اقبال، جناح، گاندھی اور اسرائیل

وسعت اللہ خان

پہلی عالمی جنگ کے خاتمے سے ایک برس قبل (دو نومبر انیس سو سترہ) برطانوی وزیر خارجہ لارڈ بالفور نے یورپ کے سب سے بڑے بینکر خاندان کے سربراہ اور صیہونی رہنما لارڈ والٹر روتھ چائلڈز کو ایک سرکاری خط میں نوید دی کہ شہنشاہِ معظم کی وفادار کابینہ نے اس موقف کو تسلیم کر لیا ہے کہ فلسطین یہودیوں کا قومی وطن ہے اور اس کے حصول کے لیے برطانیہ عظمی ہر ممکن مدد کرے گا۔تاریخ میں یہ خط بالفور ڈیکلریشن کے نام سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔

اس وعدے کی شکل میں برطانیہ نے حلوائی کی دوکان پر دادا جی کی فاتحہ تب کی، جب فلسطین خلافتِ عثمانیہ کا صوبہ تھا اور ابھی خلافتِ عمثانیہ کو جنگ میں شکست ہونی تھی اور اس کے بعد لیگ آف نیشنز قائم ہونی تھی اور لیگ کی جانب سے فلسطین کا انتظام بطور ٹرسٹی برطانیہ کے سپرد کیا جانا تھا۔ ابھی فلسطین میں یہودیوں کی باقاعدہ آبادکاری کا عمل تیز نہیں ہوا تھا اور وہاں ان کی مقامی آبادی محض تین فیصد تھی۔

انیس سو سینتیس میں یہودی آبادکاری کے خلاف بڑھتی ہوئی عرب بے چینی کے پیشِ نظر برطانیہ نے دارالامرا کے رکن ولیم پیل کی سربراہی میں فلسطین کی دو حصوں میں تقسیم کی خاطر ایک جانچ کمیشن بھیجا۔تاریخ میں اسے ’پیل کمیشن‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
فلسطینی قیادت نے اس تجویز کی سخت مخالفت کی مگر دس برس بعد اقوامِ متحدہ نے کم و بیش پیل کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے کی پانچ عالمی چوہدریوں (امریکا، برطانیہ، فرانس، سوویت یونین اور قوم پرست چین) کی تائید سے منظوری دے دی۔

اس منظوری کے چھ ماہ بعد چودہ مئی انیس سو اڑتالیس کے دن ڈیوڈ بن گوریان نے اسرائیل کے باضابطہ قیام کا اعلان کر دیا اور اقوامِ متحدہ کی کھینچی گئی حدود میں صدیوں سے آباد فلسطینی آبادی کو کھدیڑنے کا جو کام شروع ہوا، وہ آج تک جاری ہے۔

چند عشرے پہلے تک ’اسرائیل اور صیہونی نظریے کی مخالفت‘ اور ’یہودی قوم سے دشمنی‘ کو دو الگ الگ خانوں میں رکھا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ اسرائیلی پالیسیوں اور صیہونی نظریے کی مخالفت بھی یہود دشمنی کے برابر قرار پائی۔ اس نئی تشریح کی روشنی میں دیکھا جائے کہ بیسویں اور اکیسویں صدی میں کس کس پر یہود دشمنی کا ٹھپہ لگ سکتا ہے؟ سب سے پہلے اپنے گھر (برصغیر) سے شروع کرتے ہیں، جہاں کانگریس اور مسلم لیگ میں کسی اور نکتے پر اتفاق ہو نہ ہو، فلسطین نوازی پر ضرور اتفاق تھا۔

فلسطین کی تقسیم سے متعلق پیل کمیشن کا فارمولا پڑھ کے علامہ اقبال نے برطانیہ کی نیشنل لیگ کی رہنما لیڈی فرکشارسن کے نام اپنے خط میں لکھا: ’’ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ فلسطین برطانیہ کا حصہ نہیں ہے بلکہ لیگ آف نیشنز نے اسے فلسطین کا امانت دار (ٹرسٹی) بنایا ہے۔ حالانکہ ہندوستانی مسلمانوں کا خیال ہے کہ لیگ آف نیشنز بذاتِ خود مسلمان دنیا کی بندربانٹ کے لیے ایک نیا اینگلو فرنچ ہتھیار ہے۔ عربوں نے جب فلسطین فتح کیا تو اس فتح سے سیکڑوں برس پہلے یہودی وہاں سے نکل چکے تھے۔‘‘

چند دن بعد اقبال نے آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں کہا کہ ’’اگر یہ یہودیوں سے وعدہ کردہ سرزمین ہوتی تو پھر یورپ کے مسیحی صلیبی جنگوں کے ذریعے اس سرزمین پر قبضہ کی لگاتار کوششیں نہ کرتے۔ ان کی مزاحمت کسی یہودی نے نہیں بلکہ صلاح الدین ایوبی نے کی۔ لہٰذا آج کا فلسطین نہ تو یہودی مسئلہ ہے اور نہ ہی مسیحی ۔ یہ خالصتاً مسلمان مسئلہ ہے۔‘‘

جولائی انیس سو انتالیس میں برطانوی حکومت نے فلسطین میں ایک یہودی مملکت کے قیام کی خاطر رائے عامہ کی ہمواری کے لیے ایک قرطاس ابیض شایع کیا، اسے پڑھ کے مسلم لیگ کے قائد بیرسٹر محمد علی جناح نے وائسرائے لارڈ لنلتھگو کو خط لکھا کہ پہلی عالمی جنگ کے دوران عربوں سے بعد از جنگ آزادی کے جو وعدے کیے گئے، آخر انہیں کیوں پورا نہیں کیا جا رہا؟ بصورتِ دیگر ہم موجودہ جنگ میں برطانیہ کی حمائیت کرنے کے فیصلے پر نظرِ ثانی اور ان صوبوں میں احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں، جہاں جہاں ہماری حکومت قائم ہے۔

جناح صاحب نے چوہدری خلیق الزماں اور عبدالرحمان صدیقی کو حالات معلوم کرنے کے لیے فلسطین بھیجا۔ جناح صاحب نے ان متاثرہ فلسطینی خاندانوں کی مدد کے لیے ایک فنڈ کے قیام کا بھی اعلان کیا، جن کے لوگ انیس سو سینتیس تا انتالیس برطانیہ کی سامراجی پالیسی کے خلاف مزاحمتی تحریک میں شہید یا متاثر ہوئے تھے۔

قیامِ پاکستان کے تین ماہ بعد جب نومبر انیس سو سینتالیس میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے فلسطین کی دو حصوں میں تقسیم کی قرار داد منظور کی تو اس قرار داد کے سب سے بڑِے حمائیتی امریکا کے صدر ہیری ٹرومین کو پاکستان کے گورنر جنرل نے خط لکھا کہ ’’یہ قرار داد اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ یہودی قوم ہٹلر کے ہاتھوں پہلے ہی بہت مظالم سہہ چکی ہے اور مجھے خدشہ ہے کہ ان مظالم کے بدلے فلسطینیوں سے جو ناانصافی کی جا رہی ہے، اس کے نتائج بھی انھی کو سہنے پڑیں گے۔“

بی بی سی کے نامہ نگار رابرٹ سائمن کو انٹرویو دیتے ہوئے جناح صاحب نے فلسطین کی تقسیم کے فیصلے کو نامنصفانہ و ظالمانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ زخم بہت تکلیف دہ ثابت ہوگا۔

چھبیس نومبر انیس سو اڑتیس کے ہریجن اخبار میں گاندھی جی کا ایک مضمون شایع ہوا۔ اس کے دو تین پیرے پیشِ خدمت ہیں: ’’فلسطین اسی طرح فلسطینیوں کا ہے جیسے برطانیہ انگریزوں کا اور فرانس فرانسیسیوں کا۔ وہاں کے عربوں پر یہودیوں کا تسلط ایک غیر انسانی فعل ہوگا۔ آج جو کچھ فلسطین میں ہو رہا ہے اس کی کوئی اخلاقی تاویل نہیں ہو سکتی۔یہ انسانیت کے خلاف جرم ہوگا اگر اس علاقے میں فلسطینیوں کی تعداد جبراً کم کر کے اس کا جزوی یا کلی انتظام بطور قومی وطن یہودیوں کے سپرد کر دیا جائے۔

شریفانہ اقدام تو یہی ہوگا کہ جن جن مغربی ممالک میں یہودی آباد ہیں، وہاں وہاں ان کے ساتھ مقامی سطح پر منصفانہ اور برابری کے سلوک پر زور دیا جائے۔ فرانسیسی یہودی اتنے ہی فرانسیسی ہیں، جتنے کے فرانس میں رہنے والے مسیحی۔

مقدس یہودی صحیفوں میں اسرائیل کا تصور جغرافیائی نہیں روحانی شکل میں ہے۔بالفرض اگر وہ فلسطین کے موجودہ جغرافیے کو ہی اپنا قومی وطن مانتے ہیں، تب بھی برطانوی بندوقوں کے سائے میں وہاں داخل ہونا زیادتی ہے۔ ایک مذہبی فریضہ بموں اور بندوقوں کے سائے میں کیسے انجام پا سکتا ہے؟ یہودی صرف عربوں کے دل جیت کے ہی وہاں آباد ہو سکتے ہیں۔

طاقت کا سہارا لیے بغیر بھی مدِمقابل کو قائل کرنے کے ہزار طریقے ہیں۔ اس کے لیے برطانوی سامراجی قوت کی مدد سے مقامی لوگوں کو زمین سے اکھاڑنا ضروری نہیں۔ ان لوگوں کی یہودی قوم سے کوئی دشمنی بھی تو نہیں ہے۔

میں چاہتا ہوں کہ عرب بھی اپنی مزاحمت عدم تشدد کے اصولوں پر استوار کریں، مگر اس وقت وہاں ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پیشِ نظر میں عرب مزاحمت کی سمت کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کرنا چاہتا۔‘‘

اگرچہ انیس سو پچاس میں ممبئی میں اسرائیل کا قونصل خانہ کھل گیا مگر نہرو اور اندرا گاندھی کے دور تک بھارت کی فلسطین پالیسی کم و بیش گاندھیانہ نظریہ فلسطین کی شکل میں برقرار رہی۔ انیس سو چوہتر میں پی ایل او کو تسلیم کرنے والا پہلا غیر عرب ملک بھارت تھا۔ اقوامِ متحدہ اور غیرجانبدار تحریک کے پلیٹ فارم پر، جو ممالک فلسطینی کاز کی مسلسل حمائیتی تھی، ان میں بھارت بھی شامل تھا۔

انیس سو بانوے میں اسرائیل اور بھارت کے مکمل سفارتی تعلقات قائم ہوئے، جب پی ایل او نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا، مگر نریندر مودی کے آتے ہی گاندھی واد پالیسی پوری طرح لپیٹ دی گئی اور بھارت مکمل طور پر اسرائیلی کیمپ میں چلا گیا۔

جب کہ پاکستان کی فلسطین پالیسی آج بھی جناح صاحب کے طے کردہ موقف کی روشنی میں مرتب ہے۔ بس اتنی تبدیلی آئی ہے کہ اب پاکستان میں بھی یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے کیا کیا فائدے اور نقصانات ہو سکتے ہیں؟

بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close