گزشتہ ماہ سندھ میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے ہاتھوں ماڑی جلبانی گاؤں کے چار مقامی لوگوں کے قتل کی تحقیقات کرنے والے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے بدانتظامی، غلط فہمی اور کوتاہیوں کا انکشاف کیا ہے، جس کی وجہ سے معصوم لوگوں کی جانیں گئیں
28 ستمبر کو سہ پہر 3 بجے کے قریب سندھ رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساٹھ سے ستر اہلکاروں نے ’سیکیورٹی آپریشن‘ کے لیے ضلع شہید بینظیر آباد میں واقع ماڑی جلبانی گاؤں میں چھاپا مارا تھا
اہلکاروں کے رہائشی عمارت میں داخل ہونے کے بعد مقامی لوگوں کے ساتھ کشیدگی کے نتیجے میں چار بے گناہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی بھی ہو گئے تھے، فورسز نے جھڑپوں میں چار سیکیورٹی اہلکاروں کے زخمی ہونے کا بھی دعویٰ کیا
اسی روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ واٹس ایپ پر گردش کرنے والے رینجرز کے ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا ”آپریشن کے دوران ہائی پروفائل عسکریت پسند مارے گئے ہیں“
سندھ کے نگران وزیر داخلہ نے بھی واقعے کو رینجرز پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ”خودکش حملہ آور کو پکڑنے کے لیے آپریشن کیا جا رہا تھا کہ ملزمان نے اہلکاروں پر حملہ کر دیا“
تاہم ان ہلاکتوں کے بعد گاؤں کے مکینوں کی جانب سے قومی شاہراہ کو بلاک کرنے کے بعد آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کیا گیا
بعد ازاں نگران وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے ایک انکوائری کمیٹی قائم کی گئی اور واقعے کے ایک ہفتے بعد سندھ ہائی کورٹ میں عدالتی کمیشن کی تشکیل کے لیے بھی درخواست دائر کی گئی تھی۔ دوسری جانب ایچ آر سی پی نے 2 اکتوبر کو مقامی لوگوں سے ملاقات کے بعد اپنا فیکٹ فائنڈنگ مشن تشکیل دیا تھا
ایچ آر سی پی نے رپورٹ کیا کہ 28 ستمبر کی سہ پہر شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز کے چوبیس سالہ طالبِ علم لیاقت جلبانی کو قانون نافذ کرنے والوں کی تحویل میں گاؤں لایا گیا
لیاقت جلبانی اس سے قبل کہاں تھے، اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں تھا، مقامی لوگوں نے بتایا کہ ان کی شناخت چھپانے کے لیے ان کا چہرہ کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا تھا
بعد میں پولیس نے ایچ آر سی پی کو بتایا کہ سیکیورٹی فورسز نے لیاقت جلبانی کو صرف اس لیے اٹھایا تھا تاکہ انہیں گاؤں تک جانے میں مدد کے لیے بطور ’معاون‘ استعمال کیا جا سکے
ایک مقامی عینی شاہد مٹھل جلبانی نے بتایا کہ کچھ سادہ لباس اور کچھ پولیس و رینجرز کی وردیوں میں ملبوس تقریباً ساٹھ سے ستر قانون نافذ کرنے والے اہلکار ایک عمارت میں داخل ہوئے، جہاں دیہاتیوں نے عارضی گھر بنا رکھے تھے
انہوں نے مقامی لوگوں کو بتایا کہ وہ بجلی چوری میں ملوث لوگوں کی تلاش کر رہے ہیں، بغیر کسی وارننگ کے انہوں نے ایک شخص اللہ داد جلبانی کے گھر کی تلاشی لی، تلاشی کے دوران اللہ داد کے پڑوسی پینتیس سالہ سجاول جلبانی نے اہلکاروں کے ساتھ تلخ کلامی کی
زبانی تکرار کے بعد سجاول جلبانی نے سیکیورٹی اہلکاروں کو للکارا، جواب میں متعدد گولیاں چلائی گئیں، اس دوران دوران تیس سالہ نظام دین سجاول جلبانی کو بچانے کے لیے آیا لیکن وہ بھی گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا، اس کے بعد ہونے والی افراتفری کے دوران سیکیورٹی اہلکار پیچھے ہٹ گئے، جبکہ چھ دیگر دیہاتی بھی گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے
بعد ازاں گاؤں کے دو افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تیس سالہ سارنگ، پچپن سالہ اللہ داد جلبانی، بتیس سالہ امام دین اور علی نواز کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا، سارنگ اور علی نواز کو طبی امداد دیے جانے کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا
ایچ آر سی پی کا کہنا ہے ”اگرچہ آپریشن کیے جانے کے لیے خطرے کی اصل نوعیت تاحال واضح نہیں ہے، ریاست اور قانون نافذ کرنے والے حکام کو چار شہریوں کی ہلاکت اور دیگر کے زخمی ہونے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔“
ایچ آر سی پی ٹیم نے یہ بھی سفارش کی کہ صوبائی حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ انکوائری کمیٹی کے ذریعے واقعے کی منصفانہ، جامع اور مکمل شفافیت کے ساتھ تحقیقات کرائی جائیں
اس کے علاوہ لیاقت جلبانی کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے میں ملوث افراد کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جانی چاہیے، اس نے سفارش کی کہ حکومت متاثرہ خاندانوں اور لیاقت جلبانی کی مدد کرے اور انہیں معاوضہ فراہم کرے۔