بحریہ ٹاؤن کے سربراہ و بانی ملک ریاض بے لگام گھوڑے کی طرح سندھ کی زمینوں پر قابض ہیں۔ ہزاروں ایکڑ اراضی کو اونے پونے داموں لے چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے آنکھ بند کرکے سرکاری اور مقامی سندھی اور بلوچوں کی اراضی ملک ریاض کی جھولی میں ڈال دی۔ انڈیجینیس لوگوں کی جانب سے مزاحمت کرنے پر سرکاری مشینری استعمال کی گئیں۔ جعلی اینکاؤنٹر اسپیشلسٹ راشی پولیس افسران کا استعمال کیا گیا۔ مقامی لوگوں کو اغوا کیا گیا۔ گن پوائنٹ پر مقامی لوگوں سے ان کی جدی پشتی اراضی کے دستاویزات پر دستخط کروائے گئے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی مدت کے پوری ہونے کے بعد نگران حکومت نے بحریہ ٹاؤن کی فائلیں کھولنا شروع کردیں اور عدالتیں بھی سرگرم ہوگئیں۔
2019 کو بحریہ ٹاؤن کی طرف سے زمین کی خریداری میں 460 ارب روپے کی بدعنوانی کا انکشاف ہوا۔ اس بدعنوانی کا معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا تھا۔ جس پر سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو 460 ارب روپے قسط وار سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔ جس کے بعد اب تک صرف 65 ارب روپے کی رقم جمع کروائی گئی۔ باقی 395 ارب روپے جمع کروانے سے انکاری ہے۔ رقم کی عدم ادائیگی پر ایک مرتبہ پھر یعنی 18 اکتوبر 2023 کو سپریم کورٹ نے یہ کیس دوبارہ کھول دیا۔ جبکہ دوسری جانب کراچی میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) نے بحریہ ٹاؤن کے چیک باؤنس ہونے پر ملک ریاض اور اس کے بیٹے علی ریاض ملک کے خلاف مقدمہ بھی درج کروا دیا۔ یہ رقم (چیک) کی ادائیگی ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے منظور شدہ لے آؤٹ پلان پر این او سی دینے کے لئے کی گئی۔ انیس کروڑ پچیس لاکھ سے زائد مالیت کے تینوں چیک باؤنس نکلے۔ ایس بی سی اے کی جانب سے بحریہ ٹاؤن میں جائیداد کی خرید و فروخت اور اشتہاری مہم روکنے کے احکامات بھی جاری کر دیے گئے۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق بحریہ ٹاؤن کراچی کے خلاف حقائق چھپانے اور غلط بیانی کرنے پر تحقیقات کی گئیں۔
دراصل یہ خاندانی فراڈیا ہے۔ آخر کار یہ فراڈیا کس کا لاڈلا ہے، جو نہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کا احترام کرتا ہے اور نہ ہی کسی حکومت کو گھاس ڈالتا ہے۔۔ سیاسی حکومتوں کو اپنی جیب میں ڈال دیتا ہے۔ کسی کو جوابدہ نہیں ہے۔ انڈیجینیس رائٹس الائنس کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ملک ریاض کو پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا آشیرباد حاصل ہے۔ اس سندھ دشمن لاڈلے کو مکمل چھوٹ دی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کو سندھ کے عوام کا مینڈیٹ بھی چاہیئے اور ان کی جدی پشتی اراضی بھی چاہیئے۔۔ یہ کونسی سیاست ہے، جو پیپلز پارٹی والے کراچی کے قدیم بسنے والے لوگوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔!؟
سندھ دھرتی لاوارث نہیں ہے۔ ابھی بھی اس کے سپوت زندہ ہیں۔ ماضی میں بھی بحریہ ٹاؤن کی بدمعاشیوں کا مقابلہ کیا گیا، اب بھی کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ 6 جون 2021 کو گڈاپ سٹی پولیس نے بحریہ ٹاؤن پر حملے، ہنگامہ آرائی، جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے الزام 125 سے زائد سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کے خلاف مقدمات 11 مقدمات درج کئے تھے۔ سندھی قوم پرست تنظیموں سندھ انڈیجینس رائٹس الائنس، سندھ یونائٹیڈ پارٹی، سندھ ترقی پسند پارٹی، جئے سندھ محاذ، جئے سندھ قوم پرست پارٹی، قومی عوامی تحریک و دیگر قوم پرست تنظیموں نے بحریہ ٹاؤن کی بدمعاشیوں کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ پرامن احتجاج کو روکنے پر ہنگامہ آرائی اور تشدد میں تبدیل ہوگیا تھا۔ یہ احتجاج کراچی کی قدیم سندھی اور بلوچ آبادیوں کو مسمار کرنے کے خلاف تھا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ضلع ملیر کی قدیم بستیوں کو ہٹانے کے لئے سندھ پولیس کا استعمال کیا گیا۔ مقامی افراد کی زرعی اراضی کوزبردستی بلڈرمافیاز کے حوالے کیا گیا۔ چراگاہوں پر قبضہ کیا گیا۔
بحریہ ٹاؤن کراچی کی انتظامیہ نے سندھ حکومت کی مدد سے کاٹھور کے قدیمی علاقے نورمحمد گبول گوٹھ اور عبداللہ گبول گوٹھ پر چڑھائی کردی تھی۔ احتجاج کرنے پر خواتین اور بچوں پر شیلنگ اور فائرنگ کی گئی۔ لوگوں کو ان کی جدی پشتی اراضی سے بزور بے دخل کر دیا گیا۔ انڈیجینیس رائٹس الائنس کے مطابق ملیر اور گڈاپ کے مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضے کے عمل میں ملک ریاض کو سندھ حکومت کی آشیرواد حاصل رہی۔ بحریہ ٹاؤن نے ان قدیم آبادیوں کا جینا حرام کر دیا۔ سندھ پولیس کی معاونت سے گاؤں کے رہائشیوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے خلاف جھوٹے اور مجرمانہ دفعات کے مقدمے دائر کیے گئے۔
بحریہ ٹاؤن کے سربراہ و بانی ملک ریاض ہیں۔ انہیں ایشیا کا بل گیٹس بھی کہا جاتا ہے۔ وہ کبھی ایک کنگلا کلرک ہوا کرتے تھے۔ دھوتی پہنے والے شخص ملک ریاض اب کھرب پتی بن چکے ہیں اور ان کا دولت کمانے کا سفر جاری ہے۔ انہوں نے اپنے بزنس کے ذریعے ایک ایمپائر قائم کی ہے۔ انڈیجینیس رائٹس الائنس کے رہنماؤں نے پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری پر یہ الزام لگایا کہ وہ مبینہ طور پر ملک ریاض کا بزنس پارٹنر ہے۔ جس کی وجہ سےسندھ حکومت بحریہ ٹاؤن کی پشت پناہ رہی ہے۔ زمینوں پر قبضہ کرنے کے لئے سندھ پولیس کو استعمال کیا جاتا رہا۔ مزاحمت کرنے پر شیلنگ اور فائرنگ کی جاتی تھی۔ لوگوں کے خلاف مقدمات بنائے گئے۔
سرکاری طور پر بحریہ ٹاؤن کراچی 46 ہزار ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے۔ لیکن بحریہ ٹاؤن نے 60 ہزار سے زائد اراضی غیر قانونی طور پر گھیر لی ہے۔ تاریخی قبرستان ’مور مرادی‘ بھی بحریہ ٹاؤن کی زد میں آ گئی۔ منفرد طرز تعمیر کا حامل یہ صدیوں پرانا قبرستان، جو کھیرتھر نیشنل پارک میں واقع ہے۔
یہ پورا خطہ تاریخی اور ماحولیاتی اہمیت کا حامل ہے۔ پہاڑوں اوردرختوں کو کاٹا جا رہا ہے۔ جس سے فطرت، جنگلی حیات اور ماحولیات شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ورزی ہے۔
موجودہ وقت میں یہ ہاؤسنگ اسکیم آبادی کے لحاظ سے فی الحال فیزیبل اسکیم نہیں ہے۔ کیونکہ کراچی شہر سے کافی دور واقع ہے۔ موجودہ دور میں یہاں لوگوں کو لاکر بسانا ممکن کام نہیں ہے۔ اب تک اس ہاؤسنگ اسکیم کو مصنوعی آکسیجن دی جا رہی ہے۔ 2015 سے اب تک صرف دس ہزار نفوس رہائش پذیر ہیں۔ حالانکہ اس اسکیم میں لاکھوں لوگوں کی گنجائش ہے۔ باقی اسکیم خالی پڑی ہے۔ اس اسکیم کو مکمل آباد ہونے کے لئے تیس سال کے عرصے کا وقت درکار ہے۔ موجودہ دور میں یہ اسکیم مکمل فلاپ ہو چکی ہے۔
یہ پورا علاقہ کسی زمانے میں بلوچستان کا حصہ تھا۔ مبارک ولیج سے لے کر گھگھر پھاٹک تک بلوچ ریاست تھی۔ جسے موجودہ کراچی کہتے ہیں۔ 1797ء میں خان آف قلات کے بیٹے اور حیدرآباد ریاست کے سربراہ میر تالپور کی بیٹی کی شادی ہوگئی۔ خان آف قلات نے کراچی کو اپنے بیٹے کے جہیز میں دے دیا۔ جس کے نتیجے1797ء میں کراچی، ریاست حیدرآباد (موجودہ صوبہ سندھ) میں شامل ہوا۔ اس زمانے میں ریاست حیدرآباد کے سربراہ تالپور تھے۔ تالپور، ہوت بلوچ قبیلہ کی ذیلی شاخ ہے۔ واضح رہے کہ بلوچ رسم و رواج میں جہیز لڑکے والے دیتے ہیں، لڑکی والے نہیں دیتے ہیں۔ اور اس زمانے میں جہیز پیسے کی شکل میں نہیں ہوتا تھا، بلکہ زمین، سونا اور مال مویشی کی شکل میں دیتے تھے۔
سندھ دھرتی میں شامل ہونے کے بعد کراچی کے بلوچوں پر مختلف ادوار میں مختلف حکمرانوں نے مظالم ڈھائے گئے۔ جب یہاں انگریز آئے تو بلوچوں نے بلوچ سرزمیں کے دفاع کے لئے مزاحمت کی۔ جس کی پاداش میں میر چاکر نوتک کلمتی کو 19 ویں صدی میں کراچی کی پہلی فوجی عدالت سے سزائے موت دی گئی۔ انہوں نے انگریزوں کی غلامی برداشت نہیں کی اور مزاحمت کا راستہ اختیار کیا تھا۔ پھانسی سے قبل میر چاکر نوتک کلمتی سے ان کی آخری خواہش پوچھی گئی، تو انہوں نے انگریز سامراج کو کہا کہ ان کو پھانسی ایسی جگہ پر دی جائے، جہاں سے انہیں اپنی سرزمین (کراچی) کے ساحل و کنارے اور کھیت و کھلیان نظر آئیں۔ اور وہ اپنی سرزمین کے نظاروں سے لطف اندوز ہو کر شہادت قبول کریں گے۔ اس کی خواہش کے مطابق انگریز فوج نے انہیں کراچی کے علاقے ڈالمیا کی پہاڑی چوٹی پر پھانسی دی۔ ڈالمیا سے آج بھی کراچی کا پورا منظر نظر آتا ہے۔ یہ پہاڑی علاقہ ہے۔ ڈالمیا میں آج بھی بلوچ آباد ہیں۔ جو موجودہ دور میں بھی سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق سے محروم ہیں۔ وہ ریڈ انڈین کے طورپر زندگی بسر کر رہے ہیں۔
کلمتی قبیلہ ہوت بلوچ کی ذیلی شاخ ہے اور اسی طرح زرداری بھی ہوت بلوچ کی ذیلی شاخ ہے۔۔ ایک ہوت بلوچ (میر نوتک کلمتی) نے اپنی سرزمین بچانے کے لئے شہادت قبول کر لی لیکن آج افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایک ہوت بلوچ (آصف علی زرداری) نے اپنی سرزمین کو اونے پونے داموں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے بلڈر کے حوالے کر دیا۔
بشکریہ: روزنامہ آزادی، کوئٹہ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)