جو مسلمانوں کی نسل کشی کی بات کر رہے ہیں وہ خانہ جنگی شروع کرنا چاہتے ہیں، نصیرالدین شاہ

ویب ڈیسک

ممبئی : معروف بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ نے کہا ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کی نسل کشی کی بات کر رہے ہیں، وہ دراصل ملک میں خانہ جنگی شروع کرنا چاہتے ہیں

بالی وڈ اداکار نصیر الدین شاہ نے یہ بات معروف صحافی کرن تھاپر کے ساتھ ‘دی وائر’ کے لیے ایک انٹرویو کے دوران کہی. ان کے انٹرویو کے بعد اس پر سوشل میڈیا پر بھی ردعمل سامنے آ رہا ہے

یاد رہے کہ تین سال قبل بھی نصیرالدین شاہ نے ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا ”یہ زہر پورے ملک میں پھیل چکا ہے اور اس کے جلد قابو میں آنے کے امکانات نظر نہیں آ رہے“

کرن تھاپر کے ساتھ اپنے تازہ انٹرویو میں نصیر الدین شاہ نے حال ہی میں ہندوؤں کے مقدس شہر ہریدوار میں 27 سے 19 دسمبر کے درمیان منعقد ہونے والے دھرم سنسد (مذہبی اجتماع) میں مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے کے بارے میں کی گئی تقاریر پر تفصیل سے بات کی ہے

انٹرویو لینے والے کرن تھاپر کا نصیرالدین شاہ سے مرکزی سوال یہ تھا کہ نریندر مودی کے بھارت میں مسلم ہونا کیسا لگتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں نصیرالدین شاہ نے کہا مسلمانوں کو پسماندہ اور بے کار بنایا جارہا ہے۔ انہیں دوسرے درجے کا شہری بنایا جارہا ہے اور یہ تقریباً ہر شعبے میں ہورہا ہے

دھرم سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق بیانات پر معروف بھارتی اداکار کا کہنا تھا ”اگر انہیں پتا ہے کہ وہ کیا بات کر رہے ہیں، تو میں حیران ہوں۔ وہ ایک خانہ جنگی کی اپیل کر رہے ہیں

نصیرالدین شاہ نے کہا ”ہم میں سے بیس کروڑ لوگ اتنی آسانی سے فنا ہونے والے نہیں ہیں۔ ہم بیس کروڑ لوگ لڑیں گے“

”یہ ہمارے بیس کروڑ لوگوں کے لیے مادر وطن ہے۔ ہم بیس کروڑ لوگ یہیں کے ہیں۔ ہم یہاں پیدا ہوئے ہیں۔ ہمارے خاندان اور کئی نسلیں یہیں رہیں اور اسی مٹی میں مل گئیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ایسی مہم شروع ہوئی تو سخت مزاحمت ہوگی اور لوگوں کا غصہ پھوٹ پڑے گا۔“

نصیر الدین شاہ نے کہا کہ یہ مسلمانوں میں خوف پیدا کرنے کی کوشش ہے، لیکن مسلمان ہار نہیں مانیں گے۔ مسلمانوں کو اس کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ہمیں اپنا گھر بچانا ہے، ہمیں اپنے مادر وطن کو بچانا ہے، ہمیں اپنے خاندان کو بچانا ہے، ہمیں اپنے بچوں کو بچانا ہے۔ میں مذہب کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ مذہب تو بہت آسانی سے خطرے میں پڑ جاتا ہے

نصیر الدین شاہ نے واضح کیا کہ مسلمانوں کو حاشیے پر لانے کی کوششیں اوپر یعنی ’اعلی سطح’ سے کی جارہی ہیں

انہوں نے کہا ‘یہ مسلمانوں کو غیر محفوظ محسوس کرانے کی ایک منظم کوشش ہے۔ یہ اوپر سے کیا جا رہا ہے۔ حکمران جماعت کے لیے علیحدگی پسندی، پالیسی بن چکی ہے۔ میں یہ جاننے کے لیے متجسس تھا کہ جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف تشدد پر اکسایا، ان کا کیا ہوگا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ کچھ نہیں ہوا۔ بہرحال یہ حیران کن نہیں ہے، کیونکہ اس کے ساتھ بھی کچھ نہیں ہوا جس کے بیٹے نے کسانوں کو کچل دیا تھا۔’

نصیر الدین شاہ کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کے رویے پر حیران نہیں ہیں۔ ‘یقینی طور پر یہ پوری طرح حیران کن نہیں ہے۔ یہ مایوس کن ہے لیکن کم و بیش یہ وہی ہے جس کی ہمیں توقع تھی۔ لیکن جس طرح سے چیزیں سامنے آ رہی ہیں وہ ہمارے اندیشوں سے بھی بدتر ہیں۔ ایسی اشتعال انگیزیوں پر ہمارا رہنما خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔’

نصیر الدین شاہ اپنے بیانات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ نصیرالدین شاہ نے اس سے قبل بالی وڈ کی خاموشی پر بھی بات کی تھی اور بعض فلم سازوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی نظریات کو فروغ دے رہے ہیں، جبکہ بالی وڈ کے تینوں خان (عامر، سلمان اور شاہ رخ) کی خاموشی پر کہا تھا کہ وہ اس لیے خاموش ہیں کیونکہ انہیں ہراساں کیے جانے کا خوف ہے

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اس سے قبل نصیر الدین شاہ نے افغانستان میں طالبان کی حکومت میں واپسی پر بھارت کے بعض مسلمان طبقوں کی جانب سے مبینہ طور پر خوشی منائے جانے کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ لوگ خطرناک مثال قائم کر رہے ہیں

دوسری جانب بھارتی ریاست اترکھنڈ کے شہر ہردوار میں 17 سے 19 دسمبر تک جاری رہنے والی ہندوؤں کی مذہبی تقریب میں ہندو انتہا پسند رہنماؤں کی مسلمانوں کی نسل کشی کی ہدایات پر مبنی نفرت انگیز تقاریر پر نئی دہلی سمیت دیگر شہروں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور سوشل میڈیا صارفین بھی حکومت پر نفرت پھیلانے والوں کی سرپرستی کرنے کا الزام لگا رہے ہیں

سوشل میڈیا پر موجود تقاریر کی وڈیوز میں مختلف ہندو رہنماؤں کو مسلمانوں اور انڈیا میں رہنے والی دیگر اقلیتوں کے خلاف گفتگو کرتے اور انہیں قتل کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
اس تقریب کو ’دھرما سنسد‘ کا نام دیا گیا تھا اور اسے ایک متنازع ہندو پنڈت یاتی نارسنگھ آنند نے منعقد کیا تھا

ان نفرت انگیز تقاریر پر سوموار کے روز نئی دہلی میں ایک احتجاج منعقد کیا گیا تھا۔
اس احتجاج کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے کویتا کرشنن نامی صارف نے لکھا کہ ’دہلی ہردوار ہیٹ اسمبلی کے خلاف پہلا احتجاج ہو رہا ہے اور سنگھی دہشت گردوں جو مسلمانوں کو قتل کرنے اور بھارت کو ہندو ملک بنانا چاہتے ہیں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔‘

ہردوار میں ہونے والی تقاریر کے حوالے سے ’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین‘ لے لیڈر اسد الدین اویسی کی بھی تنقیدی وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں

اپنی ایک تقریر میں خطاب کرتے ہوئے اویسی کا کہنا تھا کہ نریندر مودی اس ملک کے وزیراعظم ہیں اور انہوں نے ملک کے ہر شہری کی حفاظت کا حلف لیا ہے

’آپ میرے بھی پردھان منتری (وزیراعظم) ہیں، آپ دیش (ملک) کے پردھان منتری ہیں۔ آپ نے بھارت کے آئین پر حلف لے کر بھارت کے تمام شہریوں کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔‘

انہوں نے بھارتی وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں کیا وہ ان نفرت انگیز تقاریر سے متفق ہیں؟
’اگر نہیں ہیں تو یہ کھلے کیوں گھوم رہے ہیں؟‘

اسی طرح کی تنقید روی نائر کی جانب سے بھی کی گئی جنہوں نے الزام لگایا کہ راشٹریا سویم سیوک سنگگ (آر ایس ایس) اور مودی حکومت انڈیا کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔
’آر ایس ایس مودی حکومت کی مدد سے انڈیا کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہی ہے۔‘

اس حوالے سے ایک احتجاج بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر الٰہ آباد میں بھی ہوا جہاں مظاہرین نے ’دھرم سنسد‘ میں تقاریر کرنے والوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا

دوسری جانب نفرت انگیز تقاریر کرنے پر بھارتی پولیس نے اترکھنڈ میں تین افراد جتندر نرائن تیاگی، اناپرنا ماں اور دھرم داس مہاراج کے خلاف مقدمہ تو کر لیا ہے، لیکن تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے

بھارتی میڈیا کے مطابق اناپرنا نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوؤں کو کتابیں چھوڑ کر مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھالیا چاہیے

جبکہ دھرم داس مہاراج نے کہا تھا کہ ’بھارت میں پانچ سو پاکستان ہیں‘ جہاں ہندو رسم و رواج  نہیں اپنائے جا رہے

انہوں نے بھارت کے سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کو قتل کرنے کے حوالے سے بھی بات کی تھی

نصیرالدین شاہ کے حالیہ انٹرویو پر سوشل میڈیا صارفین کا رد عمل

دوسری جانب سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ نصیر الدین شاہ کے حامی نظر آ رہے ہیں، جبکہ بعض لوگوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے

نصیر الدین شاہ کے حالیہ انٹرویو کے بعد سوشوون چودھری نامی ایک صارف نے لکھا ہے کہ ‘کیا سلمان خان، شاہ رخ خان، عامر خان اور ان جیسے یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہندوتوا دہشت گردی پر ان کی خاموشی بھارت کو خانہ جنگی کی طرف لے جا سکتی ہے؟ اگر نہیں تو انہیں کم از کم نصیر الدین شاہ کو سننا چاہیے کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ وہ بالی وڈ میں قد کاٹھ میں کوئی کم نہیں۔’

ڈاکٹر سندر نامی ایک صارف نے دی وائر کے لنک کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ‘ہم بھارتیوں کو اپنے اقدام پر نظر رکھنی چاہیے۔ بعض غلط قدم ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ کیا ہمارے رہنما ہماری صحیح سمت میں رہنمائی کر رہے ہیں؟’

سرکازم نامی ایک ٹوئٹر صارف نے طنز کرتے ہوئے لکھا: ارے نہیں… خانہ جنگی جیسا فقرہ مسلمان نصیر الدین شاہ کی زبان سے نکلا ہے۔ اب انہیں گرفتار کیا جائے گا اور ہندو اعلیٰ ذات کی اکثریت والی عدالت انہیں ضمانت پر رہا نہیں ہونے دے گی۔’

نمیتا نامی ایک صارف نے لکھا کہ انہوں نے ‘نصیرالدین شاہ کا انٹرویو دیکھا، ان کے غصے کو محسوس کیا کہ جس میں بغیر لڑے ہار نہ ماننے کا جذبہ تھا۔ سنہ 2014 سے قبل ہم انہیں صرف بطور شاندار اداکار/باکمال شخصیت کے طور پر جانتے تھے۔ کہاں سے کہاں آ گئے ہم۔’

اس کے جواب میں ہرمٹ پین نامی ایک صارف نے لکھا کہ ‘یہ درست ہے۔ کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ نصیرالدین شاہ یا انوپم کھیر کا مذہب کیا ہے۔ کہاں سے کہاں آ گئے ہم۔’

اسی طرح ایک صارف نے نصیر الدین شاہ پر الزام لگایا کہ جب کشمیر میں ہندوؤں کو مارا جا رہا تھا، تب تو وہ خاموش تھے۔ واضح رہے کہ انوپم کھیر کشمیر کے ہندو پنڈتوں پر اپنے خیالات کا برملا اظہار کرتے رہے ہیں

اسی طرح ڈاکٹر شری رام اپا نامی ایک صارف نے اس خبر کے ساتھ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس سے اپیل کرتے ہوئے لکھا: ‘علاج سے بہتر قبل از وقت تحفظ ہے۔ صرف سپریم کورٹ ہی از خود نوٹس کے ذریعے خانہ جنگی کو روک سکتی ہے۔ مودی کے حامی/ آر ایس ایس اور دائیں بازو والے ملک میں فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں، عوام خطرے میں ہے۔’

رواں ہفتے کی ابتدا میں بھارتی سپریم کورٹ کے کئی وکلا نے چیف جسٹس آف انڈیا کو خط لکھ کر ہریدوار میں منعقدہ دھرم سنسد کا از خود نوٹس لینے کی اپیل کی تھی۔ وکلا نے ہریدوار کے علاوہ دلی میں منعقدہ پروگرام کے خلاف بھی از خود نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔ وکلا نے کہا ہے کہ ان دونوں پروگراموں کی وڈیوز پبلک ہیں اور ان میں نفرت پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔

اس خط پر کل 76 افراد نے دستخط کیے ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ یہ صرف تقریر کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ ایک برادری کے لوگوں کو مارنے کی کھلی اپیل کی گئی ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ اس سے نہ صرف ملک کی یکجہتی اور سالمیت کو خطرہ ہے، بلکہ لاکھوں مسلمانوں کی جانیں بھی خطرے میں ہیں

اس خط میں وکلا نے کہا ہے کہ نفرت پھیلانے والوں کے خلاف پہلے بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی، اس لیے اب فوری عدالتی مداخلت کی ضرورت ہے۔ اس خط پر دستخط کرنے والوں میں دشینت دوے، پرشانت بھوشن، سلمان خورشید، راجو رام چندرن، پی وی سریندرناتھ، شالنی گیرا اور نین تارا رائے شامل ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close