خون آشام غزہ: شہید ہوتے معصوم بچے اور شہیدوں کی ماؤں کا مذاق اڑاتی اسرائیلی عورتیں۔۔

ویب ڈیسک

غزہ میں گذشتہ سترہ دن سے اسرائیل کی طرف سے مسلط کی گئی تباہ کن بمباری کے نتیجے میں بڑی تعداد میں فلسطینی بچے شہید ہو رہے ہیں۔ شہداء میں ایک سات سالہ بچہ بھی ہے، جس کی دردناک موت کی تفصیلات پر ہر آنکھ اشک بار ہے

سات سالہ بچے یوسف کی ماں اپنے بچے کو ہسپتال میں تلاش کرنے آئی تو ڈاکٹروں کو کہتی رہی ”میرے بیٹے یوسف کی عمر سات سال ہے۔۔ اس کے بال گھنگریالے، سفید اور پیارے ہیں۔“

اس تلاش کے دوران اسے پتا چلا کہ اس کا گھنگریالے اور پیارے بالوں والا معصوم سا شہزادہ اسرائیلی بمباری میں شہید ہو چکا ہے۔ ماں کے لیے اس کی موت کسی صدمے سے کم نہیں تھی۔ وہ اپنے چھوٹے بیٹے اور شوہر کے ساتھ ہسپتال میں تھی اور رونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ ننھے یوسف کی شہادت کے اس تکلیف دہ صدمے نے دنیا کو رلا دیا

مشہور شخصیات سمیت سوشل میڈیا پر ہزاروں لوگوں نے ننھے یوسف کی تصویر شیئر کی اور اسرائیلی فوج کی وحشت کی مذمت کی ہے۔ تصویر اور وڈیو شیئر کرنے والوں میں شامی اداکار معتصم النہار بھی شامل ہیں

معتصم نے شہید ہونے والے معصوم بچے یوسف کی ایک تصویر پوسٹ کی اور اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ”یہ یوسف ہے۔۔ جس کے ’گھنگریالے، سفید اور پیارے بال ہیں‘ اس کے ساتھ صدمے سے نڈھال ماں کی فریاد بھی سنی جا سکتی ہے‘‘

اس وقت اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ کی پٹی مسلط کی گئی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں یوسف جیسے پندرہ سو سے زائد معصوم بچے شہید کیے جا چکے ہیں۔۔ لیکن دوسری طرف فلسطینی بچوں کے قتل عام پر نسل پرست صہیونیوں میں پائی جانے والی نفرت کا سوشل میڈیا پر واضح طور پر اظہار کیا جا رہا ہے

اسرائیل کی ظالمانہ بمباری میں اپنے بچوں کو کھونے والی فلسطینی ماؤں کی مصیبت میں اسرائیلی عورتوں کی طرف سے بے بس فلسطینی ماؤں کا روپ دھار کر ان کا تمسخر اڑانے کی مکروہ اور نفرت انگیز حرکات کی جا رہی ہیں

اسرائیلی عورتوں کی تمسخر آمیز وڈیو کے بارے میں صارفین کا کہنا ہے کہ ایک طرف غزہ میں سیکڑوں خاندان اسرائیلی بمباری میں مارے جا چکے ہیں اور ہر گھر میں کہرام بپا ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی عورتوں کی طرف سے بے بس فلسطینیوں کا مذاق اڑانا اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینی بچوں کے قتلِ عام پر اسرائیلیوں میں کوئی انسانی ہمدردی نہیں

ان وڈیوز میں اسرائیلی عورتیں مصیبت زدہ غزہ کی ماؤں کا تمسخر اڑاتے ہوئے ان کے مصائب پر شک کرتی نظر آئیں۔ ایک خاتون نے کہا ”آپ کو عمل کرنا سکھاؤں گی۔ آپ اپنے چہروں پر تھوڑا سا کیچپ لگا سکتے ہیں اور پھر کچھ پاؤڈر یا آٹا ڈال کر یہ بتا سکتے ہیں کہ آپ راکھ اور ملبے کے نیچے سے نکلے ہیں“

تاہم ان کلپس نے فوری طور پر فلسطینیوں میں غصے کی لہر کو جنم دیا اور فلسطینی ماؤں کے المیے اور درد کو کم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر تنقید سامنے آئی ہے

بہت سے فلسطینیوں نے اپنے معصوم بچوں کی شہادت اور ان کی ماؤں کے درد کا مذاق اڑاتی ان وڈیوز کے جواب میں غزہ سے دستاویزی تصاویر اور وڈیوز کے ساتھ تباہی کے حقیقی مناظر دکھا کر انہیں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ غزہ میں کیا ہو رہا ہے

اسرائیلی مہمان انڈین خاتون اینکر کی ساڑھی کے رنگ پر برہم

فلسطینی مسلمانوں سے اسرائیلی انتہا پسند صیہونیوں کی نسل پرستی پر مبنی ایسی ہی نفرت، بغض اور عدم برداشت کا اندازہ ایک اور وڈیو سے بھی لگایا جا سکتا، جس میں انڈیا کے ٹی وی چینل کی ایک خاتون نیوز اینکر اور اسرائیل کی انٹیل اسپیشل فورسز کے ایک نمائندے کے درمیان ٹی وی پر تلخ کلامی دکھائی دی

عرب نیوز کے مطابق انڈین نیوز اینکر کو صرف اس وجہ سے شو میں مدعو اسرائیلی مہمان کے ہاتھوں تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ اتفاقی طور پر خاتون اینکر کی ساڑھی میں فلسطین کے جھنڈے کے رنگ موجود تھے

اس شو میں انٹیل اسپیشل فورسز کے نمائندے فریڈرک لنڈاؤ نے ٹی وی چینل ’مِرَر ناو‘ کے شو میں انٹرویو کے دوران اینکر شریا ڈھونڈیال سے کہا ”میں نے جان بوجھ کر سفید شرٹ کے ساتھ نیلی ٹائی اس وجہ سے پہنی ہوئی ہے کیونکہ آپ نے سبز، سرخ اور کالے (یعنی فلسطین کے جھنڈے کے رنگ) کی ساڑھی پہنی ہوئی ہے“

انہوں نے کہا کہ نیلا اور سفید ہمیشہ غالب رہے گا۔ نیلا اور سفید اسرائیلی پرچم کے رنگ ہیں جبکہ فلسطینی پرچم سبز، سفید، سرخ اور سیاہ ہے

اس کے جواب میں شریا ڈھونڈیال نے کہا ”مذہب کے نام پر رنگوں کو تقسیم نہ کریں۔ میں نے جو اس وقت پہنا ہے وہ صرف میری دادی کی ساڑھی ہے۔ اگر وہ زندہ ہوتیں تو آج 105 سال کی ہوتیں۔ وہ نہیں جانتی تھیں کہ اسرائیل اور حماس کا تنازع کیا ہے۔۔ اور یہ ساڑھی کسی بھی ملک کی حمایت نہیں کرتی۔“

اس کے جواب میں فریڈرک لنڈاؤ نے غصے میں کہا ”اسے کسی اور تہوار کے موقعے پر پہننے کے لیے رکھیں!“

اسرائیلی نمائندے کے جواب میں نیوز اینکر نے کہا ”میں آپ کو اختیار نہیں دوں گی کہ آپ مجھے بتائیں کہ مجھے کیا پہننا ہے اور کیا بولنا ہے۔ میں وہی کہوں گی جو سچائی ہے جو مجھے نظر آتی ہے“

بعد ازاں اپنے سوشل میڈیا پر صحافی نے شو کا ایک کلپ پوسٹ کیا اور لکھا، ”میری پیاری مرحومہ دادی کی ساڑھی نے آج شام میرے اسرائیلی مہمان کو پریشان کر دیا۔ (ان کے اس رویے پر) ایک بار تو، میرے پاس بولنے کے لیے الفاظ ہی نہیں تھے۔۔“

غزہ میں زخمیوں کا علاج مشکل۔۔ ڈاکٹر سرکہ، گھریلو سوئیاں اور کپڑا استعمال کرنے پر مجبور

اسرائیل اور حماس میں سات اکتوبر سے جاری جنگ میں غزہ کے اسپتالوں میں ادویات اور ضروری طبی اشیا کی شدید کمی ہے، جب کہ اسرائیل کی ظالمانہ بمباری کی وجہ سے زخمیوں کی تعداد میں مسلسل اضافے سے صورتِ حال خراب ہو چکی ہے

شہر کے ایک اسپتال میں خدمات انجام دیتے ہوئے ڈاکٹر ندال عابد کا کہنا تھا کہ زخمیوں کو فرش پر لٹا کر، راہ داری میں بستر بچھا کر اور دو مریضوں کے لیے مخصوص کمرے میں دس زخمیوں کے علاج کی صورت میں طبی امداد دینے کی کوشش کی جا رہی ہے

انہوں نے بتایا ”زخمیوں کے لیے پٹی یا بینڈیج عدم دستیاب ہونے کے سبب کپڑے کی پٹیاں استعمال کی جا رہی ہیں۔“

ان کا مزید کہنا تھا کہ زخموں پر لگائی جانے والے جراثیم کش ادویات (اینٹی سیپٹک) ختم ہو چکی ہیں، اب اس کے بجائے سرکہ لگایا جا رہا ہے

ڈاکٹر ندال عابد نے بتایا کہ طبی عملہ زخموں پر ٹانکے لگانے والی مخصوص طبی سوئیوں (سرجیکل نیڈلز) کی جگہ کپڑے سینے والی سوئیاں استعمال کرنے پر مجبور ہے

اسرائیل کی جانب سے دو ہفتے سے زائد سے جاری ناکہ بندی اور بمباری سے غزہ میں اشیاء ضروریہ کی شدید ترین قلت ہے، جب کہ اسپتالوں میں علاج کا نظام تباہ ہو چکا ہے۔ اسرائیل نے لگ بھگ دو ہفتوں سے غزہ میں ایندھن، پانی، بجلی کی فراہمی اور خوراک کی اشیا سمیت دیگر ضروریات کی ترسیل بند کر دی ہے

زخمیوں اور دیگر بیماروں کے علاج میں استعمال ہونے والے سامان کے علاوہ صاف پانی کی بھی شدید کمی ہے۔ درد کو کم کرنے اور انفیکشن سے بچنے کے لیے بنیادی اشیا ختم ہو رہی ہیں۔ اسپتالوں کے جنریٹرز کے لیے ایندھن ختم ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے

ڈاکٹر ندال عابد ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نامی عالمی تنظیم سے منسلک ہیں۔ انہوں نے القدس اسپتال سے خبر رساں ادارے‘ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے گفتگو میں بتایا کہ طبی عملے کے پاس ہر چیز کی کمی ہے جب کہ وہ اس دوران انتہائی پیچیدہ سرجریوں سے بھی نمٹ رہے ہیں

اسرائیلی فوج کی طرف سے جمعے کو زخمی فلسطینیوں کا علاج کرنے والے متعدد طبی مراکز خالی کرنے کے احکامات سامنے آئے تھے، لیکن انخلا کے حکم اور بنیادی طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے باوجود طبی مرکز اب بھی سینکڑوں زخمیوں ور مریضوں کے علاج میں مصروف ہیں۔ گزشتہ روز اسرائیل الاہلی میں ایسے ہی ایک اسپتال پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں پانچ سو سے زائد فلسطینی شہید ہو گئے

اسرائیل نے غزہ کے اسپتال پر حملہ کرنے کے بعد ڈھٹائی سے اس کا الزام بھی غزہ کے اسلامک فرنٹ پر لگا دیا، لیکن برطانوی ٹیلی ویژن ‘چینل 4 ‘ نے غزّہ کے الاہلی بپٹسٹ ہسپتال پر حملے سے متعلق اسرائیلی دعووں کا بھانڈا پھوڑ دیا

چینل 4 نے کہا ہے کہ فلسطین اسلامی جہاد کو قصور وار ٹھہرانے کے لئے اسرائیل کے پیش کردہ دلائل ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے فوجی ترجمان ڈینیئل ہاگاری نے پریس کانفرنس میں ہسپتال پر حملے کی ذمہ داری غزّہ پر ڈالنے کے لئےایک آڈیو ریکارڈنگ پیش کی ہے، جس کے بارے میں ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ آڈیو ریکارڈنگ حماس کے دو اراکین کی گفتگو پر مبنی ہے

خبر میں کہا گیا ہے کہ دو غیر جانبدار اخبارات نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا ہے۔ اخبارات نے کہا ہے کہ آڈیو میں استعمال کی گئی زبان، لہجہ اور الفاظ علاقے میں استعمال کی جانے والی زبان سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ دوسری جانب حماس نے بھی اس آڈیو ریکارڈنگ کو جعلی قرار دیا ہے

چینل 4 نے کہا ہے کہ اسرائیل نے ہسپتال پر کھولے گئے فائر کے دو مختلف مقامات دِکھائے ہیں اور یہ مقامات ہسپتال کے قریب واقع قبرستان میں ہیں

خبر میں کہا گیا ہے کہ حملے سے متعلق مناظر میں ہسپتال پر گرنے والا گولہ بہت بلندی سے اور افقی شکل میں حرکت کرتا دِکھائی دے رہا ہے اور یہ بلندی فائرنگ مقام سے ہم آہنگ نہیں ہے

چینل نے ترجمان کے دِکھائے گئے دو فائرنگ پوائنٹ کو بھی غیر حقیقی قرار دیا اور اسلامی جہاد کے پاس ہسپتال پر گرنے والے ایمونیش کو فائر کرنے والے وار ہیڈ کی موجودگی کے دعوے سے متعلق کہا ہے کہ اسرائیل ماضی میں بھی شہری اموات کی ذمہ داری قبول کرنے سے کتراتا رہا ہے

واضح رہے کہ جنگ اور بمباری سے غزہ کی نصف آبادی بے گھر ہو چکی ہیں، جن میں لگ بھگ دس ہزار فلسطینی بھی اسپتال کے احاطے میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

القدس اسپتال کے سرجن ڈاکٹر ندال عابد کا کہنا ہے ”ہن سب لوگ خوف زدہ ہیں لیکن کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم یہاں سے نکل جائیں۔‘‘

غزہ کے شفا اسپتال کے جنرل ڈائریکٹر محمد ابو سلمیہ کا کہنا تھا کہ شفا اسپتال میں 700 مریضوں کے علاج کی گنجائش ہے، لیکن اس میں پانچ ہزار سے زائد افراد یہاں زیرِ علاج ہیں

ڈاکٹر زخمیوں اور علاج کے لیے آئے ہوئے افراد سے بھری راہ داریوں میں کراہتے ہوئے مریضوں کے درمیان خدمات انجام دے رہے ہیں

اسپتالوں میں ایسے چھوٹے بچوں کو بھی انتہائی نگہداشت کے وارڈز میں لایا جا رہا ہے، جن کے ساتھ ان کے خاندان کا کوئی فرد نہیں ہوتا کیوں کہ بمباری میں نشانہ بننے کے سبب ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہوتا

ڈاکٹر ندال عابد کہتے ہیں ”یہ حالات ہمیں سکتے کی سی کیفیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close