پاکستان میں عام انتخابات کے اعلان کے بعد تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر چکی ہیں، لیکن دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ اگر کسی شہر میں دفع 144 نافذ کروانی ہو تو اس کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے ورکرز کنونشن کا اعلان ہی کافی ہے
لیکن یہ سب کچھ غالباً کافی نہ تھا۔۔ کہ اچانک الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے حکم دیا کہ بیس دن کے اندر اندر انٹرا پارٹی الیکشن کروانے پڑیں گے اور ساتھ ہی خبردار کیا تھا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت جماعت سے بلے کا نشان واپس لے لیا جائے گا
سیاسی حلقوں نے اس حکم کو ایک ایسی کوشش قرار دیا ، جس میں بیٹنگ کے لیے الیکشن کی پچ کی طرف جانے والی پی ٹی آئی کے ہاتھ سے بَلّا ہی چھین لیا جائے۔۔ گارڈز، ہیلمٹ، گلووز اور پیڈز سے اسے پہلے ہی محروم کر دیا گیا ہے
ایسے میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے انٹرا پارٹی الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے وکیل بیرسٹر گوہر علی خان کو پی ٹی آئی کے نگران چیئرمین کے لیے نامزد کرنے کا فیصلہ کیا ہے
واضح رہے کہ گذشتہ چند روز سے تحریک انصاف کے چیئرمین کے عہدے سے متعلق ابہام موجود تھا کہ آیا وہ عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں یا نہیں اور اس حوالے سے گزشتہ روز پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر کی جانب سے کی گئی ایک پریس کانفرنس میں وضاحت کر دی گئی
انھوں نے اس بارے میں تفصیل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی عمران خان سے گذشتہ روز جیل میں ملاقات ہوئی، جہاں انہوں نے قانونی مشاورت کرتے ہوئے یہ سوال پوچھے کہ کیا وہ انٹراپارٹی الیکشن قانونی طور پر لڑ سکتے ہیں؟ اور اگر وہ اس میں حصہ لیں گے تو الیکشن کمیشن اس الیکشن کو کالعدم قرار دے گا یا نہیں؟
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا ”اس بارے میں ہم عمران خان کے کیسز کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ عمران خان الیکشن میں حصہ تو لے سکتے ہیں اور لیکن اس سے الیکشن کو الیکشن کالعدم قرار دینے کا موقع مل سکتا ہے، جو وہ نہیں چاہتے تھے“
اس لیے انھوں نے بیرسٹر گوہر علی خان کو نگران چیئرمین پی ٹی آئی نامزد کرنے کا فیصلہ کیا ہے
بیرسٹر گوہر نے اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمران خان کا شکریہ ادا کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ عمران خان کے نگران کے طور پر کام کرتے رہیں گے جبکہ پارٹی کے اصل چیئرمین عمران خان ہی ہیں
ان کا مزید کہنا تھا ”میرے پاس عمران خان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں لیکن میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک رہوں گا، جب تک عمران خان واپس نہیں آئیں گے۔ پی ٹی آئی کا نظریہ، جدوجہد وہی رہے گی“
بیرسٹر گوہر علی خان ہیں کون؟
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی چیئرمین شپ کے لیے عمران خان کے نامزد امیدوار بیرسٹر گوہر علی خان سپریم کورٹ کے وکیل ہیں
بیرسٹر گوہر علی خان کا تعلق خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر سے ہے اور وہ تحریک انصاف سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ رہے ہیں۔ سنہ 2008 کے عام انتخابات میں انہوں نے پی پی کی جانب سے انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا اور بہت کم ووٹوں سے ہار گئے
اس کے بعد وہ طویل عرصہ سیاسی میدان سے دور رہے اور سیاسی جماعتوں کے مقدمات میں وکیل کے طور پر عدالتوں میں پیش ہوتے رہے
بیرسٹر گوہر نے برطانیہ کی والورہیپمٹن یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور واشنگٹن سول آف لا سے ایل ایل ایم کیا
بیرسٹر گوہر کئی عرصے تک اعتراز احسن اینڈ ایسوسی ایٹس کے ساتھ وابستہ رہے اور اعتزاز احسن کی براہ راست نگرانی میں وکالت کرتے رہے
اعتزاز احسن کے ساتھ بیرسٹر گوہر سنہ 2007 میں وکلا تحریک میں بھی پیش پیش تھے۔ افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے سلسلے میں بھی مقدمہ لڑنے میں وہ اعتزاز احسن کے معاون رہے۔ تاہم وہ وکلا سیاست میں زیادہ فعال نہیں رہے
بیرسٹر گوہر خان گذشتہ ایک سال سے عمران خان کی قانونی ٹیم کے اہم رکن ہیں، جن کے ذمے تمام قانونی امور کو سنبھالنا ہے اور وہ پارٹی کے قانونی امور پر فوکل پرسن بھی ہیں
ابتدائی طور پر بیرسٹر گوہر تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈگ کیس اور عمران خان کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کے مقدمات کی پیروی کرتے تھے مگر پھر جب تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہوئی تو ایسے میں جہاں ان کے چیلنجز میں اضافہ ہوا، وہیں پارٹی میں ان کی اہمیت بھی کئی گنا بڑھ گئی
بیرسٹر گوہر اپنے آپ کو ایک سیاسی کارکن سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”ایک سیاسی کارکن کسی نہ کسی پارٹی کے ساتھ تعلق ضرور رکھتا ہے“
بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ وہ اس سے قبل میں پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ بھی رہ چکے ہیں مگر پھر انھوں نے خاموشی سے ہی اس جماعت سے دوری اختیار کر لی
وہ کہتے ہیں ”تحریک انصاف میں ان کی شمولیت کی خاص وجہ یہ ہے کہ یہ ایک عام آدمی کی پارٹی ہے اور یہ ہر قابل بندے کے لیے پارٹی ہے“
بیرسٹر گوہر کے مطابق ’سنہ 2008 میں معمولی مارجن سے شکست کے بعد میرے پاس دو آپشن تھے: یا سیاسی طور پر جدوجہد جاری رکھوں اور انتخابات میں کامیابی حاصل کروں یا پھر کارپوریٹ اور آئینی امور پر وکالت کر کے لوگوں کی خدمت کروں۔ ان کے مطابق انھوں نے دوسرے آپشن کو چنا اور پھر وکالت میں مگن ہو گئے“
سنہ 2015 سے وہ زیادہ تر تحریک انصاف کے مقدمات میں پیش ہوتے رہے اور پھر انہوں نے تحریک انصاف میں جولائی 2022 میں شمولیت اختیار کر لی
اگرچہ ابھی تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات کی طرف بڑھ رہی ہے مگر وہ ابھی بھی جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے پارٹی اسٹرکچر سے متاثر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ان دو جماعتوں کو جمہوری جماعتیں سمجھتے ہیں
ان کی رائے میں جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم میں عام لوگوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے
بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے ”اب عمران خان بھی تحریک انصاف میں یہ کلچر متعارف کروا رہے ہیں“
تحریک انصاف کے دو سینیئر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بیرسٹر گوہر علی کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں۔ ان کے مطابق وہ ایک عرصے سے تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف قائم مقدمات میں پیش پیش رہے ہیں
ایک رہنما کے مطابق ان کی ان خدمات کی وجہ سے ہی عمران خان نے انہیں باقاعدہ تحریک انصاف کا حصہ بنایا۔ ایک اور رہنما کے مطابق نو مئی کے بعد بیرسٹر گوہر کو باقاعدہ تحریک انصاف کی کور کمیٹی کا حصہ بنا دیا گیا تاکہ وہ قانونی امور پر پارٹی کی قیادت کو براہ راست بریفنگ دے سکیں اور پھر قانونی حکمت عملی پر قانونی مشورے دے سکیں
انٹرا پارٹی الیکشن میں عمران خان کو دستبردار کیوں ہونا پڑا؟
علی ظفر نے اسلام آباد میں بدھ کو پریس کانفرنس میں کہا کہ ’توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو الیکشن کمیشن نے کیونکہ نااہل قرار دیا تھا اور دیگر کیس بھی ان کے خلاف زیر سماعت ہیں لہٰذا ہم نہیں چاہتے کہ انٹرا پارٹی الیکشن لڑنے سے ان پر کوئی اعتراض کیا جائے۔
’اس لیے انہی کی منظوری سے بیرسٹر علی گوہر کو قائم مقام کے طور پر پارٹی کے چیئرمین کا امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’اس عہدے کے لیے کسی سیاسی پارٹی رہنما کو اس لیے نامزد نہیں کیا گیا کہ ایک تو وہ پہلے ہی پارٹی کے اہم عہدوں پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔
’دوسرا پارٹی ہائی جیک ہونے یا کسی کے دباؤ پر عمران خان کے پیچھے ہٹنے کا تاثر نہ رہے۔‘
چیئرمین بدلنے سے پارٹی سیاست پر فرق پڑے گا؟
تجزیہ کار سلمان غنی اس ساری صورت حال پر کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں کسی پارٹی میں جمہوریت نہیں کیونکہ پارٹیاں قیادت کے گرد ہی گھومتی ہیں، جس طرح بھٹو کو جیل میں بند کر کے ان کی زندگی میں پیپلز پارٹی کی متبادل قیادت تیار نہ ہو سکی، نواز شریف کو بند کرنے سے ن لیگ میں ان کا نعم البدل تیار نہیں کیا جا سکا۔ اسی طرح عمران خان چاہے جیل میں رہیں پی ٹی آئی کا دوسرا نام عمران خان ہی ہے۔‘
سلمان غنی کے بقول: ’انٹرا پارٹی الیکشن میں چاہے بیرسٹر گوہر چیئرمین منتخب ہو جائیں، فیصلے عمران خان کے ہی ہوں گے اور ٹکٹیں بھی انہی کی مرضی کے لوگوں کو ملیں گی۔
’تحریک انصاف کے کارکن بھی باقی جماعتوں کی طرح اپنی قیادت کے اشارے پر ہی ووٹ دیں گے اور حمایت کریں گے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’جب تک عمران خان موجود ہیں تحریک انصاف کی شہرت وہی رہے گی جو پہلے سے ہے، لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ حلقوں میں شہروں میں انتخابی مہم چلانے یا ٹکٹ لینے کے لیے رہنما موجود نہیں۔
’بیشتر پارٹی چھوڑ چکے ہیں، جو بچے ہیں وہ پولیس سے چھپتے پھر رہے ہیں۔ وکلا کو قیادت اور عہدے تو دیے جاسکتے ہیں لیکن مہم چلانے اور الیکشن لڑنے کے لیے سیاسی رہنماؤں کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔‘
معاملے سے جڑے دیگر سوالات
عمران خان کو یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، نئے چیئرمین کی تعیناتی کا مطلب عمران خان کا پی ٹی آئی کے معاملات سے علیحدگی ہے اور کیا عمران خان کی پی ٹی آئی کی قیادت میں واپسی ممکن ہے؟ اس فیصلے کی وجوہات کیا ہیں اور یہ عام کارکن کے لیے کس حد قابل قبول ہو گا؟ ان سوالات کا جواب بھی تحریک انصاف کے رہنما خود ہی دیتے ہیں
ایڈووکیٹ علی ظفر کے مطابق توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دیا گیا تھا اور اس وقت حالات ایسے ہیں کہ پارٹی کو انصاف کی توقع بھی نہیں۔
ان کی رائے میں اس فیصلے کے ہوتے ہوئے عمران خان پارٹی کے چیئرمین بھی نہیں بن سکتے
علی ظفر کے مطابق توشہ خانہ کا فیصلہ جب تک ختم نہیں ہوتا تو اس وقت تک ہماری یہی پوزیشن رہے گی (یعنی عمران خان پارٹی کی سربراہی نہیں کر سکتے)
علی ظفر نے کہا کہ ’اپنے آئین اور قانون کے مطابق ہم الیکشن لڑیں گے، یہ ایک عارضی فیز ہے۔‘
علی ظفر نے عمران خان کی پارٹی میں پوزیشن سے متعلق وضاحت کی کہ ’عمران خان پارٹی کے سربراہ رہیں گے۔ وہ پارٹی کے سربراہ ہیں، وہی تحریک انصاف کی سرپرستی کرتے رہیں گے، پی ٹی آئی ان کے سوا کچھ نہیں۔ نامزد نام کے ذریعے تکنیکی مرحلہ پورا کر رہے ہیں۔‘
علی ظفر نے کہا کہ ’ہم نے یہ ایک حکمت عملی بنائی ہے۔ یہ ایک پلان بی ہے۔ اسے ہم نے کافی دیر سے اختیار کیا ہوا ہے اور اس حوالے سے کوئی کنفیوژن نہیں ہے۔‘
الیکشن سے کچھ ماہ قبل یہ فیصلہ پارٹی کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟ اس سوال پر تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن کا کہنا ہے کہ عمران خان تحریک انصاف کے تاحیات چئیرمین ہیں۔ ان کے مطابق عمران خان کی جگہ نئے چئیرمین تحریک انصاف کا ’ارینجمنٹ‘ عارضی ہے
رؤف حسن کے مطابق اس وقت تحریک انصاف کو الیکشن سے آؤٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے
انھوں نے کہا کہ اس وقت تحریک انصاف بہت مقبول ہے اور اب الیکشن میں حصہ لینے کے لیے کچھ اقدامات لینے پڑیں گے
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ہر صورت انتخابات میں حصہ لینا ہے اور یہ بات بہت واضح ہے کہ تحریک انصاف عمران خان کی جماعت ہے۔
’ان کا ووٹ بینک ہے اور عوام انھیں ہی جانتی ہے۔‘
رؤف حسن کے مطابق ’تحریک انصاف کا کارکن عمران خان کے اس فیصلے کو تسلیم کرے گا کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اس وقت کی صورتحال میں یہ خاص وقت کے لیے فیصلہ کیا گیا ہے‘
وہ کہتے ہیں کہ ’مقدمات اور نااہلی کے باوجود فیصلے عمران خان ہی کریں گے۔ ان کی رائے میں تحریک انصاف کا کارکن یہ سمجھتا ہے کہ ’عمران خان پاکستان ہیں اور پاکستان عمران خان ہے۔‘