بلوچستان نیشنل پارٹی(بی این پی) مینگل گروپ کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی اتحادی حکومت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بنائی گئی تھی اور اگر جنرل باجوہ کے عمران خان سے اختلافات نہ ہوتے تو پی ڈی ایم اتحاد کبھی نہ بن پاتا
مقامی نیوز چینل ’ڈان نیوز‘ کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے پی ڈی ایم کی حکومت کا حصہ رہنے والے اختر مینگل نے پی ڈی ایم حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اپنے معاملات کی راہیں ہموار کرنے کے لیے انہوں نے نیب ترمیم کیں، انہوں نے اسمبلی کے فلور پر ایک دن میں 56 بل پاس کیے لیکن انہوں نے ہمارا ایک بل بھی پاس نہیں کیا
2018 میں اس وقت کی حکمران جماعت تحریک انصاف کی اتحادی حکومت کا حصہ رہنے والی بلوچستان نیشنل پارٹی۔مینگل نے بالآخر عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے لیے پی ڈی ایم کے ساتھ ہاتھ ملایا تھا
اختر مینگل کی پارٹی اس کے بعد سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت والی اتحاد کی پالیسیوں سے اپنی بے چینی کے بارے میں آواز اٹھاتی رہی ہے، کئی مواقع پر اس سے علیحدگی کا اشارہ بھی دیتی رہی
انٹرویو میں اختر مینگل نے کہا کہ مسلم لیگ ن، پی پی پی اور پی ٹی آئی نے انہیں مایوس کیا ہے اور وہ تینوں بڑی جماعتوں میں سے کسی کے بھی ساتھ اتحاد کرنے سے پہلے ایک بار نہیں بلکہ سو بار سوچیں گے
انہوں نے کہا ”وہ ہمارے ووٹوں کی خاطر ہمیں واپس بلاتے ہیں اور جب کام ہو جاتا ہے تو وہ ہم سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔“
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت نے ان کا استحصال کیا ہے تو اختر مینگل نے جواب دیا ”یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کو استعمال کرتا ہے“
انہوں نے کہا کہ جب میں پی ڈی ایم سے اتحاد کے لیے شہباز شریف سے ملا تو انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم سے کہا کہ چونکہ اب وہ معاہدہ کر چکے ہیں تو انہیں ماضی کی طرح بلوچستان کو اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے
اختر مینگل نے کہا ”شہباز شریف نے ہمیں لپیٹ کر ان کی (اسٹیبلشمنٹ) جیبوں میں ڈال دیا“
ان کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کا معاملہ اس وقت اٹھایا گیا، جب پی ڈی ایم کی حکومت بنی اور اس معاملے پر کچھ نہیں کیا گیا تو مینگل گروپ نے کابینہ سے استعفیٰ دینا شروع کر دیا
بی این پی۔مینگل کے سربراہ نے کہا کہ دو وزرا کے مستعفی ہونے کے بعد انہوں نے کہا کہ ہمیں بیٹھ کر بات کرنی چاہیے
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اتحادی حکومت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بنائی گئی تھی
اختر مینگل کے بقول، ”میں نے عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے کے بعد باجوہ (اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ) سے ملاقات کی اور وہ تذبذب کا شکار تھے، وہ پی ڈی ایم اور چیئرمین پی ٹی آئی دونوں کو خوش رکھنے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ جو بھی جیتے، وہ اس کے ساتھ ہو لیں“
انہوں نے مزید کہا کہ جنرل باجوہ پی ڈی ایم حکومت اور چیئرمین پی ٹی آئی کو آرام سے چلنے کو کہتے تھے، وہ ان میں سے کسی ایک کو بھی پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے
اختر مینگل نے کہا کہ اگر جنرل باجوہ کے عمران خان سے اختلافات نہ ہوتے تو پی ڈی ایم اتحاد کبھی نہیں بنتا
انتخابات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم بننے کے ایک منٹ بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ تحریک کامیاب ہونے کے بعد ملک میں فوری انتخابات کرائے جائیں
اختر مینگل نے مزید کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی پر سوالات اٹھا رہے ہیں، اس ملک کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ فیصلے کبھی عوام نہیں کرتے اور جس انداز میں وہ لوٹے ہیں تو یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا وہ ایک سال پہلے واپس نہیں آ سکتے تھے
انہوں نے کہا کہ الیکشن قریب آتے ہی نواز کی واپسی ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر دیتی ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ خود اس کی وضاحت کیسے کریں گے
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی واپسی شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے، انہیں کم از کم اپنے سابق اتحادیوں کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنے مقدمات نمٹانے کے علاوہ کچھ نہ کر سکی
ان کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی بڑی جماعت انتخابات کی خواہاں ہو گی، اگر انتخابات ہوتے ہیں تو اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ جماعتیں جو اتحادی حکومت کا حصہ تھیں وہ جیت جائیں گی، ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ پی ڈی ایم اب بھی قائم ہے یا پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے ساتھ پی ڈی ایم کا بھی خاتمہ ہو گیا تھا۔