سابق افغان صدر اشرف غنی کے افغانستان سے بچ نکلنے کی کہانی ان کی زبانی

نیوز ڈیسک

افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ طالبان کا افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے کے وقت ان کے پاس اچانک کابل چھوڑنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا

امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اشرف غنی نے اس بات کی تردید کی ہے کہ طالبان کے پرامن طریقے سے کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی معاہدے طے کیا جارہا تھا

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، جو جمعرات کو نشر ہوا ، افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے رواں سال ایک ایسے موقع پر ملک چھوڑ کر جانے کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا ہے جب طالبان کابل کے دروازے پر تھے۔ ان کا کہنا ہے ”میں نے ایسا کابل کو تباہی سے بچانے کے لیے کیا۔“

اِس وقت متحدہ عرب امارات میں مقیم اشرف غنی نے انکشاف کیا کہ جب وہ 15 اگست کی صبح اٹھے تو ان کے گمان بھی نہیں تھا کہ یہ افغانستان میں اُن کا آخری دن ہوگا

انہوں نے بی بی سی ریڈیو 4 کے پروگرام ٹو ڈے سے بات کرتے ہوئے کہا ”جب میرا طیارہ کابل شہر چھوڑ کر جا رہا تھا، تو مجھے احساس ہوا کہ میں ملک چھوڑ کر جا رہا ہوں“

ان کا کہنا ہے کہ طالبان کے دو حلقے شہر میں داخل ہو کر ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کی غرض سے لڑائی کرنے کے لیے تیار تھے

تاہم جن مخالف حلقوں کا وہ ذکر کر رہے ہیں، اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ رواں سال اگست میں ملک چھوڑ کر جانے کے معاملے پر اشرف غنی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے ملک کو نازک وقت پر تنہا چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی

اس وقت امریکی اور نیٹو فورسز بھی 20 سال بعد افراتفری میں افغانستان چھوڑنے کے آخری مراحل میں تھیں
اشرف غنی نے اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ طالبان جنگجوؤں نے کابل میں داخل نہ ہونے پر آمادگی ظاہر کی تھی، ’لیکن دو گھنٹے بعد صورتحال ایسی نہیں رہی تھی۔‘

انہوں نے اس حوالے سے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ ’طالبان کے دو مختلف دھڑے دو مختلف سمتوں سے آگے بڑھ رہے تھے۔ اور ان کے درمیان ممکنہ کشیدگی کے باعث پچاس لاکھ آبادی والا شہر تباہی کا شکار ہو سکتا تھا اور عوام ایک بہت بڑے المیے سے گزر سکتے تھے۔‘

”ایسے میں، میں نے اس بات پر آمادگی کا اظہار کیا کہ میرے قومی سلامتی کے مشیر اور اہلیہ کو کابل چھوڑ دینا چاہیے اور پھر ہم ایک گاڑی کا انتظار کرتے رہے، جسے ہمیں وزارت دفاع تک چھوڑنا تھا“

بقول اشرف غنی ”لیکن گاڑی نہ پہنچ سکی۔ اس کے برعکس ’گھبرائے ہوئے‘ صدارتی سکیورٹی پر معمور چیف میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ اگر آپ یہاں رکنے کے فیصلے پر مصر رہتے ہیں تو ’ہم سب مارے جائیں گے‘. “

بی بی سی کو اپنے انٹرویو میں صدر غنی نے بتایا ”اس نے مجھے دو منٹ سے زیادہ کا وقت نہیں دیا۔ میری ہدایات یہ تھیں کہ مجھے خوست شہر لے جایا جائے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ خوست بھی طالبان کے قبضے میں آ چکا ہے اور جلال آباد بھی۔“

اشرف غنی کے مطابق”مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہم کہاں جائیں گے؟ یہ اس وقت واضح ہوا جب ہم نے پرواز بھری، کہ ہم افغانستان چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ تو یہ سب کچھ بہت جلدی میں ہوا۔“

ان کے جانے کے بعد اشرف غنی کو افغانستان میں تمام حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، حتیٰ کہ انہیں ان کے نائب صدر امراللہ صالح نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کو ’ذلت آمیز‘ قرار دیا

اپنے تازہ انٹرویو میں سابق افغان صدر نے فرار کے وقت بڑی تعداد میں رقم ساتھ لے کر جانے کے الزامات کو مکمل طور پر مسترد کرتے کہا کہ وہ اس حوالے سے بین الاقوامی تحقیقات کا خیر مقدم کریں گے تاکہ ان پر لگایا گیا الزام غلط ثابت ہو سکے

انہوں نے کہا ”میں یہ بات دو ٹوک انداز میں کہنا چاہتا ہوں کہ میں ملک سے رقم لے کر نہیں آیا۔ میرا طرزِ زندگی سب کے سامنے ہے۔ میں اس رقم کا کیا کروں گا۔‘ تاہم انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس دوران غلطیاں بھی ہوئی تھیں جس میں یہ بھی شامل تھا کہ ’بین الاقوامی کمیونٹی کا صبر کا پیمانہ لبریز نہیں ہوگا۔‘

اشرف غنی نے طالبان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والے معاہدے کی جانب بھی اشارہ کیا جس کے باعث، بقول ان کے، 15 اگست کو ہونے والے واقعات کی بنیاد ڈالی گئی

ان کا کہنا تھا”ایک امن عمل کی بجائے ہمیں انخلا کا عمل ملا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ جس طرح سے یہ معاہدہ کیا گیا، اس نے ہمیں مٹا کر رکھ دیا“

واضح رہے کہ اس معاہدے کے مطابق امریکا نے اپنی اور اپنے اتحادیوں کی فوجوں کو کم کرنے اور قیدیوں کے تبادلے پر آمادگی ظاہر کی تھی، جس کے بعد طالبان نے افغان حکومت سے بات چیت کرنے کی حامی بھری تھی

تاہم یہ مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے اور سنہ 2021 کی گرمیوں تک امریکی صدر جو بائیڈن 11 ستمبر تک افواج کے انخلا کی حامی بھر چکے تھے اور طالبان افغانستان میں ایک شہر کے بعد دوسرے شہر پر قبضہ کر رہے تھے

اس حوالے سے اپنے حالیہ انٹرویو میں اشرف غنی نے کہا کہ آخر میں جو ہوا، وہ ایک پرتشدد قبضہ تھا، نہ کے ایک سیاسی معاہدہ یا ایک ایسا سیاسی عمل، جس میں عوام کی بھی شمولیت ہو

جس روز صدر غنی نے کابل چھوڑا، اسی روز طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس کے بعد سے ملک میں معاشی بحران رونما ہو چکا ہے جسےامریکا کی طرف سے افغان فنڈ منجمد کرنے اور بین الاقوامی مدد کی عدم فراہمی نے مزید بگاڑ دیا ہے

تین مہینے بعد صدر غنی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ وہ سقوط کابل کی وجہ بننے والی کچھ وجوہات کی ذمہ داری تو لیتے ہیں جیسے ’بین الاقوامی شراکت داروں پر اعتبار کرنا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرا زندگی بھر کا کیا گیا کام تباہ ہو چکا ہے۔ میرے اقدار روند دیے گئے ہیں۔ اور مجھے قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔‘

سابق صدر حامد کرزئی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو رواں ماہ کے آغاز میں ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وزیر دفاع بسم اللہ خان، وزیر داخلہ اور پولیس کے سربراہ کو کال کرنے اور یہ پتا چلانے کے بعد کہ تمام لوگ کابل چھوڑ کر چلے گئے ہیں، انہوں نے طالبان کو کابل میں بلایا تاکہ ’لوگوں کو حفاظت فراہم کی جاسکے اور ناپسندیدہ عناصر ملک میں لوٹ مار نہ مچائیں۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close