دماغی امراض کے مریضوں میں اضافہ، سماج یا ایک پاگل خانہ؟

آمنہ سویرا

گذشتہ ماہ ایک ضروری کام کے سلسلے میں گلبرگ جانا ہوا، ایک عزیزہ بھی ہمراہ چل دیں۔ راستے میں اچانک انہیں سر درد شروع ہو گیا، جو کچھ ہی دیر میں شدت اختیار کر گیا

جیل روڈ پہنچ کر ہم نے دوا کی تلاش شروع کی، کیونکہ وہاں دو تین بڑے ہسپتال ہونے کی وجہ سے چھوٹی بڑی کافی فارمیسیز ساتھ ساتھ ہی موجود ہیں

جس دکان پہ بھی گئے، جواب نفی میں ملا، کسی چھوٹے یا بڑے میڈیکل اسٹور نے مثبت جواب نہیں دیا

عزیزہ کہنے لگیں، مجھے واپس گھر چھوڑ دیں۔ واپسی پہ انہوں نے اپنے محلے کے ایک چھوٹے سے اسٹور سے مطلوبہ دوا پتہ کی تو وہاں وہ دستیاب تھی۔ سستی سی دوا تھی، جبکہ میرا خیال تھا کہ شاید مہنگی ہونے کی وجہ سے آؤٹ آف اسٹاک ہے

ہماری یہ عزیزہ کچھ عرصہ سے ڈپریشن فیز سے گزر رہی ہیں، تو جب کبھی شدید سر درد ہو، انہیں یہ دوا در کار ہوتی ہے

اس واقعے کے چند روز بعد ایک فارما کمپنی میں کام کرنے والی دوست سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے تذکرہ کیا، جس پہ انہوں نے بتایا کہ ڈپریشن کی دوا کے علاوہ بلڈ پریشر اور امراض قلب تک کی دوائیں ناپید ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو ملکی حالات، امپورٹ کا بند ہونا اور کچھ ذخیرہ اندوزی ہے، جس کی بدولت ان کی مانگ میں چار گنا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے

ملک بھر میں ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور بدقسمتی سے ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ بیماری مزید بڑھ رہی ہے

ایک دہائی پہلے تک اس ملک میں دماغی امراض کے ڈاکٹر نہ ہونے کے برابر تھے، جبکہ اب تمام بڑے ہسپتالوں میں دماغی امراض کے شعبے موجود ہیں اور روزانہ سینکڑوں مریض وہاں معائنے کے لیے آتے ہیں

بڑے شہروں میں جگہ جگہ سائیکالوجسٹ، سائیکاٹرسٹ اور دماغی امراض کے کلینکس کے بورڈ نظر آنا شروع ہو چکے ہیں‌۔ کسی اچھے سائیکاٹرسٹ یا نیورولوجسٹ کو دکھانے کے لیے کئی روز پہلے وقت لینا پڑتا ہے

ایک دوسری صورت حال بھی ہے، جو بے حد تشویش ناک ہے۔ یہ تو وہ سب لوگ ہیں جو کسی نہ کسی طرح سے ڈاکٹر تک رسائی رکھتے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے ادارے ڈبلیو ایچ او کے مطابق ’ملک کی چار فیصد آبادی کو دماغی امراض کا سامنا ہے۔‘

آپ کبھی باہر آتے جاتے رک کر لوگوں پہ تھوڑا سا غور کریں، تو آپ کو کئی ایسے چہرے دکھائی دیں گے، جن پہ پژمردگی چھائی نظر آئے گی اور ہو سکتا ہے کہ چند ایک آپ کو خود کلامی کرتے دکھائی دیں گے

کئی ایسے واقعات آئے روز میڈیا میں سامنے آتے ہیں، جن میں ذہنی دباؤ کے نتیجے میں معمولی معاملے پر بات قتل کرنے تک پہنچ جاتی ہے۔ جب کوئی بات کرتا ہے، اس کے منہ سے شکایتیں ہی نکل رہی ہوتی ہیں ۔ گویا شُکر، فضل کے الفاط ناپید ہو چکے ہیں۔

ارباب اختیار سے اپیل ہی ہے کہ جو کچھ وہ عوام کے لیے کر رہے ہیں، مزید مت کریں۔ کسی آس، امید کی کرن یا ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی ضرورت نہیں۔

آپ اپنا کام جاری رکھیں۔ جلد ہی یہ سماج ایک بہت بڑا سا پاگل خانہ بن کر رہ جائے گا اور اس مملکتِ خداداد میں حکمرانوں کے بجائے پاگل خانے کے انچارج رہ جائیں گے۔

بشکریہ: اردو نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close