ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر عالمی درجہ حرارت صنعتی دور سے پہلے کے درجہ سے دو ڈگری بڑھ گیا، جیسا کہ پیش گوئی کی گئی ہے، تو 2050 تک گرمی سے منسلک اموات میں 370 فیصد اضافہ ہو جائے گا
یہ نتائج میڈیکل جرنل ’لینسیٹ‘ میں، آب و ہوا کی تبدیلی کے عوامی صحت پر اثرات پر ’کاؤنٹ ڈاؤن‘ نامی سالانہ جائزے میں شامل اس رپورٹ کا حصہ تھے، جو بدھ کے روز شائع ہوئی۔
’کاؤنٹ ڈاؤن‘ جائزے کے مطابق، سال 1991 اور 2000 کے برسوں کے مقابلے میں گزشتہ عشرے میں 65 سال اور اس سے زیادہ عمر کے افراد میں گرمی سے منسلک اموات میں 85 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ اس مطالعاتی جائزے سے معلوم ہوا کہ گزشتہ دس برسوں میں دنیا بھر میں لوگوں کو اوسطاً 86 دن زندگی کے لیے خطرناک درجہ حرارت کا سامنا ہوا
محققین نے یہ پیش گوئی بھی کی کہ مزید تواتر سے ہونے والی گرمی کی لہروں کی وجہ سے پیدا ہونے والی خشک سالی کے باعث اس صدی کے وسط تک پچاس کروڑ مزید لوگوں کو خوراک کی قلت کا خطرہ درپیش ہو سکتا ہے
بین الاقوامی ماہرین کی جس ٹیم نے لینسیٹ کی یہ ریسرچ کی ہے، اس نے بڑے پیمانے پر حکومتی معاونت اور نجی بنکوں کی مدد کی حامل معدنی ایندھن کی پیداوار میں اضافے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے ماحولیات کے پروگرام کی جاری ایک ریسرچ میں کہا گیا تھا کہ دنیا بھر میں معدنی ایندھن پیدا کرنے والے بڑے ملک جس راستے پر گامزن ہیں، اس کے نتیجے میں وہ 2030 میں اس سے لگ بھگ 110 فیصد زیادہ تیل، گیس اور کوئلہ پیدا کریں گے، جتنا عالمی درجہ حرارت کو ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سیلسئس تک محدود رکھنے کے لیے درکار ہے“
رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا، برازیل، روس، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ 82 فیصد معدنی ایندھن پیدا کرنے اور اس کی 73 فیصد کھپت کرنے والے بیس ملکوں میں شامل ہیں
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ملک نے تیل، گیس اور کوئلے کی پیداوار کو اس درجے تک کم کرنے کا وعدہ نہیں کیا ہے، جس سے ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سیلسئس کے ہدف کو پورا کیا جا سکتا ہو
یاد رہے کہ عالمی درجہِ حرارت کو کم کرنے اور زمین کو گرم ہونے سے بچانے کے لیے دنیا بھر کے سائنس دانوں نے 2015 میں پیرس میں ایک معاہدہ کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ عالمی درجہ حرارت کو صنعتی دور سے پہلے کے درجہ حرارت سے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کر دیا جائے گا۔ درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے کاربن گیسوں کے اخراج پر کنٹرول کیا جائے گا اور اسے بتدریج کم کرتے ہوئے صفر کی سطح پر لایا جائے گا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل اکتوبر میں ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا تھا کہ اس صدی میں پاکستان، انڈیا اور دنیا کے چند بڑے شہروں کے اندر دو ارب سے زائد افراد کو ناقابل برداشت حد تک گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جریدے پی این اے ایس (PNAS) میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق نئی دہلی اور شنگھائی سے لے کر لاگوس اور شکاگو تک دنیا کے کچھ بڑے شہروں کو سب سے زیادہ سنگین اثرات کا سامنا ہوگا
موسمیاتی ماہرین نے اس تحقیق میں پیشنگوئی کی تھی کہ رواں صدی کے اختتام تک ماحولیاتی تبدیلی گلوبل وارمنگ کا باعث بن سکتی ہے، جو کہ بھارت اور پاکستان سمیت دنیا کے کچھ سب سے زیادہ آبادی والے علاقوں میں لوگوں کو دل کا دورہ پڑنے اور لُو کے باعث موت کا سبب بن سکتی ہے
جنوبی ایشیا جیسے خطوں کے لیے صورت حال خصوصی طور پر سنگین ہو جائے گی، جو حالیہ برسوں میں موسمیاتی بحران کی وجہ سے پہلے ہی شدید گرمی کا سامنا کر رہے ہیں
اور اگر عالمی درجہ حرارت میں موجودہ سطح سے دو ڈگری سیلسیس یا اس سے زیادہ کا اضافہ ہوتا ہے تو گرمی اتنی شدید ہو سکتی ہے کہ ایسے علاقے قدرتی طور پر خود کو ٹھنڈا نہیں کر سکیں گے
عالمی درجہ حرارت، ماقبل صنعتی سطح سے، 2 ڈگری سیلسیس بڑھنے پر پاکستان اور بھارت اور وادیِ سندھ کے 2.2 ارب باشندے، مشرقی چین کے ایک ارب لوگ اور سب صحارا افریقہ کے 800 ملین افراد کو گھنٹوں تک سخت گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا، جو انسانی قوت برداشت سے باہر ہوگا
جو شہر اس سالانہ گرمی کا شکار ہوں گے ان میں دہلی، کولکتہ، ملتان، نان جنگ اور ووہان شامل ہیں
تین ڈگری سیلسیس بڑھنے پر ڈیڑھ ارب سے زائد افراد کو اس طرح کے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا
چار سیلسیس درجہ حرارت پر یمن کے شہر الحدیدہ میں ہر سال تقریباً 300 دن ممکنہ طور پر ناقابلِ برداشت مرطوب گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا
واضح رہے کہ ماہرین کے مطابق انسانی جسم گرمی اور رطوبت کی ایک خاص سطح کو ہی برداشت کرسکتا ہے، جس کے بعد صحت کے حوالے سے کئی طرح کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، مثلاً لو لگنا اور دل کا دورہ پڑنا۔