بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی جنوبی ایشیا میں لاکھوں افراد کی زندگی کو متاثر کر رہی ہے۔ اس کی وجہ سے اسکولوں کو بند کرنا پڑ رہا ہے، کھیلوں کی تقاریب اور سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں اور صحت کے مسائل سے بچاؤ کے لیے حکومتیں شہریوں کو زیادہ سے زیادہ گھروں تک محدود رہنے کی تاکید کر رہی ہیں
متعدد جائزوں کے مطابق اس وقت، دنیا کے فضائی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثرہ چار ممالک جنوبی ایشیا میں واقع ہیں۔ ان ہی میں پاکستان بھی شامل ہے
فضائی آلودگی کی وجوہات کے حوالے سے ماحولیات سے وابستہ وکیل احمد رافع عالم کہتے ہیں کہ فضائی آلودگی کی وجوہات کا تعین کرنے کے لیے ایک ایسے جائزے کی ضرورت ہے، جس سے پتہ چلے کہ آلودگی کہاں سے آ رہی ہے۔ میری معلومات کے مطابق پورے پاکستان کے حوالے سے اب تک ایسی کوئی اسٹڈی نہیں کی گئی‘‘
احمد رافع نے کہا ”پنجاب کے حوالے سے ایسی اسٹڈیز ہوئی ہیں، جن کے مطابق فضائی آلودگی کی بڑی وجوہات میں گاڑیاں، جن میں غیر میعاری پیٹرول استعمال ہوتا ہے، توانائی کی پیداوار کے لیے تیل اور کوئلے جیسے ایندھن کا استعمال، جو قابلِ تجدید نہیں اور صنعت کا شعبہ شامل ہیں۔“
رافع عالم نے ان مطالعات کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا ”پنجاب میں تقریباً 45 فیصد فضائی آلودگی کا ذریعہ ٹرانسپورٹ ہے، 20 فیصد آلودگی کی وجہ توانائی کی پیداوار کے لیے استعمال ہونے والا ایندھن ہے، تقریباً یہی تناسب صنعت کے باعث پیدا ہونے والی آلودگی کا ہے اور تقریباً 10 فیصد آلودگی کی وجہ فصلیں جلانا ہے“ ان جائزوں کے تناظر میں وہ پاکستان بھر میں انہی عوامل کو فضائی آلودگی کی بڑی وجوہات سمجھتے ہیں
ماحولیاتی ماہر فاطمہ یامین بھی ٹرانسپورٹ اور صنعت کو پاکستان میں آلودگی کی بڑی وجوہات قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے علاوہ زراعت اور کھانا پکانے کے لیے استعمال ہونے والاایندھن بھی آلودگی کا باعث بنتا ہے، لیکن ٹرانسپورٹ اور صنعت کی حد تک نہیں
فصلیں یا فصلوں کی باقیات/ بھوسا جلانے کا عمل فضائی آلودگی کے ان اسباب میں شامل ہے، جو بالخصوص صرف جنوبی ایشیا تک محدود ہے اور سموگ کا باعث بنتا ہے۔ اس حوالے سے احمد رافع کہتے ہیں کہ پاکستان میں فصلیں تو گرمیوں میں بھی جلائی جاتی ہیں لیکن سردیوں میں اس کے باعث پیدا ہونے والی آلودگی زیادہ نمایاں طور پر نظر آتی ہے
انہوں نے بتایا ”فصل جلانا دراصل نئی فصل کے لیے زمین تیار کرنے کا ایک طریقہ ہے جو دہائیوں سے اس خطے کے کسان عمل میں لا رہے ہیں۔ ان کے بقول کسانوں کو زیادہ ذرائع میسر نہیں ہوتے اور یہ طریقہ ان کے لیے سستا پڑتا ہے“
احمد رافع ہیں ”گرمیوں میں گرم ہوا ماحول میں اوپر کی طرف اٹھتی ہے، چناچہ آلودگی بھی سطح زمین سے دور ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ گرمیوں میں بارش بھی فضائی آلودگی کا اثر زائل کرتی ہے، لیکن سردیوں میں ایسا نہیں ہوتا اور آلودگی زمین کے نسبتاً قریب رہتی ہے، اسی لیے ہمیں زیادہ نظر آتی ہے۔‘‘
سموگ کا یہ مسئلہ پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت میں بھی سردیوں میں شدت اختیار کر لیتا ہے۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں اس سال 38 فیصد آلودگی قریب واقع پنجاب اور ہریانہ کی ریاستوں میں چاول کے بھوسے کو جلانے کے باعث پیدا ہوئی
احمد رافع کہتے ہیں ”فضائی آلودگی میں کمی لانے کے لیے جو اقدامات ضروری ہیں ان میں سموگ کا باعث بننے والے فصل جلانے کے عمل پر پابندی شامل ہے۔ اس عمل کا ایک متبادل ہیپی سیڈر مشینوں کا استعمال ہے، لیکن یہ مہنگی ہوتی ہیں۔ حکومت کو ان پر سبسڈی دے کر ان کو کسانوں کے لیے قابلِ استعمال بنانا چاہیے“
سموگ کے حوالے سے فاطمہ یامین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے صوبے پنجاب میں ٹرانسپورٹ سیکٹر 83 فیصد سموگ کا باعث بنتا ہے اور اس امر میں عوام کی پبلک ٹرانسپورٹ تک رسائی بڑھانے اور ایندھن کے استعمال میں کمی کی پالیسی پر کام کرنے کی ضرورت ہے
فضائی آلودگی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کئی جنوبی ایشیائی ممالک نے ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے منصوبوں پر کام شروع کیا ہے، فضا میں آلودگی کا تناسب جانچنے کے لیے مانیٹرز نصب کیے ہیں اور ایسے ایندھن کا استعمال شروع کیا ہے، جس سے ضر رساں گیسوں کا اخراج کم ہوتا ہے۔ لیکن یہ اقدامات مسئلے کی سنگینی کی نسبت بہت کم ہیں، اس لیے ان کے اب تک کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے
ماہرین کا ماننا ہے کہ اس ناکامی کی ایک وجہ خطے میں ممالک کی درمیان آلودگی پر قابو پانے کی کوششوں میں ہم آہنگی کی کمی ہے۔ کئی مطالعاتی جائزوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ دھول کے ذرات محض اس ملک تک ہی محدود نہیں رہتے، جہاں ان کے ذرائع موجود ہوں، بلکہ وہ سرحدیں پار کر کہ سینکڑوں کلو میٹر سفر کرتے ہیں اور دیگر ممالک میں بھی آلودگی کا باعث بنتے ہیں مثال کے طور پر بنگلا دیش، جہاں 30 فیصد آلودگی کا باعث پڑوسی ملک بھارت میں موجود عناصر ہیں
اسی طرح، فاطمہ یامین کے مطابق، پاکستان میں آلودگی کی ایک بڑی وجہ پروسی ممالک مثلا بھارت اور چین کی ’ریزیڈوئل پولوشن‘ ہے
اس حوالے سے فاطمہ یامین کہتی ہیں ”اگر پاکستان ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی بھی کر دے اور صنعت اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں اصلاحات بھی متعارف کر دے، تب بھی پڑوی ممالک کی ’ریزیڈوئل پولوشن‘ پاکستان کے کئی علاقوں میں سموگ کی طرح کے اثرات کا باعث بنتی رہے گی
انہوں نے مزید کہا ”خطے میں بھارت، چین اور روس جیسے ممالک کو فوسل فیولز کے استعمال میں کمی کرنی ہوگی۔ ایشیا میں ان ممالک میں فوسل فیولز کے استعمال سے ضرر رساں گیسوں کا اخراج زیادہ ہوتا ہے اور ایسے میں پاکستان یا کوئی اور ملک اکیلے فضائی آلودگی کے مسئلے سے نہیں نمٹ سکتا“
فاطمہ یامین کہتی ہیں ”فوسل فیولز کے استعمال سے خارج ہونے والی ضررساں گیسیں اور ان سے پیدا ہونے الی آلودگی سرحدیں نہیں دیکھتی اور اب وقت آ گیا ہے کہ آلودگی میں کمی کے لیے خطے کی سطح پر کوشش کی جائے“
مسئلے کا حل کیا ہے؟
ماہرین کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک خطے میں فضائی آلودگی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے اس حوالے سے اپنی کوششوں کو ہم آہنگ بنائیں اور آلودگی کی مانیٹرنگ اور اس میں کمی کے لیے بنائی گئی پالیسیوں پر آپس میں تعاون کو بڑھائیں۔ ساتھ ہی ان وسیع کوششوں کو جہاں ضرورت ہو، وہاں مقامی حالات کے موافق بنانے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے
اس کے علاوہ اس حوالے سے اب تک نظر انداز کیے جانے والے شعبے، مثلاً زراعت اور ویسٹ مینیجمنٹ، پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا الیکٹرک بسیں پاکستان میں فضائی آلودگی کم کر سکتی ہیں؟ فاطمہ یامین کا ماننا ہے کہ بالخصوص پاکستان میں فضائی آلودگی میں کمی کے لیے وہاں کے ٹرانسپورٹ اور صنعت کے شعبوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ وہ کہتی ہیں ”پاکستان میں شہریوں کی پبلک ٹرانسپورٹ تک رسائی کو بڑھانا ہوگا اور حکومت اور امرا کی جانب سے گاڑیوں کی درآمد، خرید اور استعمال پر پابندیاں عائد کرنی ہوں گی۔“