ایک استاد، جو غزہ کے ملبے پر بےگھر فلسطینی بچوں کو پڑھا رہا ہے

ویب ڈیسک

غزہ میں ایک ٹوٹے پھوٹے احاطے میں مختلف عمر کے بچے چاک اور سلیٹ لیے بیٹھے ہیں اور مشتاق نظروں سے اپنے ٹیچر کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسے شہر کے لیے اجنبی سا منظر ہے جہاں ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں، ایک نامعلوم تعداد ملبے میں دفن ہے اور شہر نے ایک کھنڈر کی صورت اختیار کرلی ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پچیس سالہ نوجوان ٹیچر طارق النبی اپنے شاگردوں کی کرسیوں کو ایک دائرے میں ترتیب دیتے ہیں، سلیٹ اور چاک جگہ پر رکھتے ہیں، اور اس دن کے لیے اپنے سبق کی تیاری کرتے ہیں، جو وطن سے محبت کے بارے میں ہے۔ وہ بچوں کو سکھانا چاہتے ہیں کہ اسے کیسے انگریزی میں کہا جائے

اس وقت غزہ تاریخ کی بدترین اسرائیلی بمباری اور حملوں کا سامنا کر رہا ہے، جس کے باعث غزہ کی پٹی ملبے کے ڈھیر کا منظر پیش کر رہی ہے۔ علاقے کے بہت سے اسکول یا تو اسرائیل کی مسلسل بمباری سے تباہ ہو چکے ہیں یا پھر بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے لیے پناہ گاہیں بن چکے ہیں یا بالکل ویران ہو چکے ہیں

طارق النبی لڑائی کے عروج کے دوران غزہ شہر میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام اپنا اسکول چھوڑنے پر اس وقت مجبور ہو گئے، جب اسرائیلی ٹینکوں نےاس کا محاصرہ کر لیا تھا

لیکن ہفتوں کی لڑائی اور حماس کے خلاف اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں کے بعد، جس میں حماس کے زیرانتظام غزہ میں بچوں اور خواتین سمیت پندرہ ہزار سے زیادہ افراد شہید ہو چکے ہیں، طارق النبی غزہ کی پٹی کے جنوب میں رفح میں بے گھر بچوں کو پڑھانے کے لیے واپس آ گئے ہیں

ان کا کلاس روم ایک مقامی اسکول کے صحن میں ہے، جسے ایک عارضی کیمپ بنایا گیا ہے۔ عمارت کے اصل کلاس رومز اب بے گھر ہونے والے ان خاندانوں کی پناہگاہ ہیں، جو میزوں کے نیچے گدوں پر سوتے ہیں۔ دوسرے برامدوں میں سوتے ہیں، جہاں انہیں کم از کم رات کی سردی سے بمشکل ہی پناہ ملتی ہے

طارق ہر عمر کے تقریباً چالیس لڑکوں اور لڑکیوں کی اپنی کلاس کو، سلیٹ اور چاک کا استعمال کرتے ہوئے پڑھاتے ہیں، جو انہوں نے یہاں وہاں سے جمع کیے گئے چھوٹے موٹے عطیات سے حاصل کی ہیں

جینز اور سرمئی رنگ کا سویٹر پہنے ہوئے صاف ستھرے طارق اپنے شاگردوں کی کوششوں پر نظر رکھتے ہیں، جب وہ عربی اور انگریزی دونوں میں لکھنا سیکھ رہے ہیں

دس برس کی معصوم سی لیان، دس گلابی تتلیوں سے سجا سرمئی رنگ کا کوٹ پہنے ہوئے، اپنے کام پر پوری توجہ دیتی ہیں، لیکن ایک لمحے کے لیے رک کر یہ بتاتی ہے کہ کس طرح ان کے گھر پر بمباری نے خاندان کو غزہ شہر چھوڑنے پر مجبور کیا ”اب ہم اس اسکول میں سوتے ہیں۔ چچا طارق ہمیں انگریزی پڑھاتے ہیں“ وہ خوش دلی سے کہتی ہیں کہ جب وہ بڑی ہوں گی تو وہ بھی انگلش ٹیچر بننا چاہیں گی

طارق کے لیے، جنگ کے وقت انگریزی پڑھانا بذاتِ خود ایک طرح کی حکم عدولی ہے۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا ”پہلے ہم بچوں کو ان کی مسکراہٹ واپس دیتے ہیں اور پھر انہیں اپنے اسباق دوبارہ سیکھنے دیتے ہیں۔۔“

نوجوان ٹیچر نے کہا ”ہم انگریزی بولنے میں ان کی مدد کرتے ہیں، تاکہ انہیں دنیا میں سنا جا سکے۔“

فی الحال وہ اکیلے ہی پڑھا رہے ہیں، صبح کے وقت چالیس طالب علموں کو اور مزید چالیس کو دوپہر میں، لیکن انہیں امید ہے کہ دوسرے رضاکار بھی سامنے آئیں گے

اقوام متحدہ کے مطابق، غزہ کی پٹی میں، جو غربت سے تباہ حال ایک چھوٹا سا گنجان آباد علاقہ ہے- 81.5 فیصد لوگ غریب اور 46.6 فیصد بے روزگار ہیں۔ یہ علاقہ اسرائیل کے مظالم کی جیتی جاگتی تصویر پیش کرتا ہے

تقریباً نصف آبادی کی عمر پندرہ سال سے کم ہے، لیکن بار بار ہونے والے اسرائیلی حملوں کے بعد، جس نے بہت سے اسکولوں کو تباہ کر دیا ہے، اور سترہ سال کی اسرائیلی ناکہ بندی کے بعد جو خاص طور پر تعمیراتی ساز و سامان پر ہے، بچےتعلیم سے محروم ہو رہے ہیں

امن کے زمانے میں بھی، اقوام متحدہ، جو وہاں 180 سے زیادہ اسکولوں کا انتظام چلاتی ہے، پیچیدہ ٹائم ٹیبل کا سہارا لینے پر مجبور تھی

کچھ جگہوں پر، دستیاب وقت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ہر ایک بچوں کے مختلف گروپوں کو تعلیم دیتا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو دن میں کم از کم چند گھنٹے سیکھنے کا موقع دیا جا سکے

حماس کی حکومت کے مطابق، اسرائیل کے حالیہ حملوں کے نتیجے میں 266 اسکول جزوی طور پر تباہ ہوئے ہیں، جب کہ 67 مکمل طور پر تباہی کا نشانہ بن چکے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close