عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں دنیا بھر میں ٹی بی (تپ دق) کے نئے کیسز 30 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کی اطلاع دیتے ہوئے اس تعداد میں اضافے کی وجہ کووڈ-19 کی وبا کے دوران ٹی بی کے علاج میں تاخیر کو قرار دیا ہے
واضح رہے کہ سن 2022 میں دنیا بھر میں تقریباً 10.6 ملین افراد میں ٹی بی یا تپ دق کی تشخیص ہوئی۔ ان میں سے 7.5 ملین مریض ایسے تھے، جو پہلی بار پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والی اس متعدی بیماری کا شکار ہوئے تھے۔ حالانکہ اگر کسی کو ایک مرتبہ ٹی بی کی بیماری ہو جائے تو اس کے اس مرض میں دوبارہ مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں
عالمی ادارہِ صحت کے مطابق اس کی جانب سے ٹی بی کی مانیٹرنگ 1995ء میں شروع کی گئی تھی، اور تب سے 2022ء میں سب سے زیادہ ٹی بی کے کیسز ریکارڈ کیے گئے۔
اس سال اپنی ایک رپورٹ میں اقوام متحدہ کے اس ادارے نے نئے کیسز کی تعداد میں اس اضافے کووڈ-19 کی وبا کے دوران ٹی بی کے علاج میں تاخیر سے منسلک کیا ہے
اس حوالے سے بھارت میں ٹی بی پر کام کرنے والے ادارے ‘ریچ’ سے وابستہ ڈاکٹر رامیا آننتھاکرشنن کا کہنا ہے کہ کووڈ-19 کی وبا کے دوران قرنطینہ جیسے اقدامات کے باعث کئی افراد کا ٹی بی کا ٹیسٹ نہیں ہو پایا
سن 2022 میں افریقہ، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں واقع محض آٹھ ممالک میں دنیا بھر کے ٹی بی کے نئے کیسز میں سے دو تہائی کیسز رپورٹ ہوئے۔ یہ ممالک بھارت، انڈونیشیا، چین، فلپائن، پاکستان، نائجیریا، بنگلہ دیش اور عوامی جمہوریہ کانگو تھے
البتہ ان میں سے بھارت، فلپائن اور انڈونیشیا میں دنیا بھر میں مجموعی طور پر ٹی بی کے کیسز میں سب سے زیادہ کمی بھی دیکھی گئی، جو کہ 60 فیصد تھی
پچھلے سال دنیا بھر میں تقریباً 1.3 ملین اموات کا سبب ٹی بی کا عارضہ تھا۔ اس کے مقابلے میں 2020ء اور 2021ء میں ٹی بی کے باعث ہونے والی سالانہ اموات کی تعداد 1.4 ملین تھی
عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق 2022ء میں کسی ایک قسم کے انفیکشن پھیلانے والے جرثومے کے باعث ہونے والی اموات میں سب سے زیادہ اموات کووڈ کے باعث ہوئیں جبکہ ٹی بی ایسی اموات کی دوسری بڑی وجہ رہی۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ٹی بی سے ہونے والی اموات کی تعداد ایچ آئی وی اور ایڈز سے ہونے والی اموات کی تعداد سے تقریباً دو گنا زیادہ تھی
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ مریضوں میں ٹی بی موت کی نا صرف ایک بڑی وجہ ہے بلکہ ان کو ٹی بی ہونے کے امکانات دیگر افراد کے مقابلے میں 18 گنا زیادہ ہوتے ہیں
ٹی بی سے ہونے والی اموات سے بچنے کے حوالے سے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ مناسب علاج کی فراہمی کے بعد ٹی بی کے 85 فیصد مریض صحتیاب ہو جاتے ہیں، جبکہ اس مرض سے ہونے والی اموات میں کمی کا ایک طریقہ اس کی جلد تشخیص ہے
ٹی بی سے بچاؤ کے لیے ایک ویکسین کا استعمال بھی کیا جاتا ہے، جسے بی سی جی یا بیسل کیلمیٹ گیورین کہتے ہیں
اس ویکسین کا استعمال تقریباً ایک صدی سے کیا جا رہا ہے اور یہ عموماً بچوں کو دی جاتی ہے۔ جہاں یہ ویکسین پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے کافی موثر ہے وہیں بڑی عمر اور دیگر امراض، مثلاً ایڈز اور ذیابیطس، میں مبتلا افراد کے لیے زیادہ موثر نہیں
ٹی بی سے تحفظ کے لیےنئی ویکسینز بھی بنائی جا رہی ہیں لیکن ان کو ابھی کمیونٹی کی سطح پر استعمال نہیں کیا گیا
اس کے علاوہ اگر کسی مریض میں ٹی بی پھیلانے والے جراثیم کی نسل افزائی ہو رہی ہو اور اس بیماری کی علامات ظاہر ہو رہی ہوں تو وہ تھیراپوئٹک دواؤں، مثلاً آئیسونیازڈ کا استعمال بھی کر سکتے ہیں
اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے یہ تجویر بھی دی ہے کہ ان افراد کو بھی ایسی دواؤں کا استعمال کرنا چاہیے جن کا واسطہ ٹی بی کے مریضوں سے پڑے، تا کہ انہیں یہ انفیکشن نہ ہو۔ لیکن ساتھ ہی اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت ہی کم افراد اس بات کا خیال رکھتے ہیں کیونکہ یہ دوا چھ سے نو ماہ کے طویل عرصے کے لیے روزانہ کھانی پڑتی ہے
اس حوالے سے ڈاکٹر آننتھاکرشنن کا کہنا ہے ٹی بی سے بچا ؤ کی دیگر دوائیں، مثلاً ریفامپسن نامی اینٹی بائیوٹک، کا استعمال زیادہ کامیاب رہا ہے کیونکہ ہفتے میں اس کی صرف ایک غذا لینی پڑتی ہے۔