ہنگلاج ماتا مندر، جو مسلمانوں کے لیے ’نانی ماں کا مندر‘ ہے

رضا ہمدانی

کراچی سے بلوچستان میں داخل ہوا تو صبح ہونے کو تھی۔ رات کا سفر کرنے کا مقصد ٹرکوں اور گاڑیوں کی بھیڑ بھاڑ سے بچنا تھا۔ بلوچستان میں داخل ہوتے ہی سڑک کی ایک جانب ٹرکوں اور گاڑیوں کی لمبی قطار نظر آئی، جو بلوچستان سے کراچی کی جانب جانے والوں کی تھی، لیکن ہم پھر بھی پھنس گئے۔ ٹرک تو ایک قطار میں کھڑے تھے لیکن مسافر بسیں اور گاڑیاں ایک سے دو لین بنا کر انتظار کر رہے تھے اور پھر تیسری لین بھی بنا لی، جس کی وجہ سے مجھ سمیت کئی گاڑیاں پھنس گئی۔

خیر اللہ اللہ کر کے راستہ ملا تو مکران کوسٹل ہائی وے پر پہنچے۔ گاڑی فراٹے بھرتی جا رہی تھی اور کئی بسوں کو اوور ٹیک کیا، جس کے اندر تو لوگ زیادہ نظر نہیں آئے لیکن پھر بھی نوجوان چھتوں پر سوار نعرے بازی کرتے جا رہے تھے۔

میں نے سوچا ’نواں آیاں اے سونیا‘ کہ نعرے بازی ہو رہی ہے۔ گاڑی آہستہ کی اور سننے کی کوشش کی کہ کیا اور کس کے حق میں نعرے لگ رہے ہیں۔ تو کانوں میں آواز آئی ’جے ماتا کی۔۔‘ میں نے گاڑی ایک بس کے پیچھے لگا لی کہ چلو ہنگلاج ماتا مندر ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، بلکہ یہ ہی پہنچا دیں گے۔

چلتے چلتے یہ بس مکران کوسٹل ہائی وے سے اتری اور کچی سڑک پر چل پڑی۔ دو پہاڑوں کے بیچ میں سے گزرتے ہوئے وسیع میدان میں داخل ہوئی اور دور ایک ٹیلا نظر آیا۔ اس کے بالکل سامنے ایک اور ٹیلا اور پھر وسیع میدان۔۔ بس اونچے والے ٹیلے کے سامنے رکی اور اس میں سوار تمام افراد ’جے ماتا کی‘ اور ’جے ماں پروتی‘ بولتے ٹیلے کی جانب چل پڑے۔

ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک ناریل تھا۔ یہ ہے مٹی کا ایک آتش فشاں، جس کو ’چندراگپ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے سامنے والا آتش فشاں چندراگپ دو اور کچھ فاصلے پر چندراگپ تین ہوا کرتا تھا، جو اب ختم ہو چکا ہے۔

بسوں میں آئے ہوئے لوگ ہندو یاتری ہیں، جو نوراتری کے لیے ماتا مندر جا رہے ہیں۔ ان کے لیے چندراگپ پر رکنا ضروری ہے کیونکہ یہاں رکے بغیر ماتا مندر نہیں جا سکتے۔ تقریباً 300 فٹ بلند چندراگپ ایک پر چند سال قبل ہی یاتریوں کی آسانی کے لیے سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔ لیکن اب بھی کچھ یاتری ایسے ہیں، جو سیڑھیوں سے جانے کے بجائے ننگے پاؤں اس آتش فشاں سے نکلنے والی مٹی کے اوپر چل کر جاتے ہیں۔

پھولے ہوئے سانس اور کئی بار راستے میں رکنے کے بعد جب 450 سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچا تو آتش فشاں کے دہانے میں گیلی مٹی ہے اور اس میں گاہے بگاہے مٹی کے بلبلے بن رہے ہیں، جیسے کسی نے نیچے ہلکی آنچ رکھی ہوئی ہے۔ اس کے ارد گرد بس اتنی جگہ تھی کہ ایک آدمی ایک وقت میں چل سکے اور وہ بھی بڑے توازن کے ساتھ۔ یاتری دہانی میں ناریل پھینکتے اور کچھ تو اس دہانے کے گرد ایک چکر لگاتے اور کچھ تین سے چار اور چند نے سات چکر کاٹے۔

کچھ دیر بعد نیچے اترا اور ہنگلاج ماتا کے مندر کی جانب چل پڑا۔ چند ہی کلومیٹر کی دوری پر ہنگول نیشنل پارک کا گیٹ نظر آیا۔ داخلے سے پہلے ہی محکمہ وائلڈ لائف کے گارڈز نے نام پوچھا، ہتھیار تو نہیں ہے اور کس لیے آئے ہو جیسے سوال کیے اور جانے دیا۔

نیشنل پارک میں سفر کے دوران دیکھا کہ وہ لوگ جو کوسٹل ہائی وے پر دو تین بار پیدل سفر کرتے ہوئے نظر آئے، یہاں پر پیدل سفر کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ خیر ہنگلاج ماتا مندر کے مرکزی گیٹ پر پہنچے تو سخت سکیورٹی تھی۔ یاتریوں کی بڑی تعداد سکیورٹی چیک کے بعد اندر جا رہی تھی۔ مجھ جیسے برگر کو دیکھا جس نے جینز، ٹی شرٹ، گردن میں کوفیہ پہنا ہوا ہے تو روک لیا اور کہا کہ سائیڈ پر کھڑے ہو جائیں۔ رش کم ہوا تو انہوں نے مجھ سے آنے کا مقصد دریافت کیا اور مطمئن ہونے پر جانے دیا۔

اصل میں اس کو کہتے تو ہنگلاج ماتا مندر ہیں لیکن یہ شکتی پیتھ ہے۔ یہاں پر ستی ماں کا سر کٹ کر گرا تھا اور اسی لیے یہ مقام نہایت مقدس ہے۔

ماتا کو صرف میٹھے کا پرشاد ہی چڑھایا جاتا ہے اور اسی لیے یاتری اپنے ساتھ حلوہ یا کچھ اور میٹھا لے کر آ رہے تھے۔ سفید ہلکی داڑھی اور زعفرانی رنگ کا کرتا پہنے مہاراج کے چرن چھو کر باہر جا رہے تھے۔ میں جب پہنچا تو میں بھی چرن چھونے کے لیے جھکا تو دیکھا کہ وہ مسکرا رہے تھے، جیسے کہہ رہے ہوں ’تمہیں یہ کرنے کی ضرورت نہیں۔‘

ماتا کے سر کی مورتی کے نیچے ایک راستہ ہے، جس کو نوراتری کے لیے بند کیا ہوا تھا۔ مہاراج کے مطابق یہ راستہ دوبارہ نوراتری کے بعد کھولا جائے گا۔ اس راستے کو ’ماتا کا پیٹ‘ بولتے ہیں۔

اگر ایک شخص کسی عورت کو اپنی بیٹی یا بہن بنانا چاہتا ہے تو اپنی خلوصِ نیت کا ثبوت دینے یہاں آتا ہے۔ عورت آگے اور مرد اس کے پیچھے اس تنگ اور گھپ اندھیرے راستے میں رینگتے ہیں۔ اگر وہ دوسری جانب مندر کے اندر نکل آئیں تو نیت میں کھوٹ نہیں لیکن اگر خلوصِ نیت نہیں تو وہ مندر سے دور نکلتے ہیں۔ لیکن وہاں پر یاتریوں کا کہنا تھا کہ ماتا کے پیٹ میں جانے کی ہمت صرف وہ ہی کرتے ہیں، جن کی نیت صاف ہو۔

اچانک باہر کچھ شور ہوا اور دیکھا کہ ہنگول نیشنل پارک کی سڑک پر جن یاتریوں کو پیدل چلتے دیکھا تھا، وہ پہنچ گئے ہیں۔ ان کا خیر مقدم کیا گیا اور ان کے سامنے پانی سے ایک لکیر کھینچی گئی۔ یہ قافلہ تھرپارکر سے آیا ہے۔

اس نے 13 دنوں میں پیدل اور ننگے پیر یہ مسافت طے کی ہے۔ جوان اور بوڑھے، عورتیں اور بچے سب ہی اس قافلے میں شامل ہیں۔ جن کی طبیعت ناساز یا پیروں میں زیادہ تکلیف ہے ان کو فوراً قریب ہی فرسٹ ایڈ سینٹر لے جایا گیا اور مرہم پٹی اور دوا دی گئی۔

مہاراج سے پوچھا کہ راستے میں جس جگہ بھی چائے پینے کے لیے رکا یا جس سکیورٹی چیک پوسٹ پر رکا تو میں نے کہا کہ ماتا مندر جا رہا ہوں تو آگے سے جواب میں کہا گیا ’اچھا، نانی ماں کے مندر‘ جا رہے ہیں۔ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ شاہ عبدالطیف بھٹائی یہاں آئے تھے۔ کب آئے تھے یہ تو معلوم نہیں مگر انہوں نے ماتا کو نانی ماں کہا اور اس دن سے اب تک مقامی مسلمان ماتا جی کو نانی ماں ہی کے نام سے پکارتے ہیں۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اُردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close