خراب ہوتے جگر کو بچانے کے لیے سیل تھراپی پر مبنی نیا طریقہ علاج

ویب ڈیسک

اسکاٹش سائنس دانوں نے سیل تھراپی پر مبنی ایک نیا طریقہ علاج وضع کیا ہے، جو جگر کے مہلک امراض جیسا کہ سروسس cirrhosis کو بڑھنے سے روک سکے گا۔ کٹنگ ایج تھراپی وہ پہلا طریقہ ہے، جس کی مدد سے سِروسس کا علاج کیا جاسکتا ہے

سِروسس ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے، جس میں چکنائی سے بھرپور غذائیں کھانے، شراب نوشی اور ہیپاٹئٹس بی اور سی کے طویل مدتی انفیکشنز کے سبب جگر کے بافتے خراب ہونے لگتے ہیں

جگر کی سروسس کی وجوہات میں انفیکشن جیسے ہیپاٹائٹس سی، موٹاپا، شراب کی زیادتی اور کچھ جینیاتی اور مدافعتی حالات شامل ہیں

واضح رہے کہ جگر کی دائمی بیماریاں اور اس سے منسلک سروسس عالمی سطح پر ہر سال تقریباً 10 لاکھ اموات کا سبب بنتے ہیں

فی الحال اس کیفیت کو روکنے یا ختم کرنے کے لیے کوئی دوا یا طریقہ علاج موجود نہیں ہے۔ اس وقت آخری مرحلے کے جگر کے سروسس کا واحد کامیاب علاج عضو کی پیوند کاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئے طریقہ علاج کے سیفٹی ٹرائل کو متبادل علاج کی تلاش میں ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے

یونیورسٹی آف ایڈنبرا میں وضع کیے جانے والے اس طریقہِ علاج میں سائنس دانوں کی جانب سے مریضوں سے خون کے نمونے لیے جاتے ہیں اور ان سے مونوسائٹس نامی سفید خلیے اخذ کیے جاتے ہیں۔ یہ خلیے انفیکشنز کی مزاحمت کرنے والے خلیے ہوتے ہیں جو عموماً کچھ دنوں تک خون میں رہتے ہیں اور بعد میں جسم کے بافتوں میں میکروفیجز (زخمی بافتوں کی مرمت کرنے والے خلیے) بننے چلے جاتے ہیں

سائنس دانوں نے تجربہ گاہ میں مونو سائٹس کو استعمال کرتے ہوئے بڑی مقدار میں میکروفیجز بنائے اور ان کو مریضوں کے جگر میں ڈال دیا

ماہرین کا ماننا ہے کہ شدید سروسس کی کیفیت میں مبتلا افراد بیماری کے سبب جگر کو پہنچے نقصان کی وجہ سے بہت کم مؤثر میکروفیجز بناتے ہیں۔ محققین پُر امید ہیں کہ جسم سے باہر بنائے جانےو الے یہ خلیے متاثرہ جگر کو بہتر طریقے ٹھیک کرتے ہوئے کیفیت کو ختم کر دیں گے

علاج کے کلینیکل ٹرائل کے نتائج بوسٹن میں امریکن ایسوسی ایشن فار دی اسٹڈی آف لیور ڈیزیز (AASLD) کانفرنس (2023) میں پیش کیے گئے، جس میں بتایا گیا کہ تجربے میں سِروسس کے چھبیس مریضوں کو اس علاج سے گزارا گیا اور اس سال ان کی کیفیت میں کوئی واضح خرابی رونما نہیں ہوئی۔ اس ایک سالہ مطالعہ کے دوران جگر سے متعلق سنگین پیچیدگیوں کو ڈرامائی طور پر کم کرنے میں مدد ملی۔ یہ پیچیدگیاں ہسپتال میں داخل ہونے اور موت کا باعث بن سکتی ہیں۔

جبکہ چوبیس ایسے مریض، جن کی یہ تھراپی نہیں کی گئی، ان میں چار کی حالت تشویش ناک ہوئی اور تین کی موت واقع ہوئی

نتائج بتاتے ہیں کہ علاج سے جگر کی پیوند کاری کی ضرورت میں تاخیر میں مدد مل سکتی ہے، جو فی الحال جگر کی جدید بیماری والے مریضوں کے لیے دستیاب واحد علاج کا آپشن ہے، لیکن یہ ایک انتہائی مشکل طریقہ کار ہے جو اعضاء کی دستیابی، مریض کی اہلیت اور پیچیدہ بعد کی دیکھ بھال کی وجہ سے شدید حد تک محدود ہے

اس تحقیق کی قیادت پروفیسر اسٹیورٹ فوربس نے کی ہے، جو کلینکل ہیپاٹولوجسٹ، IRR ڈائریکٹر، اور سینٹر فار ریجنریٹیو میڈیسن میں گروپ لیڈر ہیں۔ انہوں نے میکروفیجز پر تحقیق کرنے میں ایک دہائی سے زیادہ وقت گزارا ہے، وہ اور ان کی ٹیم جگر کی بیماری کے لیے زیادہ موثر ادویات بنانے کے لیے میکروفیج خلیوں کی قدرتی تخلیق نو کی خصوصیات کو سمجھنے اور بڑھانے کے طریقوں کی تحقیقات کر رہے ہیں

پروفیسر اسٹورٹ فوربز کا کہنا تھا کہ انسانوں میں اس علاج کے مؤثر ہونے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے لیکن جانوروں میں اس طریقہِ علاج نے اثر دِکھایا ہے۔ محققین کا تحقیق کے نتائج سے حوصلہ بڑھا ہے

ٹرائل کا اگلا مرحلہ اس بات کی پیمائش کرے گا کہ آیا تھراپی جگر کو داغ کو کم کرنے اور تخلیق نو کو تحریک دینے میں مدد دیتی ہے۔ نتائج اگلے دو سالوں میں معلوم ہونے چاہئیں

پروفیسر اسٹورٹ فوربس کہتے ہیں ”لیور سروسس برطانیہ میں صحت کی دیکھ بھال کا ایک بڑا مسئلہ ہے اور سب سے اوپر پانچ قاتلوں میں سے ایک ہے۔ اس پہلے سیفٹی ٹرائل کے نتائج حوصلہ افزا ہیں اور اب ہم یہ جانچنے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں کہ یہ لوگوں کے ایک بڑے گروپ میں کتنا موثر ہے۔ اگر یہ مؤثر پایا گیا تو یہ اس اہم حالت سے نمٹنے کے لیے ایک نیا طریقہ پیش کرے گا۔“

برٹش لیور ٹرسٹ کی سی ای او پامیلا ہیلی کا کہنا ہے ”برطانیہ بھر میں ہمیں جگر کی بیماری کی وبا کا سامنا ہے۔ متاثرہ افراد کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے اور جگر کی بیماری اب 35 سے 49 سال کی عمر کے افراد کی سب سے بڑی قاتل ہے۔

انہوں نے کہا ”جگر کی دائمی بیماری اس وقت ہوتی ہے جب جگر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے اور داغ (سروسس) بن جاتا ہے۔ اس مرحلے پر، بہت کم علاج دستیاب ہیں۔ یہ نیا اختراعی طریقہ ایک اہم پیشرفت ہے اور مستقبل میں پیوند کاری کی ضرورت کو کم کر سکتا ہے۔ مزید تحقیق کی ضرورت ہے اور اس کام کا اگلا مرحلہ واقعی مریضوں کے لیے ممکنہ فائدے کی جانچ کرنا ہوگا۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close