ایک آدھ فتح، پے در پے شکستیں، شکستوں پر چہ میگوئیاں، چہ میگوئیوں کا ٹیم میں اختلافات کی افواہوں میں ڈھلنا اور پھر ان افواہوں کا خبروں میں بدلنا، سب کو پچھاڑتی نیوزی لینڈ کے خلاف اگر مگر کی ڈگر پر ڈگمگاتی پاکستانی ٹیم کی فتح۔۔ یہی تو ہے، جو 92 میں بھی ہوا تھا اور اس بار بھی بہت کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے
یہ تو آپ جانتے ہیں ہونگے کہ گزشتہ روز کھیلے گئے پاکستان اور نیوزی لینڈ کے میچ میں فخر زمان کی دھواں دھار بیٹنگ کی بدولت پاکستان ڈی ایل ایس میتھڈ کے تحت 21 رنز سے فاتح رہا
سو ہم آپ کو اس میچ کی تفصیلات کے بجائے لیے چلتے ہیں 1992 کے ورلڈ کپ میں، جو پاکستان کا جیتا ہوا پہلا اور واحد ورلڈکپ ہے۔
92 اور موجودہ ورلڈ کپ کے مابین کبھی تو سنجیدگی سے اور کبھی مذاق میں مماثلتیں تلاش کرنے کا عمل جاری ہے۔ اب کی بار جنوبی افریقہ سے شکست کے بعد لوگوں کو ایک دفعہ پھر یہ بات کہنے کا موقع ملا کہ ’1992کے ورلڈ کپ میں بھی ایسے ہی ہوا تھا۔‘
1992 کے ورلڈکپ میں جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں جونٹی رہوڈز کے ہاتھوں انضمام الحق کو رن آؤٹ کرنا کسے یاد نہیں۔ رن آؤٹ بیچ میدان کا قصہ تھا لیکن ایک کہانی میدان سے باہر لکھی جا رہی تھی
بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس میچ میں پاکستان کی شکست کے بعد پاکستانی ٹیم کے کپتان عمران خان گرجتے برستے پویلین میں داخل ہوئے اور اپنا بلا ایک سرے سے اٹھا کر دوسرے سرے پر پھینک دیا
اس برہمی کا پس منظر بھی بیان کیے دیتے ہیں۔ بارش پاکستان کے لیے نامہربان ثابت ہوئی۔ انضمام رن آؤٹ ہونے سے پہلے عمدہ بیٹنگ کر رہے تھے، ان کے بعد ایک گیند کے وقفے سے عمران خان بھی آؤٹ ہو گئے۔ اس کے بعد کوئی کھلاڑی وکٹ پر ٹک نہ سکا۔۔ میچ تو پاکستان کے ہاتھ سے نکلا سو نکلا، سیمی فائنل میں پہنچنے کا امکان بھی کم بہت ہی کم رہ گیا۔ ان سب باتوں نے پاکستانی کپتان کو برافروختہ کیا
معروف فوٹو گرافر اقبال منیر کو عمران خان کی غصے کے عالم میں تصویر بنانے کا خیال سوجھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ پیش قدمی کرتے، وسیم اکرم نے انہیں خبردار کیا کہ اس وقت کپتان کے پاس پھٹکنا مناسب نہیں، اس وقت صرف جاوید میانداد ہی ان کے پاس جا سکتے ہیں۔ پھر کچھ ہی دیر میں میانداد عمران خان کا غصہ ٹھنڈا کرنے، انہیں سمجھانے بجھانے اور ان کی دل جوئی کرتے نظر آئے
یہ منظر اقبال منیر نے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔ اس تصویر کی کہانی معروف لکھاری سعد شفقت نے اپنے مضمون No third man میں بیان کی ہے۔ یہ تصویر اقبال منیر کی کتاب ’پاکستان: ورلڈ چیمپئنز‘ کا حصہ ہے۔ سعد شفقت کے قلم سے میانداد کی سوانح ’کٹنگ ایج‘ میں بھی مذکورہ تصویر شامل ہے
تصویر کہانی سے آگے بڑھ کر کچھ بات شکست کے بعد ٹیم کی ذہنی کیفیت پر کرتے ہیں، جو حالیہ ورلڈکپ میں بھی نظر آئی۔ اس میچ میں جاوید میانداد اور رمیز راجہ ان فٹ ہونے کی وجہ سے ٹیم کا حصہ نہیں تھے۔ میچ کا مثبت پہلو انضمام الحق کا فارم میں آنا تھا۔ انہوں نے اس میچ میں جو کلاس دکھائی اس کا نہایت عمدہ اظہار نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں ہوا۔ فائنل میں بھی وہ اچھا کھیلے۔ ابتدائی میچوں میں ناکامی کے بعد انہیں ٹیم سے ڈراپ کر دیا جاتا تو یہ کس قدر گھاٹے کا سودا ہوتا اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، لیکن عمران خان جانتے تھے انضمام میچ ونر کھلاڑی ہیں
اس بار انضمام الحق کا کردار فخر زمان ادا کرتے دکھائی دیے۔۔
عمران خان نے ’آل راؤنڈ ویو‘ میں لکھا ہے ”جنوبی افریقہ سے شکست کے بعد لگا، جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ کھلاڑی خود پر یقین سے محروم ہو چکے تھے۔
ٹیم ڈیڑھ ماہ میں صرف زمبابوے سے میچ جیت پائی تھی یا پھر انگلینڈ کے ساتھ بارش کی وجہ سے بے نتیجہ میچ کا ایک پوائنٹ اس کے پلے تھا۔ پاکستان ٹیم سری لنکا، جنوبی افریقہ اور تسمانیہ سے پریکٹس میچ بھی ہار چکی تھی۔۔“
اب کی بار پے در پے شکستوں کی وجہ سے جو باتیں ہو رہی ہیں، ویسا ہی 92 کے ورلڈکپ میں بھی ہوا تھا۔۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ کھلاڑیوں نے گلے شکوے شروع کر دیے۔ مثلاً سلیم ملک کہنے لگے کہ انہیں ون ڈاؤن پر بیٹنگ کے لیے جانا چاہیے، جبکہ عمران خان کا مؤقف تھا کہ وہ دورے کے آغاز پر خود ہی کہہ چکے تھے کہ آسٹریلیا میں گیند زیادہ باؤنس ہوتی ہے، لہٰذا نمبر پانچ پر بیٹنگ کرنا ان کے لیے زیادہ بہتر ہے
جنوبی افریقہ کے بعد آسٹریلیا کے ساتھ میچ میں عمران خان نے سلیم ملک کا نمبر تین پر بیٹنگ کرنی کی خواہش بھی پوری کر دی، لیکن موصوف صفر پر ہی آؤٹ ہو کر پویلین کو پیارے ہو گئے
رمیز راجہ کندھے کی انجری کے باعث انڈیا کے خلاف میچ نہیں کھیل سکے۔ اب وہ لوگوں سے کہتے پھرتے تھے کہ جنوبی افریقہ کے ساتھ میچ سے پہلے وہ فٹ تھے لیکن ان سے پوچھا ہی نہیں گیا۔۔ عمران خان نے اپنی کتاب میں اس بات کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیم میٹنگ میں ہر کھلاڑی سے اس کی فٹنس کی بابت پوچھا جاتا اور رمیز راجہ نے بتایا تھا کہ ان کا بایاں کندھا ابھی ٹھیک نہیں ہوا
عمران خان کے خیال میں جب ٹیم برا کھیلتی ہے تو اس قسم کی باتیں چلتی ہی ہیں۔ عمران خان کی بات کی تصدیق موجودہ حالات سے بھی ہوتی ہے
2023 میں یہ پہلی دفعہ ہوا کہ پاکستان ورلڈ کپ میں مسلسل چار میچ ہار گیا۔ اس کے بعد سے دیکھ لیں ٹیم میں اختلافات کی خبریں گردش کر رہی ہیں
فخر زمان نے بنگلا دیش کے خلاف فاتحانہ واپسی پر یہ کہا ”میری انجری زیادہ خطرناک نہیں تھی، انجری میں بھی کھیل سکتا تھا“ تاہم انہوں نے یہ کہہ کر بات کو لپیٹا بھی ”لیکن اچھا کیا تھوڑا آرام کیا“
ورلڈ کپ میں عمران خان سلیم ملک سے بہت نالاں رہے۔ ان کے کھیل نہیں، رویے کی وجہ سے۔۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں عمران خان ان فٹ ہونے کی وجہ سے حصہ نہ لے سکے۔ ان کی جگہ جاوید میانداد نے کپتانی کی۔ سلیم ملک نے میچ سے پہلے یہ تنازع کھڑا کر دیا کہ ورلڈ کپ کے لیے وہ نائب کپتان مقرر ہوئے تھے، اس لیے کپتانی ان کا حق ہے۔ وہ یہ بات نہیں سمجھ رہے تھے کہ میانداد ٹیم کے ساتھ آسٹریلیا نہیں گئے تھے، جب وہ بعد میں ورلڈ کپ اسکواڈ کا حصہ بنے تو عمران خان کی غیر موجودگی میں انہیں ہی کپتان بننا تھا۔ عمران خان بھی یہی چاہتے تھے
جاوید میانداد سلیم ملک سے بڑے کھلاڑی تھے۔ ان کا کھیل اور کپتانی میں ان سے تجربہ زیادہ تھا۔ مزید یہ کہ ورلڈکپ میں کپتانی کرنے والے عمران خان خود ان کی کپتانی میں کھیل چکے تھے۔ عمران خان کی عدم دستیابی پر وہ پہلے بھی کئی دفعہ ٹیم کی قیادت کر چکے تھے
عمران خان نے ’آل راؤنڈ ویو‘ میں لکھا ہے کہ سلیم ملک کا رویہ ان کے لیے پریشان کن تھا، جنہیں میچ سے زیادہ اپنی کپتانی کی پڑی تھی
ان کا کہنا ہے کہ ڈریسنگ روم میں اس معاملے پر سلیم ملک نے مینجر سے جس تند لب و لہجے میں گفتگو کی اگر پاکستان کے پاس مضبوط بیٹنگ لائن اپ ہوتی تو وہ سلیم ملک کو ٹیم سے ڈراپ کر دیتے
سلیم ملک کا تذکرہ کچھ زیادہ ہی لمبا کھنچ گیا تو اب دوبارہ ہم وہیں چلتے ہیں جہاں سے ہم نے بات شروع کی تھی: ’1992کے ورلڈ کپ میں بھی ایسے ہی ہوا تھا‘
اب تو نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کے بعد ہم یہ جملہ دہرایا ہی جا سکتا۔۔ کیونکہ 92 کے ورلڈ کپ میں ایک نہیں دو دفعہ پاکستان نے نیوزی لینڈ کو ہرایا تھا۔ اور وہ بھی اس کی سرزمین پر۔ راؤنڈ روبن میچوں کے مرحلے میں نیوزی لینڈ مسلسل سات میچ جیت کر سیمی فائنل میں پہنچ چکا تھا۔۔
پوائنٹس ٹیبل کی صورت حال
اگر ورلڈکپ کے پوائنٹس ٹیبل پر نظر ڈالی جائے تو انڈیا 14 اور جنوبی افریقہ 12 پوائنٹس کے ساتھ سیمی فائنل میں کوالیفائی کر چکے ہیں۔ جبکہ گزشتہ روز انگلینڈ کو ہرانے کے بعد آسٹریلیا 10 پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر موجود ہے اور نیوزی لینڈ 8 پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر پر براجمان ہے
نیوزی لینڈ کو شکست دینے کے بعد پاکستان 8 پوائنٹس حاصل کرنے کے بعد پانچویں نمبر پر آ گیا ہے، جبکہ افغانستان بھی 8 پوائنٹس کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔
پوائںٹس ٹیبل پر 4 پوائنٹس کے ساتھ سری لنکا ساتویں، نیدرلینڈز 4 پوائنٹس کے ساتھ آٹھویں نمبر پر ہے جبکہ بنگلہ دیش اور انگلینڈ دو دو پوائنٹس کے ساتھ بالترتیب نویں اور دسویں نمبر پر موجود ہیں
پاکستان کے سیمی فائنل میں جانے کے امکانات
ورلڈکپ کے پوائنٹس ٹیبل پر پاکستان کے 8 پوائںٹس ہیں اور گرین شرٹس کا ٹیبل پر پانچواں نمبر ہے جبکہ نیوزی لینڈ کے بھی 8 پوائنٹس ہیں، لیکن بہتر نیٹ رن ریٹ کے ساتھ وہ چوتھے نمبر پر ہے
پاکستان کو سیمی فائنل میں جانے کے لیے 11 نومبر کو کولکتہ میں شیڈول انگلینڈ کے خلاف اپنا میچ ہر صورت جیتنا ہوگا، لیکن صرف اس کا جیتنا ہی کافی نہیں ہوگا، کیونکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ سری لنکا 9 نومبر کو بنگلورو میں نیوزی لینڈ کو شکست دے
اگر نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے درمیان میچ بارش کی نذر ہوتا ہے تو دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ ملے گا جس کے بعد نیوزی لینڈ کے 9 پوائنٹس ہو جائیں گے اور پھر پاکستان کو صرف انگلینڈ سے میچ جیتنا ہوگا
اگر نیوزی لینڈ 9 نومبر کو سری لنکا کو شکست دے دیتا ہے تو اس صورت میں پاکستان کو سیمی فائنل میں جانے کے لیے نیٹ رن ریٹ کا سہارا لینا ہوگا
اسی طرح پاکستان ٹیم کے سیمی فائنل میں جانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ افغانستان اپنے دو میچوں میں سے ایک میچ ہار جائے اور جو میچ جیتے وہ کم مارجن سے جیتے کیونکہ پاکستان کا نیٹ رن ریٹ افغانستان سے بہتر ہے
اسی طرح اگر نیوزی لینڈ اپنے آخری میچ میں سری لنکا کو ایک رن سے شکست دیتا ہے تو پاکستان کو انگلیںڈ کے خلاف میچ 131 رنز سے جیتنا ہوگا
یہاں خیال رہے کہ پاکستان کا انگلینڈ کے خلاف نیٹ رن ریٹ پر جیتنے کا حتمی فیصلہ نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے درمیان میچ کے بعد ہوگا۔