جنگ میں عام شہریوں کو تحفظ حاصل نہیں ہوتا

ڈاکٹر مبارک علی

تاریخ میں جنگوں کے ذریعے قومیں اپنے تنازعات کا فیصلہ کرتی رہی ہیں۔ اپنے مخالف کو شکست دنے کے بعد فتح یاب فوجیں شہروں اور قصبوں میں لوٹ مار کرتی تھیں۔ مردوں اور عورتوں کو غلام بنا کر ان کو منڈیوں میں فروخت کرتی تھیں۔

عہد وسطیٰ میں جب جنگوں میں قتل عام اور خونریزی ہوئی تو اس مسئلے پر غور کیا گیا کہ اس کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے۔ خاص طور مسیحی مذہب میں اس پر بحث ہوئی کہ عیسائیت امن کا مظہر ہے، اس میں جنگ کرنا ناجائز ہے، لیکن سیاسی طور پر جب حکمرانوں میں باہم جنگیں ہوئی تو ان جنگوں کو جائز قرار دینے کے لیے مذہبی رہنماؤں نے ضابطہِ اخلاق کو تشکیل دیا۔

چوتھی صدی میں St. Augustin نے اس موضوع کی تشریح کرتے ہوئے وضاحت کی کہ اگر حق کی جنگ ہو تو اس میں مخالف دُشمن کو مارنا یا قتل کرنا جائز ہے، کیونکہ حق کی جنگ، ذاتی شہرت یا مال غنیمت کے لیے نہیں ہوتی، اس کی بنیاد اخلاقیات پر ہوتی ہے، اس لیے مخالف کو ہر صورت میں شکست دینا چاہیے۔

سینٹ آگسٹین (430 AD) نے ‘حق کی جنگ‘ کے بارے میں یہ بھی کہا کہ اگر اس میں مخالف مسیحی نہیں ہے تو اس صورت میں مخالف فوجوں کا قتل عام جائز ہے۔ ان کے لڑکوں کو بھی قتل کر دینا چاہیے۔ کیونکہ بالغ ہونے کے بعد وہ بھی مسیحیت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

سینٹ آگسٹین کی اسی تھیوری کو عہدِ وسطیٰ کے مشہور مذہبی رہنما تھامس اکوئنس نے تسلیم کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ ‘حق کی جنگ‘ میں قتل و غارت گری کا مقصد شکست خوردہ قوم کو سزا دینا ہوتا ہے، کیونکہ یہ جنگ اخلاقی قدروں پر لڑی جاتی ہے اس لیے اس میں ہونے والی خونریزی جائز ہے۔

‘حق کی جنگ‘ کے بارے میں دوسرے مسیحی رہنماؤں نے بھی اپنے نظریات پیش کیے، جن میں جنگ کی خونریزی کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ مثلاً اگر دُشمن ہتھیار ڈال دے تو پھر اس کے فوجیوں کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ اگر دُشمن جنگ سے فرار ہو جائے تو اس کا پیچھا نہیں کرنا چاہیے۔ شہری جو غیر مسلح ہوں اور جنگ میں شریک نہ ہوں، ان کو قتل کرنا ناجائز ہے۔

رومی سلطنت کے زوال کے بعد یورپ میں فیوڈل ازم کا ظہور ہوا۔ ان فیوڈل لارڈز کے اپنے قلعے ہوتے تھے۔ فوج میں نائٹس یا جنگجو ہوتے تھے۔ SIRF یا کسانوں کو عام فوجی بنا کر انہیں جنگ میں جھونک دیا جاتا تھا۔ لہٰذا عہدِ وسطیٰ میں یہ فیوڈل لارڈز آپس میں مسلسل جنگیں کرتے رہے۔ جنگوں کے دوران ان کی فوجیں نہ صرف شہروں میں لوٹ مار کرتی تھیں بلکہ چرچوں میں رکھے ہوئے تبرکات کو بھی مالِ غنیمت سمجھ کر لے جایا کرتی تھیں۔ اس صورت حال میں چرچ کے اعلیٰ مذہبی عہدیداروں میں چرچ اور اس کی جائیداد کے تحفظ کے لیے ایک عہدنامہ تحریر کیا، جس میں انہوں نے ‘’خدائی امن‘ (Peace of God) کا نظریہ پیش کیا۔

اس کو مذہبی شکل دے کر فیوڈل لارڈز اور اس کی فوجوں پر پابندیاں عائد کیں کہ وہ چرچ کے تبرکات کو نہیں لوٹیں گے، تاجروں اور شہریوں کو تنگ نہیں کریں گے، دولت کی لالچ اور زمینوں پر قبضے کے لیے جنگ نہیں لڑیں گے۔ اس نے ایک حد تک تو بے گناہ شہریوں کو تحفظ دیا مگر صورت حال اس وقت بدلی، جب 1618ء سے لے کر 1648ء تک یورپ میں جنگ لڑی گئی اور اس تیس سالہ جنگ کا زیادہ تر حصہ جرمنی میں لڑا گیا۔ اس جنگ میں جرمنی کی 40 فیصد آبادی ختم ہو گئی۔ شہر اور گاؤں کو جلا دیا گیا۔ جب 1648ء میں ویسٹ فیلیا معاہدے کے تحت جرمنی میں قومی ریاستوں کا عمل قیام میں آیا تو اس کے ساتھ ہی ایک کانفرنس میں اس پر غور کیا گیا کہ آئندہ جنگوں کو کیسے روکا جائے، شہریوں کا تحفظ کیسے دیا جائے اور ریاستوں کے درمیان امن کو برقرار کیسے رکھا جائے۔

سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں جنگ اور شہریوں کے بارے میں جو نظریات سامنے آئے، وہ مذہبی رہنماؤں کے نہیں تھے بلکہ سیکولر نظریات رکھنے والے مفکرین کے تھے۔ انہوں نے بین الاقوامی ضابطہ اخلاق کو پیش کیا۔ ان میں ہالینڈ کا فلسفی Hugo Grotius بھی شامل تھا۔ اس نے جنگ کی تباہ کاریوں کو روکنے اور شہریوں کو تحفظ دینے کے لیے قوانین کی تشکیل کی۔ یہ وہ بین الاقوامی تحریک تھی، کہ جس کے نتیجے میں Hague Convention 1899 ہوا۔ جس میں کہا گیا کہ قوموں کے درمیان امن کے معاہدے ہونے چاہییں۔

اس سلسلہ میں دوسرا Geneva Convention ، جو 1949ء میں ہوا۔ جس میں جنگی قیدیوں کو سہولتیں دینے کا کہا گیا، لیکن امن اور شہریوں کے تحفظ کا یہ سلسلہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران ختم ہو گیا تھا، حملے کی صورت میں اب شہری بھی ملک کا دفاع کرنے لگے اور اب جنگ دو ریاستوں اور قوموں کے درمیان ہونے لگی۔ مہلک ہتھیار تیار ہونے لگے۔ جنگیں بحری، بری اور فضائی ہو گئی۔ اس صورت حال میں فوجیوں کے ساتھ ساتھ شہری بھی جنگوں میں مارے گئے۔

دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے ایٹم بمبوں سے جاپان کے دو شہر ہیروشیما اور ناگاساکی کو نیست و نابود کر دیا۔ اسی جنگ کے دوران اتحادی فضائیہ نے جرمنی کے شہر ڈریسڈن پر بمباری کر کے اس کے شہریوں کا تقریبا خاتمہ کر دیا۔

موجودہ دور میں یورپی ملکوں کے علاوہ ایشیا کے دوسرے ممالک جیسے چین، بھارت اور پاکستان کے پاس بھی نیو کلیئر ہتھیار ہیں۔ اسرائیل نے اگرچہ اعلان تو نہیں کیا مگر وہ بھی نیو کلیئر طاقت ہے۔ جوہری ہتھیاروں کی موجودگی سے انسانوں کے خاتمے کا خطرہ ہے۔ نیو کلیئر جنگ کے بجائے جنگیں اب بھی ہوتی ہیں اور بے گناہ شہری لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں۔ امریکہ نے ویتنام اور عراق میں بھی عام شہریوں کو قتل کیا، انگلینڈ نے لیبیا میں قذافی کی حکومت کا تختہ اُلٹا اور اس دوران عام شہریوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

اگرچہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ انسان تہذیبی طور پر ترقی کر رہا ہے مگر اس کے ساتھ ہی عام شہری امن و امان سے محروم جنگ اور دہشت گردی کے نتیجے میں جانیں دے رہے ہیں۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close