امریکا کے جسٹس ڈپارٹمنٹ نے امریکی سرزمین پر ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل کی کوشش کرنے والے ملزم کے جرم کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کے ایک سرکاری عہدیدار نے ملزم کو تربیت اور قتل کی ہدایت کی
امریکہ نے کہا ہے کہ نیو یارک میں اس کے ایک شہری اور علیحدگی پسند سکھ رہنما کے قتل کا منصوبہ ناکام بنایا گیا ہے۔ گرفتار انڈین شہری نکھل گپتا عرف ’نِک‘ پر الزام ہے کہ انہوں نے اس قتل کے لیے ایک ہٹ مین (کرائے کے قاتل) کی خدمات ایک لاکھ امریکی ڈالر کے عوض حاصل کرنے کی کوشش کی تھیں
امریکی پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ یہ مبینہ ہٹ مین درحقیقت ایک ’انڈر کوور‘ فیڈرل ایجنٹ تھا، یعنی یہ شخص خفیہ طور پر قانون نافذ کرنے والے امریکی ادارے کے لیے کام کرتا تھا
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق مین ہٹن میں وفاقی پروسیکیوٹر نے کہا کہ باون سالہ نِکھل گپتا عرف نِک انڈین حکومت کے عہدیدار کے ساتھ کام کرتے تھے اور ان کی ذمہ داری شمالی انڈیا میں سکھ ریاست کے لیے جدوجہد کرنے والے نیویارک سٹی کے شہری کے قتل کے لیے سیکیورٹی اور انٹیلیجنس فراہم کرنا تھی
نکھل سے مبینہ طور پر انڈین حکومت کے ایک اہلکار نے براہ راست رابطہ کیا تھا۔ دستاویزات میں اُس انڈین اہلکار کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی ان پر فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔
پروسیکیوٹر نے ہدف کا نام بھی نہیں بتایا، تاہم نکھل گپتا کو جمہوریہ چیک کے حکام نے جون میں گرفتار کیا تھا اور اس وقت ان کی منتقلی کا انتظار کیا جا رہا ہے
مین ہیٹن کے اعلیٰ وفاقی پروسیکیوٹر ڈیمین ولیمز نے بیان میں کہا کہ ملزم نے سکھ ریاست کے قیام کے لیے کام کرنے والے بھارتی نژاد امریکی شہری کو یہاں نیویارک سٹی میں قتل کرنے کا منصوبہ انڈیا میں بنایا تھا
خبرایجنسی نے بتایا کہ واشنگٹن میں قائم انڈین سفارت خانے نے اس حوالے سے سوال پر کوئی ردعمل نہیں دیا
یاد رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ہفتے امریکی صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ کے عہدیدار نے کہا تھا کہ امریکی حکام نے سکھ علیحدگی پسند رہنما کو امریکا میں قتل کرنے کا منصوبہ ناکام بنا دیا ہے اور نئی دہلی حکومت کے ملوث ہونے پر انڈیا کو تنبیہ کردی تھی
عہدیدار نے کہا تھا کہ کینیڈا اور امریکا کی دوہری شہریت کے حامل گرپتونت سنگھ پونم کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن اس سے ناکام بنادیا گیا
امریکی پروسیکیوٹر نے نکھل گپتا کے مبینہ منصوبے کے ہدف کا نام نہیں بتایا تاہم انہوں نے ہدف کو انڈین حکومت کا سخت ناقد اور امریکی میں قائم تنظیم کا سربراہ قرار دیا، جو انڈین ریاست پنجاب کی علیحدگی کا مطالبہ کر رہا ہے، بھارتی پنجاب سکھ اکثریتی ریاست ہے
پروسیکیوٹر کے مطابق انڈین سرکاری عہدیدار نے سکھ رہنما کو قتل کرنے کے لیے نکھل گپتا کو مئی 2023 میں تربیت دی اور نکھل گپتا نے اس سے قبل حکام کو بتایا تھا کہ وہ منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ میں ملوث رہے ہیں
انہوں نے کہا کہ نکھل گپتا بظاہر کسی مجرمانہ ریکارڈ کے حامل شخص تک پہنچے جو کرایے کے قاتل تک پہنچنے میں مدد کرتا تھا لیکن وہ معاون حقیقت میں ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن کا انڈر کور ایجنٹ تھا
ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا کے علاقے وینکوور میں ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے ایک روز بعد نکھل گپتا نے ڈرگ انفورسمنٹ کے انڈر کور ایجنٹ کو بتایا کہ نجر بھی ہدف تھا اور ہمارے کئی اہداف ہیں
رپورٹ کے مطابق نکھل گپتا پر کرائے پر قتل اور قتل کی سازش جیسے دو الزامات ہیں، جس میں انہیں زیادہ سے زیادہ بیس سال کی سزا ہو سکتی ہے
پراسیکیوٹرز نے کہا ہے کہ نکھل گپتا کو مئی کے دوران انڈین حکومت کے ایک ملازم نے بھرتی کیا تھا جن سے وہ دلی میں ملے تھے اور انھوں نے وہاں اس ممکنہ منصوبے پر بات چیت بھی کی تھی جبکہ بعد میں بعض اوقات گپتا انھیں ہندی میں وائس نوٹس بھیجا کرتے تھے۔
پراسیکیوٹرز کے مطابق گپتا کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ انڈیا میں ان کے خلاف زیر التوا ایک فوجداری کیس کا معاملہ حل کر دیا گیا ہے اور اب ’گجرات پولیس سے کوئی انھیں کال نہیں کرے گا۔‘ گپتا کو گجرات کے ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کی بھی پیشکش کی گئی۔
پراسیکیوٹرز کے مطابق انڈین حکومت کے اہلکار نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ ’ہم ڈیڑھ لاکھ ڈالر دینے کو تیار ہیں۔۔۔ کام کے معیار کے حساب سے یہ آفر مزید اوپر جائے گی۔‘
فردِ جرم کے مطابق گپتا نے مبینہ طور پر یہ تجویز دی کہ وہ ہدف کے سامنے کلائنٹ بن کر جائیں گے تاکہ وہ انھیں ’ورغلا کر ایک جگہ پر لاسکیں جہاں انھیں باآسانی قتل کیا جا سکے گا۔‘
اس میں کہا گیا ہے کہ وہ نیو یارک شہر میں ایک ہٹ مین سے ملنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر پھر وہ ایک انڈر کوور ایجنٹ سے ملے جس نے ایک لاکھ ڈالر کے بدلے قتل کرنے کی حامی بھری۔
امریکی حکام کے مطابق ابتدائی طور پر گپتا نے مبینہ طور پر ایک جرائم پیشہ شخص سے رابطہ کیا تھا جو کہ دراصل منشیات کی روک تھام کے ادارے ’ڈی ای اے‘ کا مخبر تھا۔ اس مخبر نے انھیں ہٹ مین سے ملایا جو ڈی ای اے کا انڈر کوور ایجنٹ تھا۔
امریکی حکام کے دستاویزات کے مطابق گپتا نے ایک لاکھ ڈالر ایڈوانس مانگے مگر انڈین اہلکار نے اس سے انکار کر دیا۔ گپتا نے مبینہ طور پر کہا کہ نیو یارک میں ان کے ساتھی کے پاس ہٹ مین کو ایڈوانس پیمنٹ (پیشگی ادائیگی) کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، لہذا انھیں ’یہیں دلی میں ادائیگی کی جائے۔‘
پراسیکیوٹر کے مطابق 9 جون کو انڈین اہلکار نے گپتا کو میسج بھیجا کہ ’بھائی جی۔۔۔ آج پیمنٹ ہو جائے گی۔ ہم ٹیم کو متحرک کرتے ہیں اور رواں ہفتہ وار چھٹیوں پر کام کر دیتے ہیں۔‘ گپتا نے انڈر کوور ایجنٹ کو پیغام بھیجا کہ دوپہر تک ’پارسل‘ مل جائے گا۔ یوں اس قتل کے لیے مبینہ طور پر ایجنٹ کو 15 ہزار ڈالر کی ایڈوانس ادائیگی کی گئی۔
فرد جرم کی دستاویزات میں اس مبینہ ادائیگی کی تصویر شامل ہے۔ گپتا نے اس ادائیگی کا انڈین حکومت کے اہلکار کو بتایا جس نے ’او کے بھائی جی‘ کا میسج بھیجا۔
پنوں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیب سنکھ نجر سے بھی رابطے میں رہتے تھے جنھیں جون کے دوران کینیڈا میں نقاب پوش مسلح شخص نے قتل کیا تھا۔
نجر کے قتل کے بعد گپتا کو مبینہ طور پر اس انڈین اہلکار کی طرف سے ایک ویڈیو بھیجی گئی جس میں نجر کی ’خون سے لت پت لاش ان کی گاڑی میں‘ دیکھی جا سکتی ہے۔
فرد جرم کے مطابق انڈین اہلکار نے پھر دوسرے ہدف کا پتہ گپتا کو بھیجا تھا۔
گپتا نے مبینہ طور پر انڈر کوور ایجنٹ کو بتایا کہ ’نجر بھی اہداف میں شامل تھے‘ اور ’ہمارے کئی اہداف ہیں‘۔
نجر کے قتل کے بعد انھوں نے مبینہ طور پر کہا ’اب مزید انتظار کی ضرورت نہیں۔‘ انڈین اہلکار کی طرف سے مبینہ طور پر گپتا کے ساتھ ایک خبر شیئر کی گئی اور کہا گیا کہ ’یہ اب ترجیح ہے‘۔
امریکی پراسیکیوٹر کے مطابق گپتا نے مبینہ طور پر انڈر کوور ایجنٹ کو ہدایت دی تھی کہ یہ قتل امریکہ اور انڈیا کے درمیان اعلیٰ سطحی سفارتی ملاقاتوں اور رابطوں کے دوران نہیں کیا جانا چاہیے۔
گپتا نے اس ’ہٹ مین‘ کو سمجھایا بھی تھا کہ ہدف ایک سماجی کارکن ہے جس کی موت کے بعد مظاہرے ہو سکتے ہیں اور اس سے ’سیاسی معاملات‘ پیدا ہو سکتے ہیں۔
پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ گپتا نے ڈی ای اے کے مخبر اور انڈر کوور ایجنٹ کو بارہا بتایا تھا کہ انڈیا سے ان کے ساتھ شریک منصوبہ ساز وسائل رکھتے ہیں اور اس کی نگرانی کر رہے ہیں۔
گپتا نے مبینہ طور پر کہا کہ قاتل کی زندگی اس ہدف سے بدل جائے گی کیونکہ ’ہمارے پاس اس سے بھی بڑے کام ہیں۔ ہر مہینے دو سے تین کام۔‘
29 جون کو گپتا نے انڈر کوور ایجنٹ کو پیغام بھیجا کہ ہمارے پاس انٹیلیجنس معلومات ہے کہ ہدف اپنے گھر واپس آ چکا ہے اور آج ہر صورت باہر نکلے گا۔ ایجنٹ کو کہا گیا کہ ہو سکے تو قتل کے بعد کے مناظر بنائے جائیں۔
30 جون کو گپتا انڈیا سے چیک ریپبلک گئے جہاں انھیں امریکہ کی درخواست پر گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی امریکہ منتقلی کا معاملہ فی الحال زیر التوا ہے۔
اس مبینہ منصوبے کو ناکام بنانے میں امریکہ میں منشیات کی روک تھام کے ادارے ڈی ای اے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
ایڈمنسٹریٹر ڈی ای اے این ملگرام نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک غیر ملکی حکومت کے اہلکار نے مبینہ طور پر ’انٹرنیشنل نارکوٹکس ٹرافیکر کو امریکی سرزمین پر امریکی شہر کے قتل کو بھرتی کیا جسے ڈی ای اے نے ناکام بنایا۔‘
امریکی اٹارنی ڈیمین ولیمز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’میں شکر گزار ہوں کہ میرے دفتر اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے شراکت داروں نے اسے ناکام بنایا۔‘
’ہم امریکی سرزمین پر امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی کوششوں کو برداشت نہیں کریں گے۔ جو بھی یہاں یا بیرون ملک امریکیوں کو نقصان پہنچانے اور خاموش کرنے کی کوشش کرے گا، ہم اسے ناکام بنائیں گے، اس کی تحقیقات کریں گے اور اس پر کارروائی ہو گی۔‘
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اس نے مبینہ قتل کے منصوبے کا معاملہ اعلیٰ سطح پر انڈیا کے ساتھ اٹھایا ہے جس پر انڈین حکام نے ’حیرانی اور تشویش‘ کا اظہار کیا ہے۔
امریکی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن اس معاملے پر اس قدر تشویش میں مبتلا ہوئے کہ انہوں نے ڈائریکٹر سی آئی اے ولیم برنز اور ڈائریکٹر نیشنل انٹیلیجنس ایورل ہینز پر مشتمل امریکی اٹیلیجنس کے اعلیٰ حکام کو انڈیا سے بات کرنے کے لیے روانہ کیا
دریں اثنا انڈین حکومت نے کہا ہے کہ ان کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہے
اگرچہ پراسیکیوٹرز نے اس منصوبے کے ہدف کا نام ظاہر نہیں کیا۔ تاہم امریکی میڈیا کے مطابق یہ مبینہ منصوبہ امریکی اور کینیڈین دہری شہریت کے حامل گرو پتونت سنگھ پنوں کے قتل کا تھا جو امریکہ میں قائم سکھ علیحدگی پسند گروہ کے رکن ہیں
پنوں نے اس مبینہ منصوبے پر کہا ”جو بھی میرے قتل کی کوشش کر رہا تھا، چاہے اس میں انڈین سفارتکار یا انڈین را (انٹیلیجنس) کے ایجنٹس تھے، انھیں قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیا انڈیا سرحد پار دہشتگردی استعمال کرنے کے نتائج کے لیے تیار ہے؟“
سکھ برداری انڈیا میں ایک اقلیت ہے، جو اس کی آبادی کا دو فیصد حصہ ہے۔ اس کے بعض گروہ ’خالصتان‘ تحریک کا حصہ ہیں جو انڈیا میں الگ ملک کا مطالبہ کرتے ہیں
1980 کی دہائی میں ایک مسلح بغاوت کے ساتھ اس مطالبے نے شدت اختیار کی تھی، جسے بعد میں کچل دیا گیا اور اس سے ہزاروں ہلاکتیں ہوئیں۔ تاہم بیرونِ ملک سکھ برداری کے کچھ گروہ آج بھی ’خالصتان تحریک‘ کا حصہ ہیں
امریکہ میں اس مبینہ قتل کے منصوبے سے قبل کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بغیر ظاہر کیے ’مصدقہ شواہد‘ کی طرف اشارہ کیا تھا، جو جون کے دوران برٹش کولمبیا میں سکھ رہنما کے قتل کو انڈین حکومت سے جوڑتے ہیں۔ تاہم انڈیا نے اس قتل میں کوئی بھی کردار ادا کرنے کی تردید کی ہے۔
ٹروڈو نے کہا کہ بدھ کو فرد جرم عائد ہونے پر انڈیا کو یہ الزامات سنجیدگی سے لینے ہوں گے
خیال رہے کہ انڈین حکومت امریکا اور کینیڈا سمیت دیگر ممالک میں سکھ علیحدگی پسند گروپس کی موجودگی کی شکایات کرتی ہے، مذکورہ گروپس نے خالصتان تحریک زندہ رکھی ہوئی ہے یا بھارت سے علیحدہ ایک سکھ ریاست کا مطالبہ کر رہے ہیں
انڈیا کے انسٹیٹیوٹ آف کانفلکٹ مینیجمنٹ کے سربراہ اجے ساہنی کا کہنا ہے ”کینیڈا اور امریکہ کے تنازعے کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کوئی ثبوت پیش کیے بغیر پارلیمنٹ میں انڈیا کے ملوث ہونے کے بارے میں بیان دیا تھا۔ انہوں نے اس تنازعے کو ایک پبلک ایشو بنا دیا۔ اس عمل میں انڈیا کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس معاملے نے وزیر اعطم مودی اور ٹروڈو کے درمیان ذاتی ٹکراؤ کی صورتحال پیدا کر دی تھی۔ اس کے برعکس امریکہ نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا، جس میں انڈیا کی تذلیل کا کوئی پہلو سامنے آیا ہو“
ان کا مزید کہنا تھا ”اس طرح کی کوئی بات امریکہ کے معاملے میں نہیں نظر آ رہی ہے۔ جب تک امریکہ اسے ایک بین الاقوامی معاملہ یا پبلک ایشو نہ بنا دے تب تک اس کا اثر کریمنل تفتیش کی حد تک محدو رہے گا“
اجے ساہنی کہتے ہیں ”انڈیا اور امریکہ کے تعلقات بہت کمپلیکس اور گہرے ہیں۔ اس معاملے سے رشتوں کے ایک پہلو پر اثر پڑا ہے۔ لیکن ایسے معمالات میں ملکوں کے درمیان پس پردہ باتیں ہوتی رہتی ہیں تاکہ صورتحال مزید بگڑنے سے روکی جا سکے۔ یہ معاملہ اگرچہ گمبھیر ہے لیکن اس پر دونوں ممالک سنبھل کر چل رہے ہیں“
اجے ساہنی کا کہنا ہے ”اگر کینیڈا اور امریکہ کے الزامات کو صحیح مان لیا جائے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ اس طرح کے آپریشن سے کوئی طویل مدتی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس طرح کے بیانات دینا کہ ’گھر میں گھس کر ماریں گے‘ عسکری حکمتِ عملی کے لحاظ سے کوئی مدبرانہ بیان نہیں ہے بلکہ یہ بہت چھوٹے معیار کی باتیں ہیں۔ ممالک اور ریاست کی ایسی زبان نہیں ہوتی۔ اس کا حشر آگے چل کر منفی ہی ہوتا ہے“
اجے ساہنی کے مطابق ’اگر انڈیا ان معاملات میں ملوث ہے تو یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ ایک ناکام مہم تھی۔ اگر آپ ایسی حرکت کرنے جا رہے ہیں تو کم از کم اس طرح تو کریں کہ وہ سامنے نہ آئے“
وہ مزید کہتے ہیں ”ایسے آپریشن میں دانشمندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح کے آپریشن دوست ممالک میں نہیں کیے جاتے۔ اگر اس طرح کی حرکتیں آپ پاکستان میں کرتے تو آپ سے کوئی سوال نہیں پوچھتا، لیکن اگر آپ یہی کام مغربی جمہوریتوں اور کینیڈا اور امریکہ جیسے ممالک میں کریں گے تو اس کا اثر منفی اور طویل مدتی ہوگا“