حال ہی میں میڈیا میں یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ بلوچ مسلح گروپ، بلوچ لبریشن آرمی (BLA)، بلوچستان لبریشن فرنٹ (BLF)، بلوچ ریپبلکن آرمی، بلوچ ریپبلکن آرمی کے بلوچ راجی اجوئی سنگر (BRAS) کامیاب اتحاد کے بعد ممکنہ انضمام کے قریب آچکے ہیں۔
بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کے درمیان ممکنہ انضمام کی یہ باتیں ایک سال سے زائد عرصے سے جاری ہیں۔ تاہم، حال ہی میں اس میں پیشرفت دیکھی گئی ہے۔ اگرچہ ایک ممکنہ انضمام میں ابھی وقت لگے گا اور انضمام کو پختہ ہونے کے لیے بھی کچھ چیلنچز درپیش ہیں۔
براس کے اتحاد کی طرح انضمام بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ اور یورپ میں بیٹھے کچھ سیاسی طور پر متحرک رہنماؤں کا خیال سمجھا جاتا ہے، بلوچ علیحدگی پسند رہنما گلزار امام کی گرفتاری کے بعد، دو وجوہات کی بنا پر ممکنہ انضمام کی باتوں نے سر اٹھایا ہے۔
سب سے پہلے، گلزار کی گرفتاری بلوچ علیحدگی پسندی کے لیے خاص طور پر مکران کے ساحلی علاقے میں ایک بڑا دھچکا تھا۔ اللہ نذر جیسے رہنماؤں نے انضمام کو ایک ممکنہ آپشن کے طور پر دیکھا تاکہ رہنماؤں کو گرفتاریوں اور ہلاکتوں سے محفوظ بنائی جاسکے۔
دوسرا، بلوچ گروپوں کی اندرونی اختلافات جو سوشل میڈیا پر بھی نظر آنے لگی ہیں اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان کے اندر سے کچھ عناصر نے گلزار کی سفری تفصیلات مبینہ طور پر لیک کیں جن کے نتیجے میں وہ ترکی سے گرفتار ہوا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گلزار ایران میں مقیم تھا اور اسے ترکی سے گرفتار کیا گیا تھا اور صرف چند ایک کو اس کی سفری تفصیلات کا علم تھی۔ اس کی گرفتاری نے بلوچ مسلح تنظیموں میں اعتماد کے سنگین مسائل پیدا کیے کیوں کہ بلوچ نیشنلسٹ آرمی (BNA)، جس کی بنیاد گلزار نے رکھی تھی دیگر بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں پر انگلیاں اٹھانے لگی تھی۔
خلاصہ یہ کہ باغی تحریکوں کو مستقبل میں اہم رہنماؤں کی گرفتاریوں سے محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ عدم اعتماد کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ان رہنماؤں کے درمیان گذشتہ کچھ سال سے انضمام کی باتیں چلی آ رہی تھیں۔
اگرچہ ہم خیال باغی اور عسکریت پسند گروپوں کے درمیان اتحاد اور انضمام عام بات ہے لیکن اس طرح کے اہداف اور مخالفت کے باوجود، ان کی کارروائیوں کی خفیہ اور مبہم نوعیت کے پیش نظر ایسی تنظیموں کے لیے ایسے ہدف تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اتحاد انضمام سے مختلف تصور کی جاتی ہے۔ اتحادوں میں، جیسے کہ BRAS، تمام گروپ اپنی آپریشنل کارروائیاں، کمانڈ اور کنٹرول کے ڈھانچے، مالیات اور فیصلہ سازی کی خود مختاری کو برقرار رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔
اتحاد میں مسائل کو اچھی طرح سے سیٹ کیا جاتا ہیں جس کے نتیجے میں تعاون کی کم یا اعلیٰ درجے کی شراکت داریاں وجود میں آتی ہیں۔ بعض اوقات، نظریاتی اور تزویراتی معاملات پر مشتمل تعاون کی اعلیٰ شکلیں انضمام میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ دوسری طرف، انضمام کے نتیجے میں تمام گروہوں کو ایک تنظیم میں شامل کیا جاتا ہے۔
عام طور پر، چھوٹے گروپ بڑے گروپوں میں ضم ہوجاتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر، چھوٹے گروپ اپنے کمانڈ اینڈ کنٹرول ڈھانچے، لوگو، جھنڈے، مالیات، بیانیے اور تنظیمی ناموں کو تحلیل کر دیتے ہیں اور نئی تنظیم کو اپناتے ہیں۔
اس طرح کے انضمام کی چار وجوہات ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے، انضمام میں داخل ہونے والے ہم خیال گروپوں کو ایک جیسے سٹریٹجک اہداف چاہئیں، جو کہ اس معاملے میں ’نسلی اور سماجی و اقتصادی شکایات پر مبنی علیحدہ بلوچ وطن‘ ہے۔
دوسرا، انہیں ایک مشترکہ دشمن کے خلاف عسکری جدوجہد ہوتی ہے جو کہ اس معاملے میں ریاست ہے۔ تیسرا، ان کے نظریاتی اور سیاسی اہداف ایک جیسے ہونے چاہئیں، یعنی نسلی علیحدگی پسندی۔ آخر میں، انضمام میں داخل ہونے والے تمام گروپوں کو جغرافیائی طور پر ہم آہنگ آپریشنل گراؤنڈ میں کام کرنا چاہیے۔
بلوچ علیحدگی پسند گروپ اس وقت ایران اور بلوچستان سے اور کچھ حد تک افغانستان سے بھی کام کر رہے ہیں۔ بہرحال، ان کی پناہ گاہیں جغرافیائی طور پر ہم آہنگ ہیں۔ درج ذیل وجوہات کو دیکھتے ہوئے، یہ بالکل واضح ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند باغی انضمام کے تمام تقاضے پورے ہیں۔
تاہم، کچھ مسائل موجود ہیں۔ سب سے اہم چیلنج جس نے انضمام کی پیش رفت کو سست کر دیا ہے وہ یہ ہے کہ نئے گروپ کا لیڈر کون ہو گا۔ اللہ نذر جو اس اقدام کے دماغی معمار بھی ہیں اور سب سے زیادہ کرشماتی بھی ہیں لیڈرشپ کے مضبوط دعویدار سمجھے جاتے ہیں۔
ممکنہ انضمام سے پہلے ایک اور متنازع نکتہ مجید بریگیڈ کا مستقبل ہے، جو بی ایل اے-جیند دھڑے کا خودکش دستہ ہے۔ خودکش حملوں کو قبول کرنے اور کامیابی سے انجام دینے کے باوجود، کچھ بلوچ علیحدگی پسند گروپس، جیسے کہ بی ایل اے-آزاد اور بلوچ ریپبلکن آرمی اس حوالے سے سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔ کسی بھی ممکنہ انضمام سے پہلے مجید بریگیڈ کے مستقبل کے سوال کو حل کرنا بھی اتنا ہی اہم ہوگا۔
انضمام کے پیچھے کا حتمی عنصر یورپ میں مقیم علیحدگی پسند قیادت کے ساتھ بلوچستان میں مقیم باغی گروپوں کے درمیان اختلافات پر منصر ہیں۔ انہوں نے اعتماد کے کچھ مسائل اور دیگر اختلافات پر قابو پالیا ہے، لیکن اس اعتماد سازی کے حوالے سے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کے ممکنہ انضمام سے ان کی بھرتی کے مقاصد اور واضح سٹریٹجک پیغام رسانی میں بہتری آئی گی۔ اسی طرح، اس سے باغی تحریک کو زیادہ مہلک اور لمبی عمر حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی جبکہ قوم پرستی کے جذبات کو بھی زیادہ تقویت ملے گی جس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ یہ گروہ اپنے ذاتی تنازعات اور چھوٹے چھوٹے اختلافات کو ختم کرسکتے ہیں۔
بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کا انضمام اگر عمل میں آتا ہے تو بلوچستان کی داخلی سلامتی کے حوالے سے پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے لیے امن وامان کے حوالے سے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ ایک طرف یہ بھرتی اور فنڈنگ کی ایک نئی لہر کو ہوا دے گا اور دوسری طرف عسکریت پسندوں کے حملوں میں شدت پیدا کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے تنظیمی اور آپریشنل وسائل کو یکجا کرکے بلوچ مزاحمت کار اپنے حملوں کا جغرافیائی دائرہ بھی بڑھا سکتے ہیں۔
ان چیلنجز پر قابو پانے کے لیے پاکستانی ریاست کو بلوچستان میں اپنے منفی سیاسی نقطہ نظر پر نظرثانی کرنا ہوگی، اس کی جگہ عوام کی حقیقی شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے ہمدردانہ پالیسی اختیار کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ، ریاست کو لاپتہ افراد اور انسداد بغاوت کے طریقہ کار پر بھی نظر ثانی کرنی ہو گی۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
نوٹ: کالم نگار سنگاپور میں ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز میں ریسرچ فیلو ہیں۔ سنگت میگ کا ان کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)