اسرائیل کی جانب سے جس بہیمانہ انداز میں غزہ میں گزشتہ ایک ماہ سے مسلسل بمباری کی جا رہی ہے، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ شہر، شہری، عمارات، مساجد، گرجا گھر، ہسپتال، ایمبولینسیں اور لٹے پٹے تباہ حال فلسطینیوں کے کیمپوں تک کچھ بھی اسرائیلی بمباری اور اب زمینی حملوں سے محفوظ نہیں۔۔ غزہ پہلے ہی ایک کھلی جیل کی طرح تھا، لیکن اب حالیہ اسرائیلی محاصرے کے بعد ادویات، خوراک اور پانی کی ترسیل بھی مکمل طور پر بند کر دی گئی ہے
غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اب تک دس ہزار فلسطینی اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے
اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ کی پٹی میں ایک پناہ گزین کیمپ پر اتوار کو علی الصبح بمباری کی جس میں وزارت صحت کے حکام کے مطابق 33 افراد مارے گئے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حملہ اس وقت ہوا، جب اسرائیل نے امریکی کی جانب سے امداد کی فراہمی کے لیے جنگ میں عارضی تعطل کی اپیل کے باوجود کہا کہ وہ غزہ پر حملے جاری رکھے گا
غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری اور زمینی کارروائی کے نتیجے میں بچوں سمیت عام شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت پر عالمی سطح پر غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ سنیچر کو واشنگٹن سے برلن تک کی سڑکوں پر لاکھوں لوگ نکل آئے جو فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے تھے
دریں اثنا دو مصر کے سیکورٹی اور طبی ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ غزہ کے زخمیوں اور غیرملکی پاسپورٹ رکھنے والوں کا مصر کے ساتھ واقع رفح کراسنگ کے ذریعے انخلا سنیچر سے معطل ہے۔
ایک سیکورٹی اور طبی ذریعے نے بتایا کہ زخمیوں اور غیرملکیوں کا انخلا کا سلسلہ سنیچر کو اس وقت معطل کیا گیا جب اسرائیل نے زخمیوں کو لے جانے والے ایمبولینسز پر بمباری کی۔
مصر کے صحرا سینا کے ساتھ واقع رفح کراسنگ غزہ سے نکلنے کا واحد راستہ ہے جسے اسرائیل کنٹرول نہیں کرتا۔
اسرائیل نے حملے روکنے کی اپیلیں مسترد کر دی بلکہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی جانب سے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے لیے جنگ میں عارضی تعطل کے آئیڈیے کو بھی مسترد کر دیا
اسی اثنا میں اسرائیل کے وزیر برائے قومی ورثہ ایمچے ایلیاہو نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ غزہ پر نیوکلیئر بم گرانا بھی ایک آپشن ہے
ایمچے ایلیاہو نے ایک انٹرویو کے دوران اسرائیل کے ’کول براما‘ ریڈیو کو بتایا کہ وہ اسرائیل کی جانب سے حماس کے 7 اکتوبر کے حملوں کے جواب سے کلی طور پر مطمئن نہیں
جب انٹرویو کرنے والے نے اسرائیلی وزیر سے پوچھا کہ ’کیا وہ غزہ پر نیوکلیئر بم گرانے کا کہہ رہے ہیں تاکہ غزہ میں رہنے والے تمام افراد مار دیے جائے۔‘ وزیر برائے قومی ورثہ نے جواب دیا کہ ’یہ بھی ایک آپشن ہے۔‘
دوسری جانب اسرائیل کا سب سے بڑا حامی امریکہ بھی اپنی انتہا کو چھوتے اسرائیلی مظالم کو دیکھ کر سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے، یا کم از کم دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے
بہرحال امریکا میں غزہ پر بہیمانہ اسرائیلی حملوں کے حوالے سے جذبات میں نمایاں تبدیلی نظر آ رہی ہے، جس کی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیلیوں کو اپنی جارحیت کو طول نہ دینے کا مشورہ دیا ہے
14 امریکی سینیٹرز نے اپنے مشترکہ بیان میں حماس کے خلاف اسرائیلی اقدامات کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر روکنے کی اپیل کی گئی ہے
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ کانگریس میں ڈیموکریٹس سینیٹرز نے ایک اہم قانون کا حوالہ دیا، یہ قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث سیکیورٹی فورسز کی امداد پر پابندی لگاتا ہے، اراکین نے بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل کے لیے ہنگامی فوجی امداد کے پروگرام کو چیلنج کیا
سینیٹرز نے امریکی اور اسرائیلی حکام کو ارسال کیے گئے خط میں لکھا کہ ہم غزہ میں شہریوں، امدادی کارکنوں اور انسانی امداد کی ترسیل کے لیے قلیل مدتی جنگ بندی کے صدر جو بائیڈن کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں
اپنے خط میں ان سینیٹرز نے تین اہداف کی نشاندہی کی:
ضروری سخت نگرانی کے تحت شہریوں کو ضروری انسانی امداد کی کامیاب فراہمی
غزہ میں تمام قیدیوں کی رہائی پر توجہ
خطے میں دہائیوں سے جاری تنازعات کو کم کرنے کے لیے طویل مدتی حکمت عملی کے بارے میں علاقائی و عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان وسیع تر بات چیت
اس کے علاوہ ڈیموکریٹک پارٹی کے پروگریسو ونگ کے اراکین نے انتظامیہ کو خبردار کیا کہ اسرائیل کے لیے 14.3 ارب ڈالر کا پیکج لیہی ایکٹ کی خلاف ورزی ہے کیونکہ غزہ پر اسرائیل کے انتقامی حملے نے شہریوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے
یہ قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب سیکیورٹی فورسز کو امریکی امداد کو ممنوع قرار دیتا ہے
ترقی پسند رکن کانگریس آندرے کارسن نے ’دی گارجین‘ کو لکھی ایک ای میل میں کہا ”مجھے بہت تشویش ہے کہ ہمارے ٹیکس دہندگان کے ڈالر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں“
انہوں نے اسرائیل پر جنگی جرائم کا الزام لگایا، انہوں نے رواں ہفتے میں جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں ہونے والی مہلک بمباری اور اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی جانب سے سفید فاسفورس کے مبینہ استعمال کا حوالہ دیا
سی این این نے بروز ہفتہ رپورٹ کیا کہ صدر جو بائیڈن اور ان کے سینئر معاونین نے غزہ میں انسانی بحران اور شہریوں کی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل کو خبردار کیا ہے
دراصل اس کے پیچھے جو بائیڈن کی فلسطینیوں سے ہمدردی نہیں، بلکہ دراصل انسان دوست جذبات رکھنے والے امریکی شہریوں اور دنیا بھر کے ردعمل کا خدشہ ہے
جو بائیڈن اور ان کی ٹیم کو خدشہ ہے کہ غزہ میں ہونے والے مصائب و مشکلات کے خلاف عالمی سطح پر اٹھنی والی آوازیں جلد ہی مزید شدت اختیار کر سکتی ہیں، جس سے اسرائیل کو جنگ بندی کے لیے مزید بڑھتے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے
امریکی میڈیا نے نوٹ کیا کہ بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کے لیے واضح ریڈ لائنز طے کرنے سے گریز کیا لیکن انسانی ہمدردی کی تکالیف کو کم کرنے اور شہریوں کی اموات کو کم کرنے کے لیے اقدامات پر زور دیا ہے
جب کہ اسرائیلی فضائی حملے جاری ہیں، بائیڈن اور ان کے معاونین لاکھ کوششوں کے باوجود اسرائیل کی بہیمانہ جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے سے قاصر ہیں اور اسرائیل پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ بحران کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے۔