خارخیو کی گلیوں میں لڑائی کی اطلاعات، یوکرینی صدر نے بیلاروس میں روسی مذاکرات کی پیشکش ٹھکرا دی

ویب ڈیسک

کیف – یوکرائنی حکام کے مطابق روسی عسکری گاڑیاں شمال مشرقی یوکرائنی شہر خارکیف کی سڑکوں پر دکھائی دے رہی ہیں۔ ایک یوکرائنی حکومتی عہدیدار کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں چند فوجی گاڑیاں دکھائی دے رہی ہیں جب کہ ایک جلتا ہو ٹینک بھی نظر آ رہا ہے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق روس کی طرف سے یوکرائن پر حملوں میں تیزی کی ایک نئی لہر دیکھی جا رہی ہے۔ یوکرائن کی جانب سے شدید مزاحمت کے بعد اب روس نے ایئر فیلڈز، ایندھن کی تنصیبات اور دیگر اہداف کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے

یوکرین کے شہر خارخیو کی گلیوں میں لڑائی کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ روسی فوجی شہر میں داخل ہو چکے ہیں. حکام کے مطابق روسی گاڑیاں حفاظتی حصار توڑتی ہوئی شہر میں داخل ہو گئی ہیں اور کیف کے مضافاتی علاقے بوچا میں لڑائی میں شدت آ گئی ہے

سوشل میڈیا فوٹیج میں شہر میں کچھ روسی گاڑیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ ایسی تصاویر بھی سامنے آ رہی ہیں جن میں شہر میں کم از کم دو روسی ’ٹائیگر‘ گاڑیوں کو آگ لگی دیکھی جا سکتی ہے، تاہم ان تصاویر کی تصدیق نہیں ہو سکی

خارخیوکے حکام نے آج صبح مقامی افراد کو پناہ گاہوں اور سڑکوں سے دور رہنے کی تنبیہ کی ہے

یوکرینی حکومت کی محتسب لیوڈملیا ڈینیسووا کا کہنا ہے کہ روسی حملے کے نتیجے میں اب تک 210 سے زیادہ شہری مارے جا چکے ہیں جبکہ 1100 سے زیادہ افراد زخمی ہیں

جبکہ کیف شہر کے مرکز سے مغرب کی جانب ایک دھماکے کی اطلاعات ہیں۔ اسی دوران فضائی حملے کے سائرن بھی بجائے جا رہے ہیں

کیف میں ایک ایسے وقت میں دھماکوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں جب روسی افواج نے ایک قریبی فضائی اڈے پر قبضہ کر لیا ہے

جبکہ کیف کے میئر نے متنبہ کیا ہے کہ یہ رات یوکرینی دارالحکومت کے لیے بہت مشکل ہونے والی ہے

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرینی فوجیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک کی قیادت کا تخت الٹا دیں

روسی یوکرائنی جنگ میں ماسکو نے یوکرائن کی توانائی کی تنصیبات پر بھی میزائلوں سے حملے شروع کر دیے ہیں۔ روسی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی کییف کی طرف پیش قدمی جاری ہے جبکہ دو یوکرائنی شہروں کا مکمل محاصرہ بھی کر لیا گیا ہے

کیف میں یوکرائن کے جوہری توانائی کے نگران محکمے نے اتوار 27 فروری کی صبح بتایا کہ روسی دستوں نے گزشتہ رات ملکی دارالحکومت کے مضافات میں جوہری فاضل مادوں کی ایک ذخیرہ گاہ کو میزائلوں سے نشانہ بنایا

یوکرائنی جوہری تنصیبات کے منتظم ادارے نے اپنے فیسبک پیج پر بتایا کہ فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ آیا ان میزائل حملوں کے بعد جوہری فاضل مادوں کی اس ذخیرہ گاہ سے تابکار شعاعیں بھی خارج ہونا شروع ہو گئیں

دوسری طرف انٹرفیکس نیوز ایجنسی کے مطابق روسی میزائل اس جوہری تنصیب گاہ کی حفاظتی باڑ کو لگے مگر عمارت اور اس میں ذخیرہ کردہ ایٹمی کوڑے کے کنٹینر بظاہر محفوظ رہے

یوکرینی میڈیا کے مطابق روس نے یوکرین کے جنوب میں واقع ایک شہر پر قبضہ کر لیا ہے

روسی فوجی اب نووا کاخوفکا یا نیو کاخوفکا پر قابض ہیں

یہ ایک چھوٹا شہر ہے لیکن دریائے ڈینیپر پر واقع ہونے کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دریا کریمین کو پانی فراہم کرتا ہے

مبینہ طور پر یہاں کے میئر وولودیمیر کووالینکو نے کہا ہے کہ روسی فوجیوں نے شہر کی ایگزیکٹو کمیٹی پر قبضہ کر لیا ہے اور عمارتوں سے یوکرین کے جھنڈے اتار دیے ہیں

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنوب سے روس کی پیش قدمی اب تک کی اس کی سب سے بڑی کامیابی رہی ہے، یہاں پر قبضے سے خيرسون، میکوالیواور میلیتوپول جیسے شہروں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے

مقامی حکام نے تصدیق کی ہے کہ روسی افواج یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارخیو میں داخل ہو گئی ہیں

خارخیو کی علاقائی انتظامیہ کے سربراہ اولیگ سینیگوبوف کا کہنا ہے کہ چھوٹی فوجی گاڑیاں ’شہر میں گھس آئی ہیں۔

ان کے بیان سے پہلے، ایسی فوٹیج سامنے آئی ہے جس میں روسی فوجی گاڑیوں کو شمال مشرقی شہر کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے

سینیگوبوف کا کہنا ہے کہ روسی فوجیں شہر کے مرکز میں ہیں اور انہوں نے شہریوں کو گھروں کے اندر رہنے کی تاکید کی ہے

’پناہ گاہوں سے مت نکلیں۔۔ یوکرین کی مسلح افواج دشمن کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ شہریوں سے درخواست ہے کہ وہ سڑکوں پر نہ آئیں۔‘

یوکرین کی ایمرجنسی سروس نے تصدیق کی ہے کہ شمال مشرقی شہر خارخیو میں نو منزلہ عمارت پر ایک راکٹ حملے کے نتیجے میں ایک خاتون ہلاک اور دیگر زخمی ہو گئے۔

چند گھنٹے پہلے اسی شہر میں ایک گیس پائپ لائن پر بھی راکٹ حملہ ہوا ہے۔

خارخیو یوکرین کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے اور 24 فروری سے یہاں روسی حملے جاری ہیں

دوسری جانب روس کا کہنا ہے کہ یوکرین کے ساتھ مذاکرات کے لیے ان کا ایک وفد بیلاروس پہنچا ہے

مگر یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے مذاکرات کی اس تازہ ترین پیشکش کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا ہے کہ اگر روس بیلاروس کی سرزمین سے یوکرین پر حملہ نہ کرتا تو منسک میں بات چیت ہو سکتی تھی

تاہم انہوں نے دوسری کسی بھی جگہ پر مذاکرات سے انکار نہیں کیا

زیلینسکی کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ کی سرزمین سے کوئی جارحانہ کارروائی نہ ہوتی تو ہم منسک میں بات چیت کر سکتے تھے۔۔۔۔ اب کسی اور مقام پر مذاکرات ممکن ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے ’یقیناً ہم امن چاہتے ہیں، ہم ملنا چاہتے ہیں، ہم جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ وارسو، بریتیسلاوا، بوداپیست، استنبول، باکو۔۔۔ ہم نے مذاکرات کے لیے روسیوں کے سامنے یہ تمام نام رکھے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ہم کسی دوسرے شہر میں بھی مذاکرات کرنے کو راضی ہیں۔ کسی ایسے ملک میں جس کی سرزمین سے ہم پر میزائل نہیں داغے گئے

اطلاعات کے مطابق یوکرین میں پاکستانی سفارتخانے نے بتایا ہے کہ یوکرین میں پاکستانی طلبا کی تعداد تقریباً تین ہزار ہے، جبکہ اکثریت نے ہدایت پر عمل کرتے ہوئے یوکرین چھوڑ دیا تھا

سفارتخانے کے مطابق ابھی چھ سے سات سو طلبا کو وہاں سے نکالا جا رہا ہے۔ ان میں سے 125 کو بحفاظت یوکرین سے نکالا جا چکا ہے۔ 396 اس وقت سرحد کے قریب ہیں جبکہ اٹھارہ اس وقت لییو کے استقبالیہ میں موجود ہیں۔ 88 فیصد طلبا محفوظ مقامات پر ہیں جبکہ باقی بھی جلد محفوظ مقام پر ہوں گے

پولینڈ کی سرحد پر موجود ایک پاکستانی طالبلم عدیل احمد کے مطابق وہ گزشتہ چوبیس گھنٹے سے اپنے پانچ ساتھیوں کے ہمراہ لائن میں کھڑے اپنے نمبر کا انتطار کر رہے ہیں

واضح رہے کہ یوکرین کی سرحد پر ہزاروں کی تعداد میں مختلف قوموں اور علاقوں سے لوگ موجود ہیں جو پولینڈ میں داخلے کے منتظر ہیں

عدیل احمد کا کہنا تھا کہ ہمیں دن رات سخت سردی میں لائن میں کھڑا رہنا پڑ رہا ہے

’لائن نہیں چھوڑ سکتے کہ اس طرح ہمیں پھر پچھے چلا جانا پڑے گا۔ اپنے ساتھ ہاتھ میں جو کھانے پینے کا سامان رکھا تھا، وہ بھی ختم ہو گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں لگ رہا ہے کہ آئندہ چند گھنٹوں میں سرحد پر مزید لوگ جمع ہو جائیں گے

صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے طالبعلم توقیر ناصر جو یوکرین اور پولینڈ کی سرحد پر موجود ہیں، کا کہنا تھا کہ ہماری ساتھی طالبات کی اکثریت پولینڈ میں داخل ہوچکی ہے جبکہ ہم لوگ انتظار میں ہیں کہ ہمیں بھی داخلے کی اجازت مل جائے

انہوں نے بتایا ’دو راتوں سے شدید سردی میں کھلے آسمان تلے کھڑے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اگر یہ رات بھی ہمیں کھلے آسمان تلے کھڑا ہونا پڑا تو پتا نہیں ہمارا کیا بنے گا۔‘

مزید خبریں:



 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close