غزہ پر بمباری سے ہر دس منٹ میں ایک بچے کی شہادت۔۔ ”غزہ ہزاروں بچوں کا قبرستان بن چکا ہے۔ یہ باقی سب کے لیے زندہ جہنم ہے۔“

ویب ڈیسک

اسرائیلی فوج نے غزہ پر اپنے فضائی اور زمینی حملوں کا دائرہ وسیع کر دیا ہے – جس میں مکانات، ہسپتال اور پناہ گزین کیمپیں بھی شامل ہیں

اسرائیل کی جانب سے غزہ پر ظالمانہ بمباری کو ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اب اسرائیل نے زمینی حملے بھی شروع کر رکھے ہیں، جس سے غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی کے ساتھ ساتھ شہادتوں کے ہولناک اعداد و شمار سامنے آ رہے ہیں

فلسطین میں غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں شہادتوں کی تعداد ایک غیر معمولی تعداد تک پہنچ گئی ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کی جانب سے 6 نومبر کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک اسرائیلی حملوں میں دس ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں 4100 بچے بھی شامل ہیں

یہ تعداد انتہائی ہولناک ہے، کیونکہ اوسط ہر دس منٹ میں ایک بچے کی شہادت ہو رہی ہے

یہاں تک کہ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی اب ہزاروں بچوں کا قبرستان بن چکی ہے، اور ساتھ ہی اس نے محصور انکلیو پر اسرائیل کی جنگ کے دوران پانی کی کمی سے مزید ہلاکتوں کے امکان سے بھی خبردار کیا ہے

اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) کے ترجمان جیمز ایلڈر نے ایک بیان میں کہا کہ ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد درجنوں، پھر سینکڑوں اور بالآخر ہزاروں ہونے کے بارے میں ہمارے شدید خدشے کا احساس صرف ایک پندرہ دن میں ہوا۔۔ تعداد خوفناک ہیں؛ حیرت انگیز طور پر یہ ہر روز نمایاں طور پر بڑھتا ہے

انہوں نے کہا ”غزہ ہزاروں بچوں کا قبرستان بن چکا ہے۔ یہ باقی سب کے لیے زندہ جہنم ہے۔“

انٹرنیشنل این جی او سیو دی چلڈرن کے ڈائریکٹر برائے فلسطین جیسن لی کا کہنا ہے کہ غزہ میں صورتِ حال بہت خراب اور سنگین ہوتی جا رہی ہے، جہاں ہر دس منٹ میں ایک بچے کی موت اور ہر پانچ منٹ بعد ایک بچہ زخمی ہو رہا ہے۔ جب کہ غزہ کی 60 فی صد آبادی جنگ کی وجہ سے بے گھر ہو گئی ہے

دوسری جانب اسرائیل کی حمایت اور ہر طرح کی مدد کرنے والے ممالک اور ان کا مین اسٹریم میڈیا دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوششوں میں مصروف ہے

اسی تناظر میں امریکی صدر جو بائیڈن سمیت بعض ممالک کے رہنماؤں نے فلسطینی وزارت صحت کی جانب سے دیے گئے اعداد و شمار کے مصدقہ ہونے پر سوال اٹھاتے ہوئے اسرائیلی مظالم کو چھپانے کی کوشش کی ہے

لیکن عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ اس کا خیال ہے کہ یہ ہولناک اعداد و شمار قابل اعتماد ہیں

شہادتوں کے علاوہ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں 25,400 سے زائد زخمی ہوئے ہیں، جبکہ تقریباً 2,260 افراد لاپتہ ہیں، جن میں 1,270 بچے بھی شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے

حماس کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملوں میں یرغمالیوں میں سے 57 افراد مارے گئے ہیں۔ 20 اکتوبر سے حماس نے 17 سالہ نوجوان سمیت چار یرغمالیوں کو رہا کیا ہے

غزہ کی نصف سے زیادہ آبادی مقامی طور پر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ غزہ کی پٹی میں بائیس لاکھ سے زیادہ افراد آباد ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ بچے ہیں

اسرائیلی فضائی حملوں کے ایک ماہ کے بعد کہا جاتا ہے کہ غزہ میں 200,000 سے زیادہ مکانات کو نقصان پہنچا یا تباہ ہو گئے ہیں۔ فلسطینی حکام کے مطابق یہ تعداد غزہ میں تقریباً نصف ہاؤسنگ یونٹس کے برابر ہے

اقوام متحدہ اور فلسطینی حکام کے اعداد و شمار کے مطابق پانچ نومبر تک غزہ میں تقریباً پندرہ لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں، جو اسکولوں، گرجا گھروں، ہسپتالوں، اقوام متحدہ اور عوامی عمارتوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں یا جنھیں دیگر افراد نے پناہ دی ہے۔ لیکن اسرائیل ہسپتالوں، مساجد اور پناہ گزین کیمپوں پر بھی مسلسل حملے کر رہا ہے

سیو دی چلڈرن کے ڈائریکٹر برائے فلسطین جیسن لی کہتے ہیں ”بے گھر افراد اسکول، اسپتالوں یا ہر اس عمارت میں پناہ تلاش کر رہے ہیں جسے وہ محفوظ تصور کرتے ہیں، لیکن ان پناہ گاہوں میں پانی اور خوراک کے مناسب انتظامات نہیں ہیں“

جیسن لی نے کہا کہ زخمی ہونے والے بچوں اور ان کے اہلِ خانہ کے علاج کے لیے سہولتیں موجود نہیں ہیں جب کہ متعدد خاندانوں کو ایک دن میں ایک مرتبہ ہی کھانا میسر ہے

غزہ سے باہر نکلنا مقامی افراد کے لیے کوئی آپشن نہیں کیونکہ اسرائیل میں ایریز سرحد بند ہے اور مصر میں رفح بارڈر کراسنگ صرف غیر ملکی شہریوں اور کچھ زخمیوں کو غزہ سے نکالنے کے لیے کھلتی ہے

امدادی کارکنوں کی ہلاکت
فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ پانچ نومبر تک غزہ کی پٹی کے 35 میں سے 16 ہسپتال (46 فیصد) اور 76 میں سے 51 طبی مراکز اسرائیلی حملوں یا ایندھن کی کمی کی وجہ سے بند ہیں

فلسطینی وزارت صحت کے مطابق تقریباً 50 ایمبولینسز کو اسرائیلی حملوں سے نقصان پہنچا، ان میں سے 31 خراب ہیں اور کم از کم 175 ہیلتھ ورکرز ہلاک ہو چکے ہیں

واضح رہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت امدادی کارکنوں اور صحت کے عملے اور ان کی سہولیات کا تحفظ ضروری ہے

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں اس کی امدادی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے کے لیے کام کرنے والے عملے کے کم از کم 88 ارکان اور سول ڈیفنس کے 18 امدادی کارکن مارے گئے ہیں

جہاں تک صحافیوں کا تعلق ہے تو اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور کے مطابق ان میں سے 46 صحافی بھی پانچ نومبر تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ جنیوا کنونشن 1949 کے تحت ان کی حفاظت اور کام کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق حالیہ اسرائیل غزہ جنگ گذشتہ تین دہائیوں کے تنازعات کے مقابلے میں صحافیوں کے لیے سب سے مہلک رہی ہے

وہ لوگ، جو اب تک اس حالیہ جنگ میں زندہ بچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں، ان کے لیے غزہ میں زندگی انتہائی مشکل ہے کیونکہ وہاں خوراک کی کمی، پانی کی شدید قلت اور صحت کو بہت سے خطرات لاحق ہیں

غزہ کے رہائشی اس وقت پانی سے بھی محروم ہیں۔ اسرائیل نے بمباری کرکے غزہ کو پانی کی فراہمی کے زیادہ تر انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچایا ہے۔ پانچ نومبر کو اقوام متحدہ کے ادارے او سی ایچ اے نے رپورٹ کیا کہ غزہ میں پانی کی کھپت میں جنگ سے پہلے کی سطح کے مقابلے اوسطاً 92 فیصد کمی آئی اور 65 سیوریج پمپنگ اسٹیشنوں میں سے زیادہ تر کام نہیں کر رہے

31 اکتوبر کو ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا کہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی، زیادہ بھیڑ اور پانی اور صفائی کے بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان سے غزہ میں ’صحت عامہ کی تباہی‘ کا سبب بن سکتا ہے

جیسن لی کا کہنا ہے کہ خان یونس کے علاقے میں واقع ایک اسکول میں ساڑھے بائیس ہزار افراد پناہ لیے ہوئے ہیں جب کہ اسکول میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی گنجائش دو ہزار ہے جب کہ متاثرین کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے صرف 16 باتھ روم موجود ہیں

ان کے مطابق گنجائش سے زیادہ افراد کی وجہ سے اسکول میں متعدی امراض پھیل رہے ہیں

غزہ کے بچوں کی ذہنی صحت سے متعلق سوال پر جیسن لی نے کہا کہ سیو دی چلڈرن ریسرچ کر رہی ہے اور اس نے غزہ کے بچوں سے بات بھی کی ہے۔ ان کے بقول، ہم نے بچوں میں اضطراب، مایوسی، خوف اور سونے میں مشکل پیش آنے جیسے مسائل میں اضافہ دیکھا ہے

انہوں نے کہا ”یہ پہلی ’جنگ‘ نہیں جب غزہ کے بچے ان مسائل سے دوچار ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں ہونے والے تنازعات کے بھی ان پر اثرات ہوتے رہے ہیں“

جیسن لی نے کہا کہ وہ بچے جو اپنے خاندانوں کے ساتھ جنگ زدہ علاقوں سے نکل رہے ہیں، وہ خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ بچے اعتماد اور امید کھو رہے ہیں اور وہ یقین نہیں کرتے کہ ان کا کوئی مستقبل ہے

سیو دی چلڈرن کے ڈائریکٹر نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ بندی کی فوری ضرورت ہے کیوں کہ غزہ میں ایسی کوئی جگہ نہیں جو محفوظ ہو۔

انہوں نے کہا کہ غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں سے نصف بچے ہیں اور لگ بھگ گیارہ لاکھ بچے اس تنازع سے متاثر ہوئے ہیں۔

جیسن لی کے مطابق مرنے والے ہر تین میں سے دو خواتین یا بچے ہوتے ہیں، اس لیے جنگ بندی کی فوری ضرورت ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے سویلین کی اموات روکی جا سکتی ہیں

دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کا کہنا ہے کہ غزہ میں انسانی صورتحال تباہ کن ہے

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ ہر سال تنازعات میں ہلاک ہونے والے بچوں کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کرتا ہے، ایک سال میں تنازعات میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی جبکہ غزہ میں مختصر عرصے میں ہزاروں بچے مارے گئے

انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی قائم کی جانی چاہیے جبکہ انہوں نے جنگ کے قوانین پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا

یہ بتاتے ہوئے کہ غزہ میں حملوں میں ہلاک ہونے والے اقوام متحدہ کے اہلکاروں کی تعداد 92 ہو گئی ہے ، گوٹیریس نے کہا کہ ملازمین کو محفوظ ماحول فراہم کرنا ممکن نہیں ہے

گوٹیرس نے کہا کہ رکن ممالک یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اقوام متحدہ مستقبل میں غزہ میں کس قسم کا کردار ادا کر سکتا ہے، تاہم میرے خیال میں فلسطینی انتظامیہ کے لیے فوجی آپریشن کے بعد غزہ پر سیاسی کنٹرول حاصل کرنے کے لیے مثالی منظر نامہ ہوگا۔

گوٹیرس نے کہا کہ دو ریاستی حل کے لیے سنجیدہ مذاکرات شروع کیے جائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close