27 ستمبر کو سچل تھانے کے علاقے اسکیم 33 سعدی ٹاؤن سادات امروہہ سوسائٹی کے قریب الاظہر گارڈن کے عقب میں ویران علاقے سے خاتون کی کمبل میں لپٹی ہاتھ پاؤں بندھی لاش ملی تھی۔ جس کے بارے میں پولیس نے شبہ ظاہر کیا کہ خاتون کو کسی اور مقام پر قتل کرکے لاش یہاں پھینکی گئی۔ پولیس کے مطابق مقتولہ کی عمر تیس سے پینتیس سال کے درمیان تھی، لاش سے متعلق ایک راہ گیر نے اطلاع دی تھی۔
اب خاتون کی لاش کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات میں نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ شہر کے عیاش اور امیر افراد کی جانب سے مضافاتی علاقوں میں قائم کیے گئے فارم ہاوسز میں منظم انداز میں ڈانس پارٹیز کا نیٹ ورک کام کر رہا ہے، شہر بھر سے لوگ ان یہاں کا رخ کرتے ہیں اور ان محفلوں میں مبینہ طور پر ممنوعہ ادویات سمیت دیگر منشیات کا استعمال بھی عام ہے
واضح رہے کہ کراچی پولیس کے اسپیشل انوسٹی گیشن یونٹ کی جانب سے 27 ستمبر کو کراچی میں سچل تھانے کی حدود سے ملنے والی لاش کی ابتدائی تحقیقات میڈیا کے سامنے لائی گئی تھیں۔ پولیس کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ سچل کے علاقے سے ملنے والی لڑکی کی موت ممنوعہ ادویات کے استعمال کی وجہ سے ہوئی
فارم ہاؤس میں ڈانس پارٹیز کے دوران منشیات کی زیادتی کے باعث لڑکی کی موت کے واقعے کے اہم حقائق سامنے آئے ہیں، تاہم پولیس نے خاتون کے قتل میں ملوث 4 ملزمان محمد کاشف ولد یوسف، اعجاز حسین عرف گڈو ولد محمد عیسیٰ، راجہ ولد نور مسیح اور انیل غوری عرف ھنی عرف صابر ولد دانیال بوٹا کو گرفتار کر لیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کے فارم ہاؤسز میں ڈانس پارٹیز کے دوران ڈرگ اوور ڈوز سے بارہ لڑکیوں کی اموات کا واقعہ سامنے آیا اور مرنے والی لڑکیوں کو فارم ہاؤسز میں ہی دفنانے کا انکشاف ہوا، تاہم گزشتہ ماہ سچل تھانے کی حدود سے ملنے والی کمبل میں لپٹی لاش نے لرزہ خیز واقعات کا پردہ چاک کیا
ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر ایس ایچ او غلام حسین کورائی کو اس معاملے سے جوڑا جا رہا ہے، غلام حسین کورائی 25 ستمبر (واقعے سے دو دن پہلے) اپنے اہل خانہ کے ساتھ عمرے کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ ان پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپنے دائرہ اختیار میں ایسی تقریبات کی اجازت دی اور وہ فارم ہاس، جہاں یہ واقعہ پیش آیا، ان کی ملکیت تھا
یہ چونکا دینے والا بیان 27 ستمبر کو سچل تھانے کی حدود سے ایک لڑکی کی لاش ملنے کے بعد منظر عام پر آیا. ابتدائی رپورٹ کے مطابق متوفی لڑکی ملتان سے خریدی گئی تھی اور اسے ثقلین نامی شخص نے سچل کے علاقے میں ایک آنٹی سے فارم ہاس میں ڈانس پارٹی کے لیے بک کرایا تھا جبکہ احسان نامی لڑکے نے سندھ پولیس کے اسپیشل انویسٹیگیشن یونٹ (ایس آئی یو) نے سرکاری ملازم کے فارم ہاس کو سیل کر دیا ہے
لڑکی کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اسے چند ماہ قبل پاکستان کے شہر ملتان سے کراچی لایا گیا تھا۔ پولیس کی جانب سے مزید بتایا گیا کہ اس سے قبل بھی کئی لڑکیوں کو مار کر نامعلوم مقام پر پھینکا جا چکا ہے
اس حوالے سے ایس ایس پی ایس آئی یو جنید شیخ کا کہنا ہے کہ پولیس سچل کے علاقے سے ملنے والی لاش سمیت دیگر واقعات کی تحقیقات کر رہی ہے۔ اب تک کئی افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ کیس سے متعلق مزید تفصیلات بیان نہیں کی جا سکتیں
اس سے قبل پولیس کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات میں بتایا گیا تھا کہ کراچی کے مضافاتی علاقوں میں ڈانس پارٹیوں کا ایک منظم نیٹ ورک چل رہا ہے۔ اس نیٹ ورک میں پولیس سمیت دیگر افراد ناصرف آن لائن پارٹیوں کے سسٹم چلا رہے ہیں، بلکہ ملک کے دیگر علاقوں سے لڑکیوں کو بھی لاکر ان فارم ہاوسز پر رکھا جاتا ہے
پولیس کے مطابق کم عمر نوجوان لڑکے لڑکیوں کو پہلے مرحلے میں ڈانس پارٹیوں میں شامل کیا جاتا ہے، جہاں ان کے جذبات کو ابھارنے کے لیے ممنوعہ ادویات اور نشے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ شہر میں کام کرنے والے ریسکیو ادارے چند ماہ میں دس سے زائد ملنے والی لاپتہ لاشوں کی تدفین کرچکے ہیں
اس نیٹ ورک کے حوالے سے سامنے والی تفصیلات کو جان کر پتہ چلتا ہے کہ یہ گھناؤنا کاروبار کس طرح نوجوان نسل کو گمراہی، منشیات اور بلآخر موت کے منہ میں دھکیل رہا ہے
کراچی جیل سے حال ہی میں رہائی پانے والے ایک قیدی اسلم (فرضی نام) نے بتایا ”میں چوری کے الزام میں ایک سال قبل جیل گیا تھا، مجھ پر اپنے دوستوں کی مدد سے اپنی سگی خالہ کے گھر چوری کا الزام تھا“
اسلم نے بتایا ”کراچی کے علاقے نیلم کالونی میں کچھ عرصہ قبل میں اپنے ایک دوست کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا۔ دوستوں کے ساتھ میوزیکل پروگرام میں جانے کا سلسلہ اسی دوستی کے گروپ سے ملا تھا۔ پہلے مہینے میں ایک یا دو بار جانے کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ہفتے میں دو بار مختلف مقامات پارٹیوں میں جانا شروع کر دیا۔“
اسلم کے مطابق ”پہلے تو صرف ایک دو ٹافی نما گولیاں کھا لیا کرتے تھے تو خوب خوشی ملتی تھی اور بہت ہلا گلا کرتے تھے، لیکن تھوڑے عرصے بعد یہ گولیاں اثر نہیں کرتی تھیں، تو مختلف اقسام کے نشے کرنے شروع کیے، پھر اچانک طبیعت خراب ہونے پر گھر والے ہسپتال لے کر گئے۔ ڈاکٹر نے کچھ ٹسیٹ کروائے تو گھر والوں کو معلوم ہوا کہ میں نشہ کرتا ہوں“
اسلم کا کہنا ہے ”ابتدا میں گھر والوں نے گھر میں بند کرنا شروع کیا، اور پھر میرا جیب خرچ بلکل بند کر دیا، مجھے یونیورسٹی جانے سے بھی روک دیا گیا اور مجھ سے میرا موبائل فون بھی چھین لیا گیا۔ گھر والے جو کر سکتے تھے، انہوں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی، لیکن میں ان کی ایک بھی سننے کو تیار نہیں تھا۔ پھر نوبت یہاں تک آگئی کہ گھر والوں نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا“
اسلم کے بقول ”چار بہن بھائی میں سب سے چھوٹا ہونے پر جتنا پیار مجھے دیا گیا تھا، وہ بلکل ختم ہونے لگا۔ سب مجھ سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ اور ایسے میں میرے پاس اپنی جیب خرچ کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ کبھی دوستوں کی طرف سے نشہ مل جاتا تھا، لیکن کچھ دن بعد جب میں پیسے نہیں لا رہا تھا تو دوستوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا اور مجھے دیکھ نظر انداز کرنے لگے۔ پھر ایک روز میری خالہ کے گھر چوری ہوئی اور اس کا الزام مجھ پر لگا دیا گیا، میرا قصور صرف اتنا تھا کہ میں چوری سے تین روز پہلے ان کے گھر گیا تھا“
اسلم کے مطابق، کئی عرصہ جیل میں رہنے کے بعد اب انہوں نے نشے کی عادت چھوڑ دی ہے۔ وہ گھر والوں کے ساتھ ایک پھر گولیمار میں واقع اپنے پرانے گھر میں رہ رہے ہیں اور اپنے پرانے دوستوں سمیت تمام تعلق کے دوستوں کے ملنا جلنا ختم کر چکے ہیں
کراچی پولیس کے ایک سینیئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے دور دراز علاقوں میں سینکڑوں کی تعداد میں فارم ہاؤسز اور پرائیورٹ پوائنٹس موجود ہیں۔ ان مقامات پر مـختلف مواقع پر روزانہ اور ہفتے کی بنیادوں پر بھی محفلیں سجائی جاتی ہیں
اس نیٹ ورک کے کام کرنے کے طریقے کے بارے میں انہوں نے بتایا ”کچھ ماہ قبل دو نوجوانوں کو نشے کے ساتھ حراست میں لیا تو انہوں نے دوران تفتیش بتایا کہ اسکول اور کالجز میں پڑھنے والے بچوں سمیت دیگر نوجوانوں کو ان محفلوں کے بارے میں سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف واٹس ایپ گروپس بھی موجود ہیں، جہاں ان پروگرامز کی تفصیلات دی جاتی ہے۔ پہلے مرحلے میں ایک آزاد ماحول میں ہلا گلا کرتے نوجوان آہستہ آہستہ نشے کی جانب بڑھنے لگتے ہیں۔ جذبات کو ابھارنے والی گولیاں اور دیگر نشے کے عادی افراد نئے نوجوانوں کو اس کی طرف مائل کرتے ہیں۔ اور آہستہ آہستہ نوجوانوں کو اس کا عادی بنا دیا جاتا ہے۔ پہلے مرحلے میں سستے داموں یا مفت فراہم کی جانے والی یہ اشیا بعد میں پیسوں کے عوض دی جاتی ہیں اور جن نوجوانوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے، انہیں نئے افراد کو لانے کا ٹاسک دیا جاتا ہے۔ پھر نئے نوجوانوں کے لانے پر ہی انہیں ممنوعہ ادویات اور نشے کا سامان دیا جاتا ہے“
جامعہ کراچی میں کرمنالوجی ڈیپارٹمنٹ کی پروفیسر ڈاکٹر نائمہ سعید کے مطابق پاکستان میں نوجوانوں میں نشے کی عادت ہر گزرتے روز کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے، لیکن منظم سازش کے تحت نوجوانوں کو اس دلدل میں دھکیلا جارہا ہے
کراچی کے مضافاتی علاقوں سے نوجوانوں کی ملنے والی لاشوں کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پولیس خود اس بات کا کئی بار اقرار کر چکی ہے کہ شہر سے دور قائم ان فارم ہاوسز میں غیر اخلاقی محفلیں منقعد کی جاتی ہیں۔ اور ان میں نوجوان کھلے عام نشے کا استعمال کرتے ہیں، کئی بار نشے کے زیادہ مقدار میں استعمال کرنے کی وجہ سے نوجوان اپنے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں
پروفیسر ڈاکٹر نائمہ سعید کہتی ہیں ”نشے کی جانب نوجوانوں کو راغب کرنے والے جال بُن کر نوجوانوں کو پھنساتے ہیں، کہیں تعلیم میں ذہن تیز کرنے کا جھانسہ دیا جاتا ہے تو کہیں خوش رہنے کے لیے ان ادویات کا استعمال کروایا جاتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اچھے بھلے گھر کے بچے اس لعنت کے عادی بن جاتے ہیں اور اپنے لیے اور اپنے گھروالوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں“
نائمہ سعید کے مطابق معاشرے میں جدید طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے جرائم پیشہ افراد نوجوانوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ شور شرابے اور ڈانس پارٹی سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ کئی نوجوانوں کو ناصرف منشیات کا عادی بنا دیتا ہے بلکہ جرائم کی طرف بھی دھکیل دیتا ہے
انہوں نے کہا کہ ہمارے ارد گرد ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں نوجوان پہلے نشے کے عادی بنے اور پھر دیکھتے ہیں دیکھتے وہ نشے کے حصول کے لیے پیسے حاصل کرنے کے لیے مختلف جرم بھی کرنے لگے
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 50 لاکھ سے زائد نشے کے عادی افراد ملک میں موجود ہیں۔