’ڈیموکریسی سمٹ‘ میں شرکت کی امریکی دعوت اور پاکستان کا انکار، وجہ ’ون چائنہ پالیسی‘ یا کچھ اور؟

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – پاکستان نے امریکا کی جانب سے ورچوئل ’ڈیموکریسی سمٹ‘ میں دعوت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے شرکت سے معذرت کر لی ہے، جسے پاکستان میں سیاسی، سفارتی اور بین الاقوامی سیاست کو سمجھنے والوں کی جانب سے درست فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق  ’پاکستان مختلف معاملات پر امریکا کے ساتھ رابطے میں ہے اور مستقبل میں موقع ملنے پر مناسب وقت میں وسیع تر امور پر بات چیت  بھی کریں گے۔‘

بدھ کو انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز پالیسی میں اپنے خطاب میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اس کانفرنس کا تذکرہ تو نہیں کیا، تاہم انہوں نے کہا کہ دنیا میں سرد جنگ کی طرف جاتی صورت حال کے باعث بلاکس بن رہے ہیں۔ پاکستان ان بلاکس کا حصہ نہیں بنے گا۔‘

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ”دنیا دوبارہ کولڈ وار کی طرف جارہی ہے اور بلاکس بن رہے ہیں، اسے روکنے کے لیے پاکستان کو پوری کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ ہم امریکا اور چین کے درمیان کولڈ وار اور نہ ہی کسی بلاک کا حصہ بننا چاہتے ہیں، امریکا اور چین کے درمیان فاصلے کم کرنا چاہتے ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ اس سرد جنگ میں  پہلے کی طرح پھنس جائیں، پہلی سرد جنگ سے دنیا کو بہت نقصان ہوا، خطے میں تنازعات کے باعث تجارت متاثر ہے۔“

واضح رہے کہ امریکا نے اس کانفرنس میں چین کو مدعو نہیں کیا، جبکہ تائیوان کو مدعو کیا ہے

ماہرین کے مطابق پاکستان کی جانب سے شرکت کے انکار کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ پاکستان ’ون چائنہ پالیسی‘ کے خلاف نہیں جا سکتا

ماہرین کے مطابق پاکستان کے اب خطے میں بہت کلیدی مفادات ہیں۔ ان مفادات کے ہوتے ہوئے دنیا کا کوئی ملک پاکستان کو دباؤ میں لا کر ایک جانب نہیں دھکیل سکتا۔ اسی وجہ سے پاکستان کسی بھی چین مخالف بلاک کا حصہ کبھی نہیں بنے گا

اس حوالے سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ امریکا سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی شرائط بھی خود ہی طے کر سکتا ہے جب جو چاہے کر اور کہہ سکتا ہے پاکستان صرف ’ہاں‘ کہنے کے لیے ہے

مشاہد حسین نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کو سمجھ لینا چاہیے کہ امریکا اب دنیا میں واحد سپر پاور نہیں رہا۔ پاکستان کے پاس اپنی خارجہ پالیسی میں خطے میں مواقع اور اسٹریٹیجک اسپیس دستیاب ہے

پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط کا کہنا ہے کہ دنیا اس وقت ایک نئے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ اس کانفرنس کا سارا معاملہ چین اور روس کے خلاف لگ رہا ہے۔ پاکستان کی ہمیشہ سے ون چائنہ پالیسی رہی ہے۔ پاکستان کسی ایسے فورم پر نہیں جا سکتا، جہاں تائیوان موجود ہو اور چین موجود نہ ہو۔ یہ خود امریکا کی پالیسی کے بھی خلاف ہے کہ انہوں نے ون چائنہ کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس کانفرنس میں نہ جانے کا فیصلہ کرکے خود کو مزید مشکلات سے بچایا ہے، اس لیے یہ صحیح فیصلہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات خراب ہیں۔ انہیں ٹھیک کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے، تاہم اس میں یہ اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے کسی دوسرے ملک سے تعلقات متاثر ہوں

دوسری جانب سیاسی اور خارجہ امور کے ماہرین کے علاوہ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین بھی اس فیصلے کو ’اچھا فیصلہ‘ قرار دے رہے ہیں

انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر ہمایوں خان سمجھتے ہیں کہ امریکا نے جمہوریت کی اپنی تعریف کرکے کچھ لوگوں کو بلا لیا ہے اور کچھ کو دوسری جانب دھکیل دیا ہے۔ ایسے میں پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک کو مشکل میں ڈالنے والے کسی فورم میں شامل نہیں ہونا چاہیے

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں موثر ترین کردار ادا کرنے کے باوجود امریکی صدر نے پاکستان کے وزیراعظم کو فون تک نہیں کیا۔ یہ پاکستان کو زچ کرنے کے مترادف ہے۔ فون نہ کرنے کا اگر امریکا کا فیصلہ ہے تو اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ بھی پاکستان کا اپنا ہے

ماہرین کے مطابق اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے کچھ اثرات تو ضرور ہوں گے، تاہم پاکستان نے بھی سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close