غزہ کے ایک بچے کا اپنے باپ سے قیامت کے بارے میں سوال

حسنین جمال

غزہ میں جب شہریوں پر بجلی اور پانی بند نہیں ہوئے تھے، صرف آسمان سے بم برستے تھے اور بچی کھچی عمارتیں اپنے رہنے والوں سمیت خاک کا ڈھیر بن جایا کرتی تھیں، یہ واقعہ ان دنوں کا ہے

تب غزہ کی اس عمارت میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی موجود تھی اور طلال ابو رحمہ یہ ڈھونڈتا پھر رہا تھا کہ دنیا بھر میں، جہاں سوشل میڈیا اور خبروں کا دھندا اتنا پھیلا ہوا ہے، کیا لوگوں کو ہمارے بارے میں پتہ بھی ہے؟ کیا باقی دنیا کے بچے ہم سے کوئی پیار محبت محسوس کرتے ہیں؟

کیا ان بچوں کے ماں باپ انہیں بتاتے بھی ہیں کہ ہم ہر اگلی صبح اپنے باپ، بھائی، بہن، ماں، کسی آنٹی، پڑوسی یا کسی کلاس فیلو کی لاش دیکھتے ہیں؟ کیا وہ بچے جانتے ہیں کہ جو کچھ وہ قیامت کے بارے میں پڑھا کرتے ہیں، ہمارے ساتھ اس سے بہت زیادہ ہو چکا ہے؟

طلال ابو رحمہ کو یاد آیا کہ اس نے اپنے باپ سے پوچھا تھا کہ ’بابا، قیامت میں تو سب اکٹھے مرتے ہوں گے نا؟‘

اس کے بابا نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ وہ اس وقت جیکٹ پہن چکے تھے اور گھٹنہ زمین پہ رکھے دوسرے جوتے کے تسمے باندھ رہے تھے۔ بابا سے پوچھے گئے اس سوال کا جواب اب تک ادھار ہے

پہلے طلال کو سہولت میسر تھی کہ وہ بابا سے کچھ بھی پوچھ سکتا تھا، اب اس نے محسوس کیا کہ شاید ایسا نہ ہو سکے، تو وہ، گھر کے ڈیسک ٹاپ پر بیٹھا، بس یہ تلاش کر رہا تھا کہ وہ بچے جو اپنے بابا کے ساتھ ہیں، ماں جن کے لیے دن رات کھانے بنا کر انہیں زبردستی کھلاتی ہے، جو کسی بھی وقت سائرن اور بموں کے وقفے کا انتظار کیے بغیر کھیلنے جا سکتے ہیں، جنہیں موت کا ٹھیک مطلب زندگی کے بیس پچیس سال گزرنے کے بعد پتہ لگنا ہوتا ہے، وہ بچے، ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں، کیسا محسوس کرتے ہیں

طلال ابو رحمہ کو ایسا کچھ نہیں ملا، کہیں کہیں بچوں نے فلسطین کے جھنڈے لگائے ہوئے تھے، کچھ جلسے جلوسوں کی تصویریں تھیں، لیکن ان سے بالکل اگلی سٹوریز میں طلال نے دیکھا کہ رنگ برنگے کھانے تھے اور وہی بچے میزوں پر اپنے ماما بابا کے ساتھ تھے، ان سے آگے کسی ہالی وڈ اداکار کے اقوال زریں وہی بچے دہرا رہے تھے اور اس سے اگلی سٹوری میں وہی بچے اپنے سکول کالج میں ہنستے کھیلتے بے فکرے نظر آ رہے تھے

تب دس برس کی عمر میں طلال ابو رحمہ کو لگا کہ جارحیت، جنگ یا امن کے بارے میں کچھ محسوس تبھی کیا جا سکتا ہے جب کسی کے، خواب، حقیقت، عدم، وجود، موجود اور ناموجود تک سب کچھ ایک گڑگڑاہٹ کے دھاگے سے بندھ جاتے ہوں

جب تک یہ بچے اپنے باپ سے کیے گئے ایک سوال کا لامحدود انتظار کرنا بھی نہ جان سکتے ہوں، ان کو میرے بارے میں کیا پتہ ہوگا۔ طلال نے یہ سوچا اور ڈھونڈنے لگا کہ اگر کوئی بچہ سوال کر بھی لے کہ فلسطین میں کیا ہو رہا ہے تو ماں باپ اسے کیا بتاتے ہوں گے؟

تب طلال کو ایک ویب سائٹ نظر آئی جس پر لکھا تھا ’اپنے بچوں سے جنگ یا کسی تنازعے کی بارے میں کس طرح بات کی جائے؟‘

یہ اقوام متحدہ کی ویب سائٹ تھی اور وہ مضمون عربی زبان میں بھی موجود تھا۔

طلال ابو رحمہ کو لگا کہ وہ زمین سے تعلق نہیں رکھتا، پھر اس نے سوچنا شروع کیا کہ ہو سکتا ہے جن والدین اور بچوں کے لیے وہ ہدایت نامہ لکھا گیا ہے، زمین کے اصل رہنے والے وہ ہوں۔ اسے پہلی لائن سے ہی گڑبڑ محسوس ہو رہی تھی۔

’آپ جہاں بھی رہتے ہوں، کسی تنازعے یا جنگ کی سرخیاں جب چلنی شروع ہو جائیں تو یہ خوف، اداسی، غصے اور اضطراب جیسی کیفیات کا سبب بن سکتی ہیں۔‘

اگلی سطر یہ تھی؛

’بچے ہمیشہ حفاظت اور تحفظ کے احساس کے لیے اپنے والدین کی طرف دیکھتے ہیں – اور کسی بحران کے وقت تو وہ اور زیادہ ایسا کرتے ہیں۔‘

طلال ابو رحمہ کو اپنے بابا یاد آ گئے، اسے اپنا سوال بھی یاد آیا۔

اس سے آگے لکھا تھا کہ ’بچوں سے تب اس بارے میں بات کریں جب وہ آرام سے آپ کو جواب دے سکتے ہوں، جیسے سونے سے پہلے جنگ کے بارے میں بات کرنے سے بہتر ہے ڈائننگ ٹیبل پر ان سے یہ بات کی جائے۔‘

طلال ابو رحمہ کو یاد آیا کہ وہ سوتا ہو یا جاگتا ہو یا کچھ کھا رہا ہو، اسے بابا نے کہا تھا کہ جب کبھی گڑگڑاہٹ کی آواز آئے تو اس نے ڈائننگ ٹیبل کے نیچے جا کر پہلو کے بل لیٹ جانا ہے اور ہاتھوں سے آنکھیں اور سر ڈھانپ لینے ہیں۔ بابا نے یہ بھی کہا تھا کہ ’طلال، تمہاری ماں اور ھانی، دونوں پندرہ دن پہلے یہ کرنے کی بجائے گھبراہٹ میں سیڑھیوں سے نیچے اتر گئے تھے۔ تمہیں خود کو محفوظ رکھنا ہے۔‘

آگے لکھا تھا ’بچے کئی طریقوں سے خبروں کو دریافت کر سکتے ہیں، اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس بات کو چیک کیا جائے کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں، اور کیا سن رہے ہیں۔ پریشان کن تصاویر اور شہ سرخیوں کا ایک مستقل سلسلہ بچوں کو یہ محسوس کروا سکتا ہے کہ بحران ہمارے چاروں طرف موجود ہے۔‘

تب طلال ابو رحمہ نے یہ جان لیا کہ وہ اسی زمین پہ رہتا ہے، اس کی ماں اور ھانی ایک خبر بن گئے تھے، اس کے بابا ابھی خبروں میں نہیں ہیں اور وہ خود، کسی بھی وقت ایک ایسی خبر یا تصویر کی شکل اختیار کر سکتا ہے جس کے بارے میں والدین کو کہا جا رہا ہے کہ ’چیک کریں، بچے کیا دیکھ رہے ہیں اور کیا سن رہے ہیں۔‘

وہیں طلال نے لکھا دیکھا کہ اگر ان خوش اور مطمئن بچوں کو جنگی خبروں اور تصویروں سے ’سٹریس‘ ہو رہا ہے تو ان کے ماما بابا نے انہیں کہنا ہے کہ ’بیٹا پانچ مرتبہ گہری سانسیں لو، ناک سے سانس لو اور منہ سے نکالو، ہاں سانس لیتے ہوئے پیٹ پھلانا ہے اور نکالتے ہوئے پیٹ سے سانس باہر نکالنا ہے۔‘

آخر طلال ابو رحمہ کو اپنے بابا سے کیا گیا سوال اس ہدایت نامے میں نظر آ گیا، لیکن وہ تھوڑے الگ لفظوں میں تھا؛

’اگر بچے کوئی ایسا سوال پوچھتے ہیں جو آپ کو بہت زیادہ شدت پسند قسم کا لگتا ہے، جیسے ’کیا ہم سب مرنے والے ہیں؟‘ تو انہیں یقین دلائیں کہ ایسا نہیں ہو گا، بلکہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ انہوں نے کیا سنا ہے اور وہ اس کے بارے میں کیوں پریشان ہیں؟‘

طلال کے دس برس والے دماغ نے یہ جان لیا کہ اس کے بابا کوئی جواب کیوں نہیں دے سکے تھے۔

طلال نے باہر گلی میں جا کر پانچ لمبی سانسیں لینے کا سوچا لیکن دھواں کھڑکی سے کمرے کے اندر تک محسوس ہو رہا تھا۔ گڑگڑاہٹ بڑھتی جا رہی تھی۔

طلال ابو رحمہ ڈیسک ٹاپ کو مستقل طور پر میز کے نیچے سیٹ کرنے پر غور کرنے لگا، اسے یہ سمجھ بھی آ گئی کہ وہ پانچ گہری سانسیں غزہ میں لینا کسی بچے کے لیے شاید ہی کبھی ممکن ہو۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close