انڈین نژاد کینیڈین شاعرہ روپی کور نے امریکی نائب صدر کملا ہیرس کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں منعقد ہونے والی دیوالی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ کھلے عام مسترد کردیا ہے
انڈین نژاد کینیڈین شاعرہ نے اپنی پوسٹ میں لکھا ”بائیڈن انتظامیہ نہ صرف غزہ میں بمباری کے لیے فنڈنگ کرتی ہے بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی توجیہہ بھی مسلسل پیش کر رہی ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ مل کر دیوالی منائیں۔۔ قطع نظر اس کے کہ کتنے ہی پناہ گزین کیمپوں، صحت کے مراکز اور عبادت گاہوں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے، جس کا مطالبہ اقوام متحدہ، ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز، ریڈ کراس جیسی تنظیموں اور بیشتر ممالک کی جانب سے کیا جا رہا ہے“
انہوں نے کہا ”فلسطینیوں کے خلاف حالیہ مظالم اس نظریے کے مکمل خلاف ہیں، جس کے لیے ہم یہ تہوار مناتے ہیں“
’ملک اینڈ ہنی‘ جیسی بیسٹ سیلنگ کتاب لکھنے والی روپی کور کا کہنا تھا ”حیرت ہوئی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ یہ ایسے حالات میں دیوالی منانا قابلِ قبول نظر آتا ہے“
دیوالی کو روشنیوں کا تہوار کہا جاتا ہے اور روپی کور کے مطابق ’یہ باطل کے خلاف حق اور جہالت کے خلاف علم کی خوشی ہے۔‘
انہوں نے دیگر جنوبی ایشیائی شخصیات سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ بائیڈن انتظامیہ کو اُن کے اقدامات کے لیے جوابدہ ٹھہرائیں
انہوں نے لکھا کہ ایک سکھ خاتون ہونے کے ناطے وہ وائٹ ہاؤس کو اجازت نہیں دیں گی کہ ان کی ’پسندیدگی‘ کو اس انتظامیہ کے کاموں پر پردہ ڈالنے کے استعمال کیا جائے۔
انہوں نے کہا، ’میں ایسے کسی بھی ادارے کی دعوت مسترد کرتی ہوں، جو پھنسے ہوئے شہریوں کی اجتماعی سزا کی حمایت کرتا ہو، جن میں سے 50 فیصد بچے ہیں۔‘
حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فوجی مہم میں اب تک 10 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ جس میں بچوں کی بہت بڑی تعداد شامل ہے
وائٹ ہاؤس میں دیوالی کے تہوار کی تقریب بدھ کو منعقد ہونی ہے اور یہ نائب صدر کمالا ہیرس کی میزبانی میں ہوگی جنہوں نے تاحال روپی کور کے بیان پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا
روپی کور نے اقوام متحدہ کی جانب سے غزہ میں سیزفائر کی حمایت سے انکار کرنے پر صدر بائیڈن کی مذمت کی
انہوں نے لکھا کہ ’بطور سکھ خاتون میں یہ قبول نہیں کروں گا کہ بائیڈن انتظامیہ کے اقدامات کی اثرات کو کم کرنے کے لیے میری حمایت کو استعمال کیا جائے۔‘
امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کو اسرائیلی وزیراعظم سے ٹیلیفونک رابطے میں اُن کو اپنی حمایت کا ایک بار پھر یقین دہانی کرائی تھی۔
بائیڈن انتظامیہ کانگریس سے اسرائیل کے لیے 14 ارب ڈالر کی منظوری لینے کے لیے لابنگ کر رہی ہے
دوسری جانب امریکی ایوان نے ڈیموکریٹک نمائندہ راشدہ طلیب کی غزہ میں اسرائیل کی جاری جارحیت کے حوالے سے کیے گئے تبصروں کی مذمت کرنے کے لیے ووٹ دیا، جو کانگریس کی واحد فلسطینی نژاد امریکی قانون ساز ہیں
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق راشدہ طلیب کی مبینہ طور پر 7 اکتوبر کو اسرائیل میں حماس کے حیرت انگیز حملے کے لیے ’جھوٹے بیانیے کو فروغ دینے‘ اور ’اسرائیل کی ریاست کی تباہی کا مطالبہ‘ کرنے کے الزام میں سرزنش کرنے کے لیے چیمبر میں 22 ڈیموکریٹس متعدد ریپبلکنز کے ساتھ جمع ہوئے
اس تحریک کی سرپرستی ریپبلکن نمائندے رچرڈ میک کارمک نے کی، ریپبلکن کے زیر کنٹرول چیمبر میں سرزنش کے حق میں حتمی ووٹ کی تعداد 188-234 تھی، 4 ریپبلکنز نے اس کے مخالفت میں ووٹ ڈالے جبکہ 3 ڈیموکریٹس اور ایک ریپبلکن نے ووٹ ڈالنے سے پرہیز کیا
راشدہ طلیب نے حماس حملے کی بار بار مذمت کی، جس میں تقریبا 1400 افراد مارے گئے اور ساتھ ہی امریکا کی اسرائیل کی حمایت پر بھی تنقید کی، جہاں غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری سے بچوں سمیت دس ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں
اس قدم نے بالخصوص راشدہ طلیب کی سوشل میڈیا پر لگائی گئی ایک پوسٹ کا حوالہ دیا، جس میں ’دریا سے سمندر تک فلسطین آزاد ہوگا‘ کا جملہ موجود ہے، جو ایک فلسیطینی حمایتی نعرہ ہے، جس پر بہت سے لوگ یہود مخالف اور اسرائیل کے خاتمے کے مطالبے کا الزام لگاتے ہیں
انہوں نے ساتھی ڈیموکریٹس کو بھی ناراض کیا، جب جمعہ کو انہوں نے ویڈیو پوسٹ کی، جس میں صدر جو بائیڈن پر فلسطینی نسل کشی کی حمایت کا الزام لگایا، اسرائیل نسل کشی کے الزام کی تردید کر تا ہے۔
منگل کو تقریر کے دوران راشدہ طلیب نےایوان میں یہود مخالفت کے الزام کو مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں کانگریس میں واحد فلسطینی نژاد امریکی ہوں، میرے نقطہ نظر کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے
اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے لمبے وقفے کے بعد انہوں نے کہا کہ ’ فلسطینی عوام ڈسپوزیبل نہیں ہیں’، ان کی دادی مقبوضہ مغربی کنارے کے ایک گاؤں میں رہتی ہیں، جس کو 1967 میں اسرائیل نے قبضے میں لے لیا تھا
ایوان میں دوسرے نمبر کے ڈیموکریٹ کے نمائندے پیٹ ایگیولر نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ جو بائیڈن کے بارے میں راشدہ طلیب کے تبصروں کی ’سختی سے مخالفت ’کرتے ہیں، مگر ان کا خیال تھا کہ سرزنش کی تحریک نتیجہ خیز نہیں تھی
اس علاماتی سرزنش کی کوئی مخصوص سزا نہیں، ماضی میں یہ بہت کم ہی کسی رکن کے خلاف استعمال ہوئی، مگر حالیہ سالوں میں اس کے استعمال میں اضافہ ہوگیا ہے
ڈیموکریٹس نے 2021 میں ریپبلکن نمائندے پال گوسر کی سر زنش کی تھی، جب انہوں نے ایک ایسی ویڈیو پوسٹ کیم جس میں ان کے کردار کو ریپبلکن نمائندہ الگزانڈریا اوکاسیو کورٹیز کا قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا اور ریپبلکنز نے اپنے کام کے دوران سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے دوران اقتدار تحقیقات کرنے پر ڈیموکریٹ ایڈم شِف کی سرزنش کی تھی۔