چاروں گورنر بھی تبدیل کرنے کا فیصلہ، تحریک عدم اعتماد پر حکومت اور اپوزیشن کی حکمت عملی کیا ہوگی؟

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – وزیراعظم عمران خان کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن نے اپنے اپنے ارکان کے لیے خصوصی حکمت عملی تیار کرلی ہے

دونوں اطراف نے اپنے اپنے ارکان کے "تحفظ” اور انہیں عدم اعتماد کے حوالے سے پارٹی پالیسی پر عمل پیرا رہنے کے لیے پابند کردیا ہے اور اس حوالے سے باضابطہ طور پر ارکان کو آگاہ بھی کردیا گیا ہے
ہے

اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں ”چاروں صوبوں کے گورنر بھی تبدیل کرنے کا“ پتہ پھینکا ہے

حکومت کی حکمت عملی

حکمران جماعت پی ٹی آئی نے اپنے ارکان کو تحریک عدم اعتماد کے لیے بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہ جانے دینے کا فیصلہ کیا ہے

وفاقی کابینہ کے ایک اہم رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’حکومت نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت اپنے ارکان کو پابند کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے اجلاس کے روز ووٹنگ میں حصہ لینے کے لیے ایوان میں نہیں جائیں گے‘

حکومتی ذرائع کے مطابق ’اس کے باوجود اگر کوئی رکن قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کرتا ہے اور پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو اس کے خلاف ڈیفیکشن قانون یعنی پارٹی سربراہ کے فیصلے سے انحراف کے قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘

حکومت کی جانب سے صرف مشیر پارلیمانی امور ایوان میں جائیں گے، جو تحریک عدم اعتماد کی رسمی کارروائی کا حصہ بنیں گے

آرٹیکل 63 اے کیا ہے؟

آئین میں آرٹیکل 63 اے 2010 میں اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے شامل کیا گیا جس کا مقصد ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کو روکنا تھا۔
اس کے تحت اگر کوئی رکن قومی اسمبلی اپنی پارٹی کی بنیادی رکننیت استعفٰی دے یا کسی دوسری جماعت میں شامل ہوجائے یا پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹنگ کے دوران غیر جانبدار رہے یا مخالفت میں ووٹ دے تو اس کے خلاف نااہلی کی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔
جن معاملات میں پارٹی سربراہ متعلقہ رکن کے خلاف رکنیت ختم کرنے کی کارروائی عمل میں لا سکتے ہیں ان میں وزیراعظم یا وزرائے اعلیٰ کا انتخاب، اعتماد کا ووٹ دینے یا عدم اعتماد کے خلاف ووٹ کرنے اور منی بل یا آئینی ترمیم کے بل پر ووٹنگ شامل ہیں

ان معاملات میں اگر کوئی پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو پارٹی سربراہ اپنے رکن سے وضاحت طلب کرے گا اور اس کی وضاحت سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں اسے منحرف قرار دے کر تحریری طور پر پریذائیڈنگ افسر اور الیکشن کمیشن کو آگاہ کرسکتا ہے اور یہی تحریری نوٹس متعلقہ رکن کو بھی بھیجا جائے گا

پریذائیڈنگ افسر دو دن میں معاملہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجیں گے اور اگر وہ دو دن میں معاملہ ریفر نہیں کرتے تو وہ ریفرشدہ ہی سمجھا جائے گا

چیف الیکشن کمشنر اسے الیکشن کمیشن کے سامنے رکھیں گے جو تیس دن مین اس پر فیصلہ کرے گا

انحراف ثابت ہو جانے کی صورت میں متعلقہ رکن کی اسمبلی رکنیت ختم کر کے اس کی سیٹ خالی قرار دے دی جائے گی

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف تیس روز میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی، جس کا فیصلہ حتمی ہوگا

اپوزیشن نے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟

دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے اپنے ارکان کی حاضری یقینی بنانے کے لیے بھی حکمت عملی طے کرلی ہے، جس کے تحت تمام ارکان کو مختلف گروپوں میں تقسیم کردیا گیا ہے

مسلم لیگ ن کے ایک اہم رہنما کے مطابق ’ہر گروپ کا ایک کوآرڈینیٹر بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہر گروپ کا الگ واٹس ایپ گروپ بھی تشکیل دے دیا گیا ہے‘

’ہر گروپ کے کوآرڈینیٹر کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ اپنے گروپ کے ارکان کی حاضری یقینی بنائے گا۔‘

دوسری جانب حکومت یا سرکاری اداروں کی جانب سے کسی بھی رکن کے خلاف اگر کسی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے اور اس رکن کی گرفتاری یا حراست کا کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو اس سلسلے میں بھی منصوبہ بندی طے کرلی گئی ہے

وہ رکن سب سے پہلے تو اپنے گروپ کے کوآرڈینیٹر کو بتائے گا۔ ضرورت پڑنے پر جمعیت علمائے اسلام ف کے انصار الاسلام رضاکاروں کو سکیورٹی پر مامور کیا جائے گا

اسی تناظر میں اپوزیشن کے اہم قانونی ماہرین بھی تیاری رکھیں گے تاکہ ایسی کسی کارروائی کی صورت میں عدالت سے رجوع کرکے ریلیف حاصل کیا جاسکے

اس کے علاوہ اپوزیشن ارکان کو اپنی اپنی رہائش گاہوں تک محدود رہنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے.

چاروں گورنر بھی تبدیل کرنے کا فیصلہ

تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر متحدہ اپوزیشن نے حکومت کی اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملانے کا فارمولہ طے کرلیا، اپوزیشن نے چاروں صوبوں کے گورنر بھی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے

ذرائع کا کہنا ہے کہ ق لیگ کے ساتھ دینےکی صورت میں اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد نہیں لائی جائے گی، ق لیگ کو وفاقی کابینہ اور پنجاب میں وہی حصہ ملے گا جو اس حکومت میں اس کے پاس ہے

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے ساتھ آنے پر انہیں سندھ کابینہ اور مرکز دونوں میں حصہ دیا جائے گا

ذرائع کا کہنا ہے کہ بعپ پارٹی کے ساتھ دینے پر وفاق اور بلوچستان میں نمائندگی دی جائے گی، بلوچستان حکومت کا فیصلہ مولانا فضل الرحمان اور اختر مینگل کریں گے

واضح رہے کہ متحدہ اپوزیشن نے صدر عارف علوی کے خلاف مواخذے کی تحریک لانےکا فیصلہ بھی کر لیا ہے

ذرائع کا بتانا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے فوری بعد مواخذے کی تحریک پیش کی جائے گی

ذرائع کے مطابق نئے صدر کے امیدوار کے لئے آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان پر مشتمل دو رکنی کمیٹی قائم کردی گئی ہے

ذرائع کا کہنا ہے کہ طے ہوگیا ہے کہ صدر پیپلز پارٹی یا جے یو آئی ف میں سے ہوگا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close