’’میری زمین پر مت آنا۔۔‘‘ یہ الفاظ ہیں چھپن سالہ اماں ہاجرہ بلوچ کے، جنہوں نے یہ کہتے ہوئے بحریہ ٹاؤن اور اس کے کارندے کا کردار ادا کرنے والے پولیس افسر راؤ انوار کو للکار کر روکا تھا۔ بحریہ ٹاؤن حاجی علی محمد گبول گاؤں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنا چاہتا تھا لیکن بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور ان کے معاون ریاستی پولیس افسران یہ نہیں سمجھ پائے کہ وہ جس زمین پر کھڑے ہیں، وہ زمین مارئی ملیر کی ہے
جی ہاں! مارئی کا ملیر۔۔ وہ مارئی، جس نے اپنے وقت کے بادشاہ عمر کے محل کو ہلا کر رکھ دیا۔ آج مارئی نے اپنی سرزمین کی حفاظت کرنے کے لیے اماں ہاجرہ بلوچ کی صورت میں پھر سے اپنا روپ بدل لیا، یقیناً آج کے دور میں عمر جیسا کوئی بادشاہ نہیں جو مارئی کے انکار کا احترام کرے اور اپنی غلطی پر نادم ہونے کی اخلاقی جرأت رکھتا ہو
اس کے برعکس وقت کے حکمران، چاہے جس شکل میں بھی ہوں، عوام کے پیروں تلے سے زمین چھین رہے ہیں۔ تاریخ کے ہر موڑ پر ہمارے اعتبار کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے، جب کہ اب حالات اپنا بھیانک چہرہ دکھا رہے ہیں، ان میں سندھ دھرتی ماں تباہ ہو رہی ہے۔
اس وقت کون سی عوامی طاقت ایسی ہے، جو اماں ہاجرہ اور ملیر کے عوام سے کہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں؟ جس وقت بحریہ ٹاؤن کے لوگ جدید ہتھیاروں اور ریاستی مشنری سے گاؤں پر حملہ کر رہے تھے، اس وقت امان ہاجرہ اور اماں حوا بلوچ دیگر بلوچ خواتین کے ساتھ گاؤں میں اکیلی تھیں۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کے کچے گھروں پر حملہ کیا جائے گا۔۔
ظلم کرنے والوں کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ اخلاقیات کی ہر لکیر کو روندتے ہیں، اگر انہیں اخلاقیات کا علم ہوتا تو شاید سندھیوں پر اتنا ظلم نہ ہوتا! امان ہاجرہ، جنہوں نے مجھے بتایا کہ اس وقت ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا، انہوں نے بحریہ ٹاؤن اور راؤ انوار کی پولیس کو پتھروں سے روکا۔ ”ان کے پاس جدید ہتھیار تھے اور ہمارے پاس صرف پتھر تھے، بس۔۔! مجھے اپنی زمین بچانی تھی۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ”ملک ریاض تو کیا، جو بھی میری زمین پر قبضہ کرے گا، میں اس سے لڑوں گی۔“
ابھی تک اماں ہاجرہ نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، وہ اپنی دھرتی کو بچانے کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قدرت کی دیوی ہر اس شخص کا ساتھ دیتی ہے، جو اپنے حق کے لیے لڑتا ہے اور ملیر کے لوگ، جو دھرتی کو بچانے کے لیے لڑ رہے ہیں، ان میں بھی اتنی ہی طاقت ہے۔
یہ جو بلڈوزر ملیر کی سرزمین پر چڑھ دوڑے ہیں، یہ ایک دن پورے سندھ کو روند دیں گے۔ اس وقت نہ صرف ملیر بلکہ جامشورو بھی بحریہ کے زیرِ قبضہ آ چکا ہے۔ سندھ انڈیجینس الائنس اور ملیر کے عوام نے یہ جو لڑائی بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے اور دیگر قابضین کے خلاف شروع کی ہے، یہ جنگ کل کی نہیں ہے، یہ جدوجہد بہت پرانی ہے۔ ملیر کے لوگ کئی دہائیوں سے کہہ رہے ہیں کہ ان کی زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔
ملیر سے تباہی کا آغاز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پورا سندھ اس کی لپیٹ میں آ جائے گا لیکن کیا کیجیے کہ سندھ کے سیاستدانوں کو سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کیا جائے۔۔ اگر ان کو اس بات کا ذرا بھی ادراک ہوتا، تو ان کی جانب سے جدوجہد اور مزاحمت گراؤنڈ پر نظر آ رہی ہوتی۔ کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ زمینوں پر قبضہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور سندھی ہر چیز پر جذباتی ہو جاتے ہیں، لیکن پاکستان بننے کے بعد سے سندھ کو جو دکھ اور ناانصافی ملی ہے، وہ صرف سندھی ہی محسوس کر سکتے ہیں۔
اس وقت ملیر کے عوام بالخصوص سندھ انڈیجینس الائنس بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے یا دیگر قبضہ گروپوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ جس میں حفیظ بلوچ، سلمان بلوچ، اختر رسول اور دیگر ساتھی بحریہ ٹاؤن کے بارے میں اپنی آواز بلند کر رہے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ ان کی آواز پر لبیک کہا جائے گا، لیکن کوئی بھی ان کے ساتھ اس طرح ہم آواز نہیں ہوا، جس طرح ہونا چاہیے تھا۔
حفیظ بلوچ اور سلمان بلوچ کہتے ہیں کہ یہاں بات صرف آپ کی زمین کے ٹکڑے کی نہیں، یہاں آپ کے وجود کی بات ہے، یہاں آپ کی تاریخی شناخت کی بات ہے، یہاں آپ کی سندھو تہذیب کی بات ہے۔ ملیر کے پہاڑ، دریا، تاریخی مقامات سب آپ کے وجود سے جڑے ہوئے ہیں، اگر انہیں بلڈوز کر دیا جائے اور جو کچھ ہو رہا ہے اس کا مطلب آپ کا وجود ختم ہو رہا ہے، سندھیوں کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے لیکن سندھ کی اکثریت اس مسئلے پر سنجیدگی سے لڑنے کے لیے کب تیار ہوگی؟
حفیظ کی آواز میں درد تھا، جب وہ کہہ رہے تھے کہ 2013 سے ہماری آوازیں سندھ کے عوام کو مسلسل پکار رہی ہیں کہ ملیر میں سیاست کو مضبوط کریں، بحریہ ٹاؤن جیسے منصوبوں کو ختم کرنے کے لیے آگے آئیں، لیکن افسوس کہ ابھی تک کوئی بھرپور جواب نہیں ملا۔
ملک ریاض ہو یا ڈی ایچ اے، ان کی حمایت کرنے والی ریاست ہے اور سندھ کی بات کرنے والی پیپلز پارٹی، جس طرح بحریہ ٹاؤن کی حمایت کر رہی ہے، اس سے ظاہر ہے کہ انہیں سندھ کے وجود، سندھ کی تہذیب اور تاریخی مقامات کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں ہے۔ اگر پیپلز پارٹی ملک ریاض کی مدد نہ کرتی تو ملک ریاض میں آگے بڑھنے کا حوصلہ نہ ہوتا۔ اس وقت پیپلز پارٹی عوامی جماعت نہیں بلکہ ملک ریاض جیسوں کی جماعت ہے، جہاں عوام کے خلاف فیصلے کیے جاتے ہیں اور لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا دیے جاتے ہیں، یہ پارٹی عوامی جماعت کیسے ہو سکتی ہے۔
لیکن وہیں قوم پرستوں کا رویہ بھی لائقِ تحسین نہیں۔ حفیظ بلوچ کا کہنا ہے کہ آپ کو بحریہ ٹاؤن کے خلاف جذباتی بیانات ملیں گے لیکن میں آپ کو بتاؤں کہ یہاں ایسے قوم پرست رہنما بھی ہیں، جو ایک اجلاس میں کہہ رہے تھے کہ بحریہ ٹاؤن سندھیوں کے لیے بہترین ہے! ایسے میں کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔ حفیظ نے مزید کہا کہ جس تحریک کو مضبوط ہونا چاہیے تھا، اسے محض بیانات تک محدود رکھ کر کمزور کر دیا گیا
اب بحریہ ٹاؤن سندھ کے قدیم ورثے کھیرتھر کو کاٹ کر تباہ کر رہا ہے۔ حفیظ نے پوچھا، ”بتائیں اب تک کون آگے آیا ہے، کس نے کہا ہے کہ ہم کھیرتھر کا سینہ چھلنی کرنے والے بحریہ ٹاؤن کے بلڈوزروں کو اٹھا کر باہر پھینک دیں گے، لیکن کسی کو کھیرتھر میں کسی بھی پہاڑ کو قتل ہونے نہیں دیں گے!“
بحریہ ٹاؤن ملیر کے لوگوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کسی دیہاتی کی بکری غلطی سے سڑک کراس کر کے بحریہ ٹاؤن میں داخل ہو جائے تو اس کا جرمانہ 20 ہزار سے 10 ہزار لیا جاتا ہے۔۔ یا پانی کا مسئلہ دیکھ لیں، جہاں بحریہ ٹاؤن کو پانی آسانی سے مل رہا ہے لیکن گاؤں والوں کو پانی میسر نہیں ہے۔ ان کے گاؤں والوں کو چار دیواری کے اندر ایسے بند کر دیا گیا ہے، جیسے کسی نے جانوروں کو باڑے میں قید کر دیا ہو، وہاں انہیں کیا سہولیات میسر ہوں گی۔ یہ سب کچھ آپ کے دارالحکومت کراچی میں ہو رہا ہے۔ ہم تمام پریشانیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہاں پوچھتے ہیں کہ قدیم کھیرتھر کی حفاظت کون کرے گا، جسے بحریہ ٹاؤن تباہ کر رہا ہے۔۔ بحریہ ٹاؤن جامشورو پہنچ گیا ہے، تصور کریں کہ اگر بحریہ ٹاؤن گورکھ ہل تک تباہی مچا دے تو کیا ہوگا؟
سندھ انڈیجینس رائٹس الائنس کھیرتھر کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگرچہ سندھ وائلڈ لائف حکام کا کہنا تھا کہ کھیرتھر نیشنل پارک کے اندر بحریہ ٹاؤن کے لوگ کام نہیں کر رہے، تاہم ماہرین کے مطابق اگر کھیرتھر کے اردگرد کوئی سرگرمی ہوتی ہے تو یہ بھی غیر قانونی ہوگی اور کھیرتھر کو نقصان پہنچے گا، تاہم حقیقت یہ ہے کہ بحریہ ٹاؤن کھیرتھر کے اندر کام کر رہا تھا، جو وقت کے حکمرانوں کو دکھائی نہیں دیتا یا یوں کہہ لیں کہ وہ بحریہ ٹاؤن کی عینک پہن کر بیٹھے ہیں، اس لیے وہ کھیرتھر کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔
سندھ انڈیجینس الائنس کے ساتھی اختر رسول نے اپنی کاوشوں سے باقاعدہ نقشہ تیار کر کے اس بات کو پایہِ ثبوت تک پہنچا دیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کھیرتھر نیشنل پارک کے علاقے میں کام کر رہا ہے۔ انہوں نے یہ نقشے دن رات اپنی مدد آپ کے تحت تیار کر کے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن تاریخی مقامات کو روند رہا ہے۔
سندھ انڈیجینس رائٹس الائنس نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر رکھی ہے اور اب سروے بھی ہو رہا ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے اب تک کتنی اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے لیکن اس کے باوجود طاقتور فریقین بشمول ریٹائرڈ فوجی افسران اور علاقے کے بااثر افراد جو بحریہ ٹاؤن سے ملے ہوئے ہیں، جاری سروے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر کھیرتھر کا حقِ ملکیت ادا نہ کیا گیا اور اس کی حفاظت کے فرض سے پہلو تہی کی گئی تو اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ سندھ کے تاریخی مقامات سے لے کر ہر جگہ تباہ ہو جائے گی۔
حفیظ بلوچ نے یاد دلایا کہ ملیر میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کا ایک تاریخی مقام (تکیا) تھا، جو ہمارے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا، اسے گرا کر اس کی جگہ پر بحریہ ٹاؤن کا واش روم بنایا گیا اور پورے سندھ کو یہ پیغام دیا کہ ہمارے نزدیک تمہارے تاریخی ورثے کی اہمیت یہ ہے! اس لیے سندھ کو آگے آنا ہوگا، زمین بچانا اپنا وجود بچانے کے مترادف ہے۔
بشکریہ: دی رائز نیوز اور مصنفہ۔