اگرچہ اس وقت ماحولیاتی آلودگی کے خلاف سرگرم کچھ تنظیمیں پلاسٹک کے فضلے کے وسیع علاقوں کو صاف کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود کوڑے میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ کیا یہ محض سرمایہ دار کمپنیوں کا حربہ ہے؟ کیونکہ ایک جانب وہ اس فضلے کی صفائی کے لیے فنڈنگ بھی کرتی ہیں تو دوسری جانب وہ اس کی پیداوار کو کم کرنے پر بھی کسی طور تیار نہیں
دنیا کے سب سے بڑے سمندر کی سطح کے بالکل نیچے، ٹوتھ برش، بچوں کے کھلونے، مچھلی پکڑنے کے جال اور اشیائے خورد و نوش کی پیکنگ، سب ہی تیل اور گیس پر مبنی فضلہ ایک گاڑھے مادے کی شکل میں جمع ہو جاتے ہیں، جسے عظیم بحرالکاہل کوڑے کا ’پیچ‘ کہا جاتا ہے
فطری ماحول کے تحفظ کی ایک بین الاقوامی تنظیم آئی یو سی این IUCN کے مطابق ہر سال کم از کم چودہ ملین ٹن پلاسٹک سمندر میں پہنچتا ہے۔ وہاں، یہ جانوروں کی غذا بنتا ہے، وہ اسے اپنے معدے میں ڈالتے ہیں پھر یہ فوڈ چین میں داخل ہو جاتا ہے اور ماحولیاتی نظام کا حصہ بن کر اُسے نقصان پہنچا رہا ہے
غیر سرکاری تنظیم ’دی اوشن کلین اپ‘ سمجھتی ہے کہ وہ سمندر میں کوڑے کے ہاٹ اسپاٹ کے ذریعے بڑے پیمانے پر U شکل والے جالوں اور لگ بھگ ایک ہزار آلودہ دریاؤں سے کچرے کو روکنے کے لیے تیرتی رکاوٹوں کا استعمال کر کے گندگی کے زیادہ تر حصے سے مؤثر طریقے سے نمٹ سکتی ہیں
دی اوشین کلین اپ کا کہنا ہے کہ اس نے فعال ہونے کے بعد کی دہائی میں تقریباً ساڑھے سات ملین ٹن پلاسٹک کو ہٹایا ہے، اور اس کا خیال ہے کہ درکار فنڈنگ کے ساتھ یہ سطح پر تیرتے ہوئے نوے فی صد پلاسٹک کو صاف کر سکتی ہے
لیکن کوکا کولا اور سعودی تیل کمپنی آرامکو سے فنڈز حاصل کرنے اور اس کی ملکیت والی پولیمر پروڈیوسر SABIC کو پلاسٹک کی آلودگی سے منسلک گرین واش کمپنیوں کی مدد کرنے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے
واضح رہے کہ ’گرین واش‘ ایک بزنس اصطلاح ہے، جو ایسی مصنوعات کی فروخت کے لیے استعمال ہوتی ہے جو ماحول دوست نہیں ہوتیں، تاہم انہیں ماحول دوست بنا کر پیش کیا جاتا ہے
برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ میں قائم ماحولیاتی تحقیقاتی ایجنسی ’اوشن کیئر‘ سمندروں کی صفائی کی ٹیکنالوجیز کو پلاسٹک کے فضلے کے بہاؤ کو روکنے کے لیے بے ترتیب نظام کی طرف سے توجہ ہٹانے کا ذریعہ سمجھتی ہے
اس ایجنسی سے منسلک سمندری مہم کی سربراہ کرسٹینا ڈکسون کہتی ہیں، ”یہ ٹوٹی ہوئی ٹانگ پر بینڈ ایڈ کو چپکانے کے مترادف ہے۔ یہ کاغذ پر تو اچھا لگتا ہے، لیکن یہ حقیقی معنوں میں ماحولیات پر پلاسٹک کی آلودگی کے اصل اور بڑے اثرات جیسے مسائل کو حل نہیں کر رہا ہے۔‘‘
کرسٹینا ڈکسون کے بقول، ”پلاسٹک کی صفائی کے لیے انتہائی مہنگے کاموں پر توجہ مرکوز کرنے سے ان وسائل کو اس مسئلے کی غلط سمت کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا، ”ٹیکنالوجیز بہت زیادہ کاربن اخراج کا سبب بنتی ہیں اور ان کا استعمال سمندر میں پلاسٹک کو پکڑنے کے عمل میں نادانستہ طور پر سمندری حیات کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے‘‘
آسٹریلوی غیر منافع بخش Minderoo فاؤنڈیشن میں پلاسٹک کے اقدام کے ڈائریکٹر مارکس گوور کہتے ہیں ”اگر ’غسل خانہ‘ بھر رہا ہے اور بہہ رہا ہے، تو آپ کوشش کر سکتے ہیں کہ ایک پمپ ڈال کر اسے باہر نکالنا شروع کر دیں۔ لیکن واقعی، ہمیں نل کو بند کرنے کے لیے ماخذ پر جانا پڑے گا“
کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں بین الاقوامی مندوبین اس ہفتے مل کر پلاسٹک کی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے ایک عالمی معاہدے کو حوصلہ مند بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسا موسمیاتی تبدیلی پر پیرس کے معاہدے میں ہوا تھا
اس حوالے سے گوور نے کہا ”نیروبی میں مذاکرات کاروں کے پاس پلاسٹک کی آلودگی سے نمٹنے کے لیے ان کے سامنے آپشنز کا انتخاب ہوتا ہے، جیسا کہ ریستوران کے مینو کی طرح۔۔ اگر ہم صحیح انتخاب کرتے ہیں، تو ہم ایک ایسا کھانا لے کر آ سکتے ہیں جو واقعی ہمارے لیے اچھا ہو۔ لیکن اسی طرح، اگر ہم غلط انتخاب کرتے ہیں اور وہاں پر فاسٹ فوڈ کا انتخاب کرتے ہیں، تو یہ صحت مند نہیں ہو گا“
ممکنہ معاہدوں کی ماڈلنگ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مضبوط معاہدہ کاروبار کے معمول کے منظر نامے کے مقابلے میں 2040 تک پلاسٹک کے غیر منظم فضلہ کو 95 فیصد تک کم کر سکتا ہے
اس نقطہ نظر کے لیے پلاسٹک کی پیداوار کو کم کرنے، مسائل سے دوچار اور قابل گریز پلاسٹک کو ختم کرنے، دائرہ کار کو بڑھانے، اور ضائع کرنے کے طریقوں کو بہتر بنانے کے لیے عالمی سطح پر پابند قوانین کی ضرورت ہوگی
ماڈلنگ میں شامل برطانیہ کے سابق حکومتی مشیر فیلکس کارنیل نے کہا ”اسے عالمی ری سائیکلنگ کی شرحوں میں سات گنا اضافے کی ضرورت ہوگی اور اس کے باوجود مزید مضبوط کارروائی کی گنجائش باقی رہے گی۔ اگر ہمارے پاس محدود وسائل دستیاب ہیں، تو اس بہاؤ کو شروع سے روکنا اور اوپر کی طرف جانا – پلاسٹک کی غیر ضروری پیداوار کو کم کرنا اور جب تک ممکن ہوسکے سسٹم میں تیار شدہ پلاسٹک کو رکھنا سستا آپشن ہے، لیکن میرے خیال میں کمیونٹیز کو اس سے نمٹنے میں مدد کرنے کے لیے اب بھی ایک جگہ موجود ہے۔ وہ فضلہ جو اس وقت سسٹم میں موجود ہے“
لیکن سائنس دانوں کے ایک گروپ کے مطابق، جو نیروبی میں مندوبین کو مشورہ دے رہے ہیں، مذاکرات میں پلاسٹک پیدا کرنے والوں کے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے، اپ اسٹریم پروڈکشن کو حل کرنا مشکل ثابت ہو سکتا ہے
سویڈن کی یونیورسٹی آف گوتھنبرگ میں ماحولیات کے پروفیسر بیتھانی کارنی المروتھ کہتے ہیں کہ پلاسٹک کی حامی لابی کیپنگ پروڈکشن پر پیشرفت کو روکنے کے لیے کام کر رہی ہے، اور سگریٹ نوشی کے ضابطے کو روکنے کے لیے بگ ٹوبیکو کی کوششوں سے ملتی جلتی تکنیکوں کے ساتھ شکوک پیدا کر رہی ہے
المروتھ نے کہا کہ تمام سائنسی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ پلاسٹک کی پیداوار کو محدود کرنا پلاسٹک کی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے ضروری تھا، لیکن لابیسٹ اس عمل کا رخ موڑنے کے لیے سمندر کی صفائی اور کیمیائی ری سائیکلنگ جیسی زندگی کی آخری ٹیکنالوجیز پر قبضہ کر رہی ہیں
المروتھ کہتے ہیں ”یہ کمپنیوں کے لیے خود کو مفت خریدنے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ ’گیٹ آؤٹ آف جیل فری‘ کارڈ کی طرح ہے۔“
لیکن گندے صفائی کا کام کرنے والے لوگ اسے بائنری انتخاب کے طور پر نہیں دیکھتے ہیں۔
دی اوشین کلین اپ کے کمیونیکیشن کے ڈائریکٹر جوسٹ ڈوبوئس کا کہنا ہے ”ہمیں پیداوار کے بارے میں کچھ کرنے کی ضرورت ہے، جب پلاسٹک کے استعمال کی بات آتی ہے تو ہمیں اپنے رویے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، لیکن ہمیں پہلے سے موجود سامان کو بھی نکالنے کی ضرورت ہے“
جوسٹ ڈوبوئس کہتے ہیں ”صفائی صرف ایک عنصر ہے جو پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے کا باعث بنے گی۔ ہم فرش کو صاف کرتے ہیں، لیکن کسی کو نل بند کرنے پر بھی کام کرنا پڑے گا۔“
ماخذ: ڈوئچے ویلے انگلش
ترجمہ و ترتیب: امر گل