بابری مسجد شہید کر کے درجنوں مساجد بنانے والے ‘بلبیر سنگھ’ کون تھے؟

ویب ڈیسک

نئی دہلی : 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کو شہید کرنے کارروائی میں سرگرمی سے حصہ لینے کے بعد اسلام قبول کرنے والے ’بلبیر سنگھ‘ کا حیدرآباد دکن کے علاقے حافظ بابا نگر میں پراسرار طور پر انتقال ہو گیا ہے
بابری مسجد کو شہید کرنے کے محض ایک سال بعد یعنی 1993ع میں اسلام قبول کر کے بلبیر  سنگھ نے اپنا نام محمد عامر رکھا تھا اور اپنے فعل کے کفارہ کے طور پر ایک سو مساجد تعمیر کرنے کا عزم کیا تھا
حیدرآباد دکن سے شائع ہونے والے روزنامہ ‘سیاست’ کے مطابق محمد عامر کے اہل خانہ پڑوسی ریاست کرناٹک گئے ہوئے تھے اور جمعرات کو جب وہ واپس لوٹے تو انہوں نے خاندان کے سرپرست کو مکان میں مردہ پایا، پولیس تھانہ کنچن باغ نے ان کی موت کی تحقیقات شروع کر دی ہیں
اخبار نے لکھا ہے کہ محمد عامر نے 1993 میں اترپردیش کے شہر مظفر نگر میں مولانا کلیم صدیقی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا اور مسلمان ہونے کے بعد سے انہوں نے مساجد کی تعمیر کے لیے سرگرمی سے حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا
سال 1994 میں انہوں نے ہریانہ میں مسجد مدینہ کے نام سے پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا
محمد عامر دو دہائی قبل ہریانہ سے حیدرآباد دکن منتقل ہوئے تھے اور یہاں پرانے شہر کے حافظ بابا نگر میں مقیم تھے
محمد عامر کا آبائی علاقہ ریاست ہریانہ کا پانی پت تھا۔ ان کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ انہوں نے ہریانہ کی روہتک یونیورسٹی سے تین مضامین تاریخ، سیاسیات اور انگریزی میں ماسٹرز ڈگریاں حاصل کی تھیں
محمد عامر بچپن میں ہی سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی مقامی شاکھا سے وابستہ ہو گئے تھے اور پھر شیو سینا میں شمولیت اختیار کر لی تھی
مساجد کی تعمیر کی مہم کے تحت محمد عامر نے 2019ع میں بابری مسجد کی شہادت کی برسی کے موقع پر حیدرآباد کے علاقے بالاپور میں مسجد رحیمیہ کے نام سے 59ویں مسجد کی تعمیر کے کام کا آغاز کیا تھا
حافظ بابا نگر کے ایک رہائشی سعادت علی نے بتایا کہ ایک سو مساجد تعمیر کرنے کا عزم رکھنے والے محمد عامر خود کرائے کے مکان میں رہتے تھے. وہ میرے دوست کے بہنوئی تھے۔ وہ پہلے تالاب کٹہ کے علاقے میں رہتے تھے جہاں ان کا بیشتر وقت مسجد حضرت قبلہ میں گزرتا تھا
سعادت علی کے مطابق محمد عامر حال ہی میں حافظ بابا نگر منتقل ہوئے تھے جہاں وہ بالاپور روڑ پر ایک مسجد تعمیر کروا رہے تھے
حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد رحمان خان، جو 2019ع میں محمد عامر کا 2019 انٹرویو کر چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ محمد عامر قریب دو دہائی قبل حیدرآباد آئے تھے اور یہیں پر شادی کی تھی۔ ان کے پسماندگان میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے
محمد عامر نے محمد رحمان کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ بابری مسجد کے گنبد پر چڑھنے والوں میں وہ خود بھی شامل تھے اور ہتھوڑا بھی چلایا تھا
انہوں نے بتایا کہ میرا برین واش کیا گیا تھا اور مجھے اپنے فعل کا عمر بھر پچھتاوا رہے گا
محمد عامر نے محمد رحمان کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ  بابری مسجد کو شہید کرنے کے بعد میری طبیعت مسلسل خراب رہنے لگی تھی۔ جب تمام تجربے ناکام ہوئے تو کچھ لوگوں نے مجھے روحانی علاج کے لیے کسی مسلمان عالم کے پاس جانے کا مشورہ دیا. میں ہر طرح کا علاج آزما کر تھک چکا تھا۔ میرا سکون ختم ہو چکا تھا اور میری نیند اڑ چکی تھی۔ خود کو ہر وقت بے چین محسوس کرتا تھا
بالآخر مولانا کلیم صدیقی سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ ان سے ملنے کا واحد مقصد دعا لینا تھا لیکن مولانا کے مخلصانہ طرز عمل دیکھ کر میں بہت متاثر ہوا. اس ملاقات کے بعد میری صحت بھی ٹھیک ہونے لگی۔ جیسے جیسے میری صحت میں سدھار آیا میں اسلام کے قریب آتا گیا اور بالآخر اسلام قبول کر لیا۔ مذہب بدلنے کے بعد کافی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پولیس نے کافی ہراساں بھی کیا
محمد عامر نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ بابری مسجد کی شہادت کا دن پوری دنیا کے لیے ایک سیاہ دن تھا۔ یہ وہ دن تھا جب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نے کروڑوں لوگوں کے جذبات کو مجروح اور قانون کو چیلنج کیا. مسجد کی شہادت کی کارروائی ایک سیاسی کارروائی تھی۔ اس کو انجام دینے کے لیے مذہب کو استعمال کیا گیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close