میں ایک کنکھجورا ہوں۔
بڑی شدت سے مجھے لگا کہ استاد اصل سائنس یہی ہے، کنکھجورا ہو جانے میں بڑا سکون ہے، جب علی بابا میرے پاس بیٹھے تھے اور انہوں نے مجھے کنکھجورے کا قصہ سنایا۔
کنکھجورا صبح اٹھتا تھا، مزے سے چلتا چلتا اپنے شکار کا بندوبست کرتا اور پیٹ بھرنے کے بعد کام دھندے میں مصروف ہو جاتا۔
ایک دن وہ جنگل سے گزر رہا تھا کہ ایک ہاتھی نے اسے روک لیا۔ پہلے تو ہاتھی اسے بڑے غور سے دیر تک گھورتا رہا۔
کنکھجورے کو بے چینی شروع ہو گئی کہ یہ تو ایک پاؤں رکھے گا اور میرا قیمہ بن جائے گا، سوچ رہا تھا کہ رکوں یا فرار ہو جاؤں، یا کہیں زمین کے اندر گھس جاؤں۔
آخر اس نے جی کڑا کر کے پوچھ لیا کہ ’ہاتھی صاحب آپ نے مجھے روکا کیوں ہے اور اب اس طرح کیوں گھور رہے ہیں، جو مسئلہ ہے بتائیں اور مجھے جانے دیں۔‘
ہاتھی گم تھا، دور پار کہیں دیکھ رہا تھا۔ کنکھجورے کو لگا کہ استاد یہی وقت ہے میں کٹ لیتا ہوں، اسی وقت ہاتھی بول پڑا۔
’یار، تم چلتے کیسے ہو؟ تمہارے اتنے سارے پاؤں ہیں، پہلے تو میں گننے کی کوشش کرتا رہا، پھر سوچتا رہا کہ تم کون سا پاؤں پہلے اٹھاتے ہوگے، پھر خیال آیا کہ تمہارا دماغ اتنے سارے پاؤں کیسے مینیج کرتا ہوگا۔۔ پھر میں نے سوچا کہ میرے چار پاؤں ہیں، ایک دُم ہے اور ایک سونڈ ہے، میں اتنا بڑا ہوں لیکن چلتا ہوں تو پتہ ہوتا ہے کہ انہی چار ٹانگوں نے وزن اٹھانا ہے تو اسی لیے میں زیادہ بھاگتا بھی نہیں اور ایک وقت میں دو پاؤں ضرور میرے جو ہیں وہ زمین پہ ٹکے ہوتے ہیں۔ تو تم، یہ اتنے ساری ٹانگوں والے جاندار! مجھے بتاؤ، تم آخر کیسے چلتے ہو؟ تمہیں کیسے پتہ چلتا ہے کہ پہلا پاؤں کب رکھنا ہے، چوبیسواں کب رکھنا ہے، چوتھا کس وقت اٹھانا ہے اور دسواں کب رکھنا ہے؟
کنکھجورے نے کہا ’لو، یہ کیا بات ہوئی، میں سوچتا تھوڑی ہوں، میں تو بس چلتا رہتا ہوں، مجھے کیا پتہ کون سا پیر پہلے اٹھ جاتا ہے۔‘
ہاتھی نے کہا کہ ’اچھا، یہ بات ہے تو ذرا مجھے چل کے دکھاؤ، میں خود نوٹ کرتا ہوں کہ پہلے کون سا پیر تم چلاتے ہو۔‘
کنکھجورا اب جو چلنا شروع ہوا تو پہلے لڑکھڑایا اور اس کے بعد پھسل کر ساتھ موجود گڑھے میں گر گیا۔
ہاتھی ہنسا اور آگے نکل گیا۔
اسے پتہ تھا کہ کنکھجورے نے اب سوچنا شروع کر دیا ہے کہ پہلے کون سا پیر اٹھائے گا۔
تو بس عین اسی وقت لگا مجھے کہ میں دو ٹانگوں والا ایک کنکھجورا ہوں۔ جس وقت میں سوچنا شروع کرتا ہوں کہ اب کون سا پیر اٹھانا ہے، اسی وقت ساری گڑبڑ شروع ہو جاتی ہے اور میں گر جاتا ہوں یا پھر میں وہی کام اتنی تاخیر سے کرتا ہوں کہ اس کا ہائی ٹائم نکل جاتا ہے۔
پھر میں نے تھوڑا مزید سوچا تو مجھے لگا کہ بجائے ’ٹھیک فیصلہ‘ کرنے کے بارے میں برسوں سوچتے رہنے کے، اگر وقت پڑ ہی گیا ہے، تو فیصلہ کیا جائے اور وہ سارا وقت (سارے سال) اس فیصلے کو صحیح انجام تک پہنچانے کی کوشش میں لگائے جائیں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔
ایک بات مزید جو میں سمجھا، وہ یہ ہے کہ فیصلہ کرنا ہے تو جو چیز دماغ میں پہلی بار آئی ہے، وہ کر گزرنا بہتر ہوتا ہے۔ لمبی چوڑی سوچ بچار کے بعد بھی آپ نے کرنا وہی ہوتا ہے، جو دماغ نے سب سے پہلے سوچا تھا۔
کنکھجورے والے قصے کو گوروں نے پانچ لائنوں میں بیان کر دیا ہے، اسے ’دی سینٹیپڈ ڈیلیما‘ کہا جاتا ہے۔
اس پورے بلاگ کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کام بغیر سوچے سکون سے ہو رہا ہے، اس کے بارے میں سوچیں گے تو پھنس جائیں گے، کام رک جائے گا، اور جدھر کسی مشکل فیصلے کے بارے میں سوچنا پڑ رہا ہے تو پہلا حل جو نظر آتا ہے، سکون سے اس سمت میں چل پڑیں، خدا خیر کرے گا۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اُردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)