پکار نے رات کے پہریداروں کو متوجہ کر لیا۔۔ اور ساتھ ہی میئر اپنے اسٹاف اور تلوار کے ساتھ پہنچ گیا۔ ”خاموش! سب کو جیل میں بند کر دو۔۔“ اس نے حکم دیا۔
اس کے ماتحت افسران نے، جیسا کہ ایسے حالات میں ہوتا ہے، جواریوں سے دوستیاں کرتے ہوئے انہیں بالا خانے کے رستے فرار ہونے دیا۔۔ اور محض کارکردگی دکھانے کے لئے دو مدہوش افراد کو گریبان سے پکڑ لیا۔
اگلے دن جب مجسٹریٹ نے جیل کا معائنہ کیا تو گرفتار شدگان میں اپنے حریف سپاہی، جو تکمان میں موجود ڈویژن میں کام کرتا تھا، کو پا کر اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔۔
”بہت خوب، تو تم عادی جواری ہو۔۔؟“
”میری بات سنیں جناب والا۔۔ پچھلی رات میرے دانت میں شدید درد تھا، اس کے علاج کے لیے میں اپنے ایک دوست کو ڈھونڈتے ہوئے وہاں آیا تھا، جس کے بٹوے میں ہر وقت ‘سینٹ اپالونیا کے دانت‘ کا جوڑا موجود ہوتا ہے۔۔ اور جن کے بارے میں مشہور ہے کہ ہر قسم کے دانت کے درد کا جادوئی علاج ہے“
”میں تمہیں ضرور جادو دکھاؤں گا، آچُکے!“ جج/مجسٹریٹ بڑبڑایا۔۔ پھر دوسرے قیدی کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا، ”مجھے قانون کا علم ہے۔۔ پچاس کوڑے یا سو ڈالر۔۔ میں بارہ بجے واپس آؤں گا۔۔۔۔۔۔۔۔ تیار رہنا۔“
سپاہی کے ساتھی قیدی نے گھر پیغام بجھوایا اور اتنی رقم کا انتظام ہو گیا کہ جرمانہ ادا ہو سکے۔۔ اور جب مئیر واپس آیا تو کیش رقم موجود تھی۔
”اور تم؟ تم بدمعاش! تم جرمانہ ادا کرو گے یا نہیں۔۔؟“
”جناب میئر، میں تو گرجے کے چوہے جتنا غریب ہوں۔۔ میرے پاس آپ کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں“
”تو پھر کوڑے ہی تمہارے لئے مناسب رہیں گے۔۔“
”جناب میئر، یہ کوئی حل نہیں۔۔ اگرچہ میں سپاہی ہوں، لیکن میں ایک باعزت خاندان کا ہسپانوی مرد (Hidalgo) ہوں۔۔ میرے والد سیویل (جنوبی سپین کا ایک بڑا شہر) کے ضلع کونسل کے رکن ہیں۔۔ آپ میرے کیپٹن ڈان آلوارو کاسٹرلن سے پوچھ سکتے ہیں۔۔ میں اپنے نام کے ساتھ بادشاہ کی طرح (خدا اس کی حفاظت کرے)، ڈان (باعزت خطاب) لکھتا ہوں۔“
”تم اور ایک ہڈالگو!؟ ایک معزز شخص!!!؟“
”انتونیز! اس شہزادے کو پچاس کوڑے مارو۔۔ فوراً۔۔ اسی وقت!!“
”رکو! تم کیا کرنے لگے ہو؟ یسوع مسیح کی قسم، تم ایک ہڈالگو (ہسپانوی مرد) کے ساتھ یہ ذلت آمیز سلوک نہیں کر سکتے۔“
”ہڈالگو ہڈالگو، بہرے کانوں کے لئے اچھا لفظ ہے۔“
”تو سنو! جناب ڈان ڈیگو“ سپاہی اب کی بار غصے سے بولا، ”اگر تم نے یہ بزدلانہ حرکت کی، تو میں خدا کی قسم کھاتا ہوں، میرا انتقام میئر کو اس کے کانوں سے محروم کر دے گا۔“
میئر نے اس پر طنزیہ نگاہ ڈالی اور جیل کے صحن میں چہل قدمی کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں انتونیز اپنے چار ماتحتوں کے ساتھ آیا۔ زنجیروں میں جکڑے ہڈالگو (ہسپانوی مرد) کو باہر نکالا، میئر کی موجودگی میں اسے زور زور سے پچاس کوڑے مارے۔ مظلوم سپاہی نے یہ درد بڑے صبر اور حوصلے سے برداشت کیا۔ کوڑے مارنے کے بعد جیلر نے اسے رہا کر دیا۔
”انتونیز! مجھے تم سے کوئی گلہ نہیں۔۔“ جوان سپاہی نے کہا، ”لیکن میئر کو بتا دینا، آج کے بعد اس کے کان میرے ہو چکے ہیں۔ میں یہ اسے ایک سال کے لئے ادھار دے رہا ہوں، ان کی حفاظت کرنا اس کے لئیے اچھا ہوگا۔ یہ میرا بہت قیمتی اثاثہ ہیں۔“
جیلر نے کھل کر قہقہہ لگایا اور بولا، ”اس جنٹلمین کا دماغ الٹ گیا ہے۔ یہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔۔ اگر میئر اسے ہمارے حوالے کر دے تو ہم آزمائیں کہ آیا سزا سے پاگل شخص صحت مند ہو سکتا ہے۔۔“
میرے قارئین دوستو! ذرا وقفہ لیتے ہیں اور تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں۔۔۔ کچھ اس وائسرائے، جس کے دور کی یہ کہانی ہے، اس کے بارے میں جانتے ہیں۔۔
پہلے وائسرائے ڈان بلاسکو نونیز ڈی ویلا کے افسوسناک انجام کے بعد ہسپانوی دربار نے فیصلہ کیا کہ اسی رتبے کا کوئی شخص فوری طور پر پیرو بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ عارضی طور پر، زیادہ اختیارات کا حامل اور چارلس پنجم کی مکمل حمایت کے ساتھ لائسنس یافتہ لاگاسکا کو بطور گورنر بھیج دیا جائے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس نے اسلحے کی طاقت کی بجائے اپنی ذہانت اور فہم و فراست کے زور پر گونزیلو پزارو پر برتری حاصل کر لی۔
ملک میں امن و امان کی بحالی کے بعد اسی لاگاسکا نے شہنشاہ کو آمادہ کیا کہ پیرو کے لئے وائسرائے نامزد کر دیا جائے اور اس عہدے کے لئے اپنی جانب سے ڈان اینٹونیو ڈی مینڈوزا، مارکوئس آف مونڈی جار، کاونٹ آف ٹینڈلا کا نام تجویز کر دیا، جسے بطور میکسیکو کے وائسرائے کے پہلے ہی انتظامی امور سے واقفیت تھی۔
مونڈی جارکا مارکوئس (باوقار خطاب) پیرو کے دوسرے وائسرائے کے طور پر معمولی دھوم دھام سے 23 ستمبر 1551 میں لیما میں داخل ہوا۔ ملک حال ہی میں ایک تباہ کن جنگ کی ہولناکیوں سے باہر نکلا تھا، خوشی کا ماحول تھا۔ بے حیائی پھیل رہی تھی اور فرانسسکو گیرون 1553 کے خونی انقلاب کی قیادت کے لئے تیار تھا۔
جن حالات میں مارکوئس ڈی مونڈجار نے زمہ داریاں اٹھائیں، وہ کوئی خوش آئند نہیں تھے۔ اس لئے اس نے مفاہمت کی پالیسی اپناتے ہوئے ان الزامات پر ایکشن لینے سے انکار کر دیا، جن کی بنیاد ظلم وستم اور ایذا رسانی پر تھین ایک مؤرخ اس بارے میں لکھتا ہے کہ جب ایک کپتان نے اپنے دو سپاہیوں پر الزام لگایا کہ وہ اپنے طور پر شکار کے لئے گن پاؤڈر بنا رہے ہیں اور انڈین لوگوں سے میل جول رکھتے ہیں تو اس نے سختی سے جواب دیا کہ ایسے جرائم سزا دینے کی بجائے شکر گزاری کے قابل ہیں۔ سپاہیوں کا انڈین لوگوں سے گھلنا ملنا، خود شکار کر کے کھانا اور اپنے استعمال کے لئے خود گن پاؤڈر بنانا کوئی جرم نہیں بلکہ قابلِ تقلید مثال ہے۔ خدا ہمارا حامی و ناصر ہو ،مم، آئندہ ایسی کہانیاں لے کر میرے پاس مت آنا۔
اگر ہمارے حکمران چالباز درباریوں، بغاوت کو ہوا دینے والوں، معاوضے پر جاسوسی کرنے والوں کو ایسے ہی جواب دیں تو دنیا بہت بہتر جگہ بن جائے۔۔
مارکوئس آف مونڈجار کے پاس ہمیشہ اچھے خیالات کی بھرمار رہی، لیکن وہ بہت کم کو عملی جامہ پہنا سکا۔ اس نے اپنے بیٹے ڈان فرانسسکو کو کوزکو، چکیوٹو، پوٹوسی، ایری کیپا جانے اور وہاں کے لوگوں کے مسائل پر تفصیلی رپورٹ مرتب کرنے کا حکم دیا۔ اس نے جوآن بیٹنزوس کو انکاس کی تاریخ مرتب کرنے کا فریضہ سونپا۔ نیزہ برداروں کا دستہ تشکیل دیا۔ لیما کی پولیس کے لئے عادلانہ ضابطے بنائے۔ ڈوئل لڑنے والوں کو سخت سزائیں دیں۔ ڈوئل انتہائی مضحکہ خیز وجوہات کے باوجود اس وقت بہت مقبول تھا۔
ڈان اینٹونیو ڈی مینڈوزا نے بہت ساری اچھی اصلاحات نافذ کیں، لیکن بد قسمتی سے اس کی بیماری نے اس کی توانائیاں کم کر دیں اور جولائی 1552میں دس ماہ سے بھی کم عرصہ اپنے عہدے پر رہ کر مر گیا۔ اس کی موت سے ایک ہفتہ قبل لیما میں اس کی تاریخ کا پہلا گرج چمک کے ساتھ خوفناک طوفان آیا۔۔
اگلے دن ڈان کرسٹوبل ڈی آگیورو (سپاہی) تکمان انفینٹری کے کپتان کے سامنے پیش ہوا اور کہا، ”کیپٹن، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے اپنی نوکری سے استعفیٰ دینے کی اجازت دی جائے۔۔ جناب والا کو باعزت سپاہی چاہییں اور میں اپنی عزت گنوا بیٹھا ہوں۔“
ڈان الوارو (کیپٹن) سپاہی کی بہت عزت کرتا تھا۔ اس نے اسے اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی، لیکن آخرکار اس کا استعفیٰ قبول کر لیا۔
ڈان کرسٹوبل کی جو بے عزتی ہوئی تھی، وہ ابھی تک راز ہی تھی کہ میئر نے جیلر کو کوڑوں کی سزا کے بارے میں بات کرنے سے منع کر دیا تھا۔ شاید میئر کے شعور میں یہ بات تھی کہ اس نے عدالتی اہلکار کو اپنا ذاتی بدلہ بطور عاشق لینے کے لیے استعمال کیا۔ اس دوران تین مہینے گزر گئے۔ تب میئر ڈان ڈیگو کو سرکاری خط موصول ہوا، جس میں اسے لیما پہنچ کر کچھ وراثت وصول کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ ضلعی انتظامیہ سے اجازت حاصل کرنے کے بعد اس نے سفر کی تیاری شروع کر دی۔
اس کے سفر کی روانگی کی شام وہ باہر چہل قدمی کر رہا تھا کہ ایک شخص گاؤن پہنے منہ چھپائے اس کے پاس آیا اور پوچھا، ”جناب کیا آپ نے کل سفر پر جانا ہے؟“
”تمہاری جرأت کیسے ہوئی، تمہارا اس سے کوئی مطلب نہیں!“
”میرا مطلب؟ درحقیقت میرا ہی تو ہے۔۔ مجھے ان کانوں کی حفاظت کرنی ہے۔۔۔“ اس کے ساتھ ہی وہ اجنبی ڈان ڈیگو کو خوف کے سمندر میں چھوڑ کر ملحقہ گلی میں غائب ہو گیا۔
اگلے دن صبح ہوتے ہی میئر کوزکو روانہ ہو گیا۔ اسی دن وہ انکاس شہر پہنچ گیا۔ وہاں وہ اپنے ایک دوست سے ملنے گیا، ایک موڑ کاٹتے ہوئے اس نے اپنے کندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس کیا۔ ڈان ڈیگو حیرانی سے مڑا تو پوٹوسی والے مظلوم کو اپنے سامنے پایا۔
”خوفزدہ نہ ہوں جناب، مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کہ کان اپنی جگہ موجود ہیں۔“
ڈان ڈیگو خوف سے بت بن گیا۔ تین ہفتے بعد ہمارا مسافر شام کے وقت گوا مانگا پہنچا۔ اس نے سرائے میں کمرہ لیا ہی تھا کہ رات پڑتے ہی دروازے پر دستک سنی۔
”کون ہے؟“ مجسٹریٹ نے پوچھا
”جناب کے اقبال بلند ہوں!“ باہر کھڑے شخص نے جواب دیا
”آمین۔۔“ کہتے ہوئے ڈان ڈیگو نے دروازہ کھول دیا۔
نہ ہی میکبتھ کی ضیافت میں بنکو کا بھوت اور نہ ہی ڈان جوآن کے کمرے میں کمانڈر کا مجسمہ میئر کو اس سے زیادہ حیران کر سکتا تھا، جتنا وہ اچانک اپنے سامنے اس شخص کو پا کر ہوا، جس کو اس نے کوڑے مروائے تھے۔۔
”پرسکون رہیے، جناب! کان بخیریت ہیں؟ بہت اچھے۔۔۔اگلی ملاقات تک“
خوف اور پچھتاوے سے ڈان ڈیگو بولنے کے قابل بھی نہ رہا۔ بالآخر وہ لیما پہنچا اور جب پہلی بار باہر نکلا تو اس کا سامنا پھر اسی بھوت سے ہوا، جس نے اس دفعہ اس سے کوئی بات نہیں کی لیکن اس نے اس کے کانوں کو بغور دیکھا۔ اس سے بچنے کا کوئی طریقہ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ ہر جگہ وہ اس کا سایہ بنا ہوا تھا بلکہ اس کے لئے وہ دائمی ڈراؤنا خواب بن چکا تھا۔
میئر مسلسل پریشان اور بے چین تھا۔ ہلکی سی آہٹ پر کانپنے لگتا۔ نہ دولت، نہ واسرائے، نہ ہی وہ وراثت جس کے لئے یہاں تک آیا تھا، کچھ بھی اس کے اندیشوں کو دور نہیں کر سکتا تھا۔ ہر لمحے اس کے دماغ میں اس منتقم کا چہرہ گھومتا رہتا۔
ان حالات میں جیل والے واقعے کا سال پورا ہو گیا۔ رات کے دس بجے تھے۔ ڈان ڈیگو یہ یقین کر لینے کے بعد کہ اس کی رہائش گاہ کے سارے دروازے مکمل طور پر بند ہیں، چمڑے کی آرام کرسی پر مطمئن بیٹھا لیمپ کی مدھم روشنی میں خط و کتابت چیک کر رہا تھا، اچانک ساتھ والے کمرے کی کھڑکی سے ایک شخص کمرے میں داخل ہوا اور پھر دو مضبوط ہاتھوں نے اسے پکڑ لیا۔ منہ پر پٹی باندھ کر اس کی چیخوں کو دبا دیا۔ ایک مظبوط رسی سے اسے کرسی سے باندھ دیا۔
پوٹوسی کا ہڈالگو اس کے سامنے کھڑا ہو گیا، ایک تیز دھار خنجر اس کے ہاتھوں میں چمک رہا تھا۔۔۔
”جناب مئیر!“ اس نے کہنا شروع کیا، ”آج سال مکمل ہو گیا ہے اور اپنی عزت کے لئے آیا ہوں۔“ پھر پرسکون سفاکی سے اس نے میئر کے کان کاٹ دیے۔۔
ڈان کرسٹوبل ڈی اگیورو (سپاہی) وائسرائے مارکوئس آف مونڈجار کے تعاقب کے باوجود اسپین بھاگ جانے میں کامیاب ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے شہنشاہ چارلس پنجم کے سامنے حاضری کی درخواست کی۔ اسے اپنے مقدمے میں منصف بننے کی استدعا کی۔ اس طرح اس نے نہ صرف بادشاہ سے معافی نامہ حاصل کر لیا، بلکہ میکسیکو میں منظم کی گئی ایک رجمنٹ کا کیپٹن بھی مقرر ہو گیا۔ جب کہ میئر ایک مہینے بعد مر گیا۔ اس کی موت اس کے زخم کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس احساس ذلت سے ہوئی کہ اب اسے کن کٹا بے شرم کہا جائے گا۔۔!
English Title: The mayor’s ear
By. Ricardo Palma