ویسے پچھتر برس میں ایسا کون سا وزیرِ اعظم یا وزیر گزرا ہے، جو لاڈلا ہونے کی سند لیے بغیر اپنے عہدے پر آیا بھی ہو اور ٹک بھی پایا ہو۔
پچپن برس پہلے اپنے بچپن میں رحمے نائی کی دکان سے سردار موچی کے کھوکھے اور تانگہ اسٹینڈ کے جیرو کوچوان تک ہر ماجھے ساجھے کن کٹے کو پورے تیقن سے یہی کہتے سنا کہ اگر کوئی امریکہ کا لاڈلا نہ ہو تو اس کی اجازت کے بغیر پتا تک نہیں ہلا سکتا۔ پھر اس آقا جاتی فہرست میں سعودی عرب بھی شامل ہو گیا۔
مگر آج کی جنریشن سمجھتی ہے کہ اب نہ وہ امریکہ رہا نہ اس کے ویسے وفادار۔ سعودی عرب بھی اب پہچانا نہیں جاتا۔ ان دونوں سمیت کسی کو بھی پاکستان کی شکل میں ویسٹ اوپن کارنر پلاٹ کی فی الحال ضرورت نہیں۔
یہ اکیسویں صدی ہے۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ اب تو جرنیل جسے چاہیں وہی ہیرو۔ نہ چاہیں تو وہی ہیرو زیرو۔ جو خود کو لاڈلا نہیں سمجھتے، انھیں بھی سردار اپنا کام نکلوانے کے لیے اٹھا کے لے جاتا ہے اور اپنی مرضی کے نکاح نامے اور طلاق نامے پر ایک ساتھ دستخط کروا لیتا ہے۔
سندھ کے ایک اسٹیبلشمنٹی چہیتے وزیرِ اعلی جام صادق علی کے بارے میں مشہور تھا کہ جس پر مہربان ہوتے تو سرکاری دکان پر دادا جی کی فاتحہ کے مصداق کوئی بھی پلاٹ یا قطعہِ اراضی بخش دیتے اور جب متعلقہ سیکریٹری ممنمناتا کہ حضور نے جو پلاٹ اپنے جس لاڈلے کو کوڑیوں کے مول بخشا ہے قانون میں اس کی گنجائش نہیں بنتی۔
اس اعتراضِ بے جا پر جام صاحب گرجتے کہ بابا میں نے تیرے کو سیکرٹری مفت کا مشورہ دینے کے لیے نہیں کام کرنے کے لیے رکھا ہے۔ میں نے آرڈر نکال دیا ہے، اب اس کے لیے قانون ڈھونڈنا تیرا کام ہے۔ ورنہ قانون مجھے تیرے تبادلے یا ڈیموٹ کرنے یا او ایس ڈی بنا کے کراچی سے نکال کے کشمور میں پھینکنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔
ذرا سی ترمیم و اضافے کے ساتھ یہ ’جام صادق ڈاکٹرائن‘ اسٹیبلشمنٹ بھی اپنا چکی ہے۔ مہربان ہو تو کھل جا سم سم، ہر مقدمہ خارج، ہر موڑ پر سرخ قالین، دانے دنکے کے اسیر ہر کبوتر کو لاڈلے کے کندھے پر بیٹھنے کا اشارہ، ہر قانون و ضابطہ موم کی ناک۔
سنگ دل ہو جائے تو قدموں تلے سے وہی سرخ قالین کھینچ کر، کبوتروں کو سیٹی بجا کر واپس چھت پر اتار کر، بدلے حقائق کی چلچلاتی دھوپ میں ننگے پاؤں چلواتے ہوئے سوائے جیل کے ہر دروازہ ایک ایک کر کے بند، مقدمات کا مسلسل پتھراؤ، ایک مقدمے میں ضمانت کے بدلے دس نئے پرچے تیار اور کردار کشی کی واشنگ مشین میں ڈال کے دھلائی الگ۔
اب ہر لاڈلا تو ’آج بازار میں پابجولاں چلو‘ نہیں گا سکتا۔ کچھ سائیڈ پکڑ لیتے ہیں، کچھ سیاسی پلاسٹک سرجری کروا لیتے ہیں، کچھ ’باہرلے ملخ‘ چلے جاتے ہیں اور کچھ شیر معافی تلافی کر کے بلی کی تنخواہ پر کام کرنے کے لیے پھر سے آمادہ ہو جاتے ہیں۔
مسئلہ اسٹیبلشمنٹ نہیں ہے کیونکہ مالک مکان کبھی مسئلہ نہیں ہوتا۔ مسئلہ کرائے دار پیدا کرتے ہیں۔ حالانکہ تمام شرائط کاغذ پر طے ہوتی ہیں۔
مثلاً مالک مکان کی اجازت کے بغیر کوئی اضافی کیل دیوار میں نہیں ٹھونکی جائے گی۔ کوئی دروازہ، کھڑکی اور روشندان تبدیل نہیں ہو گا۔ دیواروں کو داغ دھبوں سے پاک رکھا جائے گا۔ کوئی شے تبدیل کروانی ہو تو مالک سے درخواست کی جائے گی۔ اگر اس نے مناسب سمجھا تو درخواست قبول کر لے گا۔ نہ سمجھا تو اس سے فالتو کی جرح نہ کی جاوے۔ کرایہ ہر ماہ کی طے شدہ تاریخ تک پہنچا دیا جائے یا جمع کرا دیا جائے۔
پانی کی موٹر مسلسل نہیں چلے گی۔ تمام یوٹیلٹی بلز باقاعدگی سے مقررہ تاریخ سے پہلے پہلے ادا کرنا ہوں گے۔ ٹوٹ پھوٹ کے نقصان کی بھرپائی بھی کرائے دار کی ذمہ داری ہو گی۔ کرایہ نامہ گیارہ ماہ کے لیے ہوگا۔ مالک مطمئن ہو گا تو معاہدے کی تجدید ہو گی ورنہ گھر خالی کرنا پڑے گا۔ اور اگلا معاہدہ کم از کم دس فیصد اضافی کرائے کے ساتھ ہو گا۔ پھر بھی اگر مالک کو ضرورت ہو یا وہ جز بز ہو جائے تو ایک ماہ کے نوٹس پر گھر خالی کرا سکتا ہے تاکہ اسے اونچے کرائے پر کسی اور کو چڑھا سکے۔
جھگڑا تب شروع ہوتا ہے جب کرائے دار چھ ماہ گزرنے کے بعد اپنے تئیں انوکھا لاڈلا بن کے فرمائشیں شروع کر دیتا ہے، اضافی ایگزاسٹ فین لگوا دو، پانی کی موٹر پرانی ہے اس کی جگہ بڑی موٹر ہونی چاہیے۔ گیلری کی ریلنگ بدصورت ہے اسے بھی بدلنا ہو گا۔ اے سی کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا لہذا سنگل کے بجائے ڈبل کنکشن کی تار بدلوا دو۔گھر فوری طور پر خالی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے دوسرے برس کے لیے بھی ابھی سے معاہدہ کر لو۔ زبردستی کی تو عدالت جاؤں گا اور کرایہ تمھیں دینے کے بجائے فیصلہ ہونے تک عدالت میں جمع کرواتا رہوں گا وغیرہ وغیرہ۔
تگڑے کرائے دار مالک مکان کو دبا لیتے ہیں۔ مگر ہم نے تو پچھلے پچھتر برس میں کرائے داروں کا سامان ہی سڑک پر دیکھا ہے اور احتجاج یا قانون کی دھمکی دینے پر مالک مکان کے مسٹنڈوں کے ہاتھوں چھترول اور پرچے کا اندیشہ الگ۔
ایسی صورت میں کم از کم اس محلے میں ایسے بدعقلوں کو کوئی اور اپنا مکان کرائے پر نہیں دیتا۔ ہم نے تو یہی دیکھا ہے بھیا۔۔۔
بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)