سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط71)

شہزاد احمد حمید

رنی کوٹ کی تعمیر کو سمجھنے کے لئے ماہرین دہائیوں سے یہاں کے چکر لگاتے رہے ہیں لیکن رنی کوٹ ایسا معمہ ہے جو ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔ رنی کوٹ میں روڈ رستے نہیں ہیں، فور بائی فور سے ہی آیا جایا جا سکتا ہے۔ راستہ ختم ہو جائے تو پیدل دیوار پر چڑھ کر ارد گرد کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ شاندار دکھائی دینے والی دیوار ایک مشکل طرز تعمیر ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین عرصہ سے یہ کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ آخر یہ دیواریں اور قلعہ کیوں تعمیر کیا گیا تھا، مقصد کیا تھا، کس دور میں تعمیر ہوا لیکن کسی حتمی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ وہ یہ بات مانتے ہیں کہ مقصد بیرونی لشکروں سے اپنا دفاع کرنا تھا۔ اس کی تعمیر کا آغاز کس نے اور کب کیا، تاریخ میں کوئی واضح حوالہ نہیں ملتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ قلعہ سرسانیوں کے دور میں تعمیر ہوا، جن کا مرکز فارس کا علاقہ تھا۔ یہاں سے ایک دفاعی لائن بلوچستان سے ہوتی ایران تک چلی گئی ہے۔ راستے میں چھوٹے چھوٹے اور قلعے بھی ہیں لیکن اس طرز کا قلعہ کہیں اور نہیں ہے۔ دراصل رنی کوٹ میں 2 اور قلعے بھی ہیں مگر یہ چھوٹے ہیں میں تو ان کو قلعہ نما حویلی ہی کہوں گا۔ باہر کی دیوار ایک عظیم structure ہے۔ مرکزی دروازے سے گاڑی دو تین کلو میٹر تک ٹیڑے میڑے راستے سے گزرتی ’میری‘ تک آتی ہے۔ قلعہ کے اندر پہلی حویلی۔ خیال ہے یہ شاہی خاندان کے افراد کی رہائش گاہ تھی۔ اس سے آگے بھی پیدل ہی چلنا پڑتا ہے۔ چند کلو میٹر پیدل چل کر آپ تالاب کے پاس پہنچتے ہیں۔ ’پَریَن جو تلاء“ (یعنی پریوں کا تالاب) مچھلیوں سے بھرا، گہرا اور اس کے ارد گرد پتھروں پر کافی پھسلن ہے۔ یہاں احتیاط سے قدم رکھیں۔ گرمی کے موسم میں اس تالاب میں لگائی گئی ڈبکی آپ کو لمحوں کے لئے گرمی کی شدت میں راحت دیتی ہے۔

ہمارا گائیڈ صادق گبول بتانے لگا؛ ”سائیں! قلعہ کی زمین سے چند قدیم اشیا جن میں انسانوں اور جانوروں کی ہڈیاں شامل ہیں، ملتی رہتی ہیں۔ ان میں سے کچھ تو میرے دفتر میں بھی محفوظ ہیں۔ سرد موسم میں ملکی اور غیر ملکی سیاح یہاں کا رخ کرنے لگے ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں نے اس قلعہ کو وسعت بھی دی اور مضبوطی بھی۔ البتہ مستند طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آخری بار اس قلعہ کی مرمت انیسویں صدی کے اوائل میں تالپور دور حکمرانی میں ہوئی لیکن پاکستان بننے کے بعد تو اس پر توجہ ہی نہیں دی گئی اور یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ حالیہ برسوں میں ایک غیر سرکاری ادارے ”سندھ انڈیومنٹ ٹرسٹ“ sindh endument trust نے اس کی مرمت کا کام شروع کیا ہے۔ مقصد ہے کہ اس منفرد قلعے کو بحال کرکے آنے والے اگلے پچاس ساٹھ سال کے لئے محفوظ کر لیا جائے۔ یہ تاریخ اور شاید اس قلعے پر بھی احسان ہوگا۔ اس تاریخی ورثہ کو اگلی نسلوں تک محفوظ رکھنا آج کے حکمرانوں اور نسل کی ذمہ داری بھی ہے۔“

ہمیں ریسٹورنٹ پر موجود اللہ ڈنو گبول نے بتایا ”سائیں! اصل قلعہ تو یہاں سے دور ہے۔اس قلعہ کی مرمت ہوتی رہتی ہے۔ چند سال پہلے اس کی دیوار مرمت کی گئی تھی لیکن جگہ جگہ سے یہ اب اکھڑ چکی ہے۔ جس شخص کو پیدل چلنے کی عادت نہ ہو، اس کے لئے زیادہ دیر تک اس دیوار پر چلنا مشکل کام ہے۔ اسٹیپ لمبے اور اونچے ہیں۔ ہم جیسا انسان جلدی تھک جاتا ہے سائیں۔ اُس دور کے جفاکش اور جنگجو انسانوں کے لئے جو طاقت اور بہادری میں ہم سے بہت آگے تھے، ان پر چڑھنا اور دوڑنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ ہم جیسوں کا تو سانس ہی پانچ دس قدموں کے بعد پھولنے لگتا ہے۔ سائیں! آپ آگے مت جائیں گرمی بھی بہت ہو رہی ہے اور لمبے راستے میں نہ پانی کا بندوبست ہے اور نہ ہی کوئی سایہ۔“ کہہ وہ ٹھیک ہی رہا ہے۔

باس نے پو چھا؛ ”اللہ ڈنو بھائی! یہ قلعہ کب اور کس نے تعمیر کیا تھا؟“ وہ بتانے لگا؛ ”اس قلعہ کی کوئی مستند تاریخ نہیں ہے۔ کب، کس نے تعمیر کیا، کوئی نہیں بتا سکتا البتہ ایک اندازے کے مطابق یہ دو ہزار سال پرانا ہے لیکن دیکھنے سے ایسا نہیں لگتا اس کی عمارت کافی بہتر حالت میں ہے۔ کہتے ہیں کہ میر شیر محمد تالپور نے اس کی مرمت اپنے دور حکومت میں تقریباً 200 سال پہلے کراوئی تھی۔ اس دیوار کے اندر 3 چھوٹے قلعے رنی کوٹ، شیرکوٹ اور موہن کوٹ ہیں۔ درمیان میں ایک تالاب بھی ہے جو حیرت انگیز طور پر مچھلیوں سے بھرا رہتا ہے۔ یہ مچھلیاں ہیں بھی بہت فرینڈلی۔ آنے والوں سے جلد مانوس ہو جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں پریاں نہانے آتی تھیں۔ سندھی زبان میں اسے ”پرین جو تلاء“ یعنی ”پریوں کا تالاب“ کہتے ہیں۔ بس اتنا ہی جانتا ہوں میں سائیں۔“ اس کی بات ختم ہوئی ان سے اجازت چاہی۔

دیوار کے قریب ہی ایک بکریاں چراتا چرواہا نظر آیا ہے اور اس کے ساتھ ایک اور لمبا دبلا سندھی بھی ہے۔ کندھے پر سندھی اجرک۔ یہ عبدالرزاق گبول ہے۔ میں نے پوچھا؛ ”سائیں! یہاں کون سی قوم آباد ہے؟“ جواب ملا؛ ”سائیں وڈا! یہاں اکثریت گبول قوم کی ہے۔ میں سماجی کارکن ہوں۔ اگر یہاں باقائدہ سیاحتی ٹورز شروع کئے جائیں تو اس سے مقامی لوگوں میں خوشحالی آئے گی۔ علاقے کی ترقی بھی ہوگی اور لوگوں کے تعلقات میں بھی اضافہ ہوگا۔ ہم مہمان نواز لوگ ہیں اور آنے والوں کو دل سے خوش آمدید کہیں گے۔ رانی کوٹ صرف آثار قدیمہ کی جگہ ہی نہیں بلکہ قدرتی حسن اور سیاحت سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے پر کشش مقام ہے۔‘‘ اس بات میں کوئی بناوٹ نہیں ہے۔ یہ مہمان نواز اور محبت کرنے والے لوگ ہیں۔

واپس پلٹے جیپ میں سوار ہوئے اور پھر سے انڈس ہائی وے کو چل دئیے ہیں، جو یہاں سے گھنٹہ بھر کی مسافت ہے۔ سورج جو کچھ دیر پہلے ہمارے سر پر چمک رہا تھا، اب ڈھلنے لگا ہے۔ ہماری دائیں جانب جلتے تپتے سورج کی حدت سے گندم کے چند سنہرے کھیت کٹائی کو تیار ہیں۔

ہم انڈس ہائی وے پر پہنچے دائیں گھومے اور کوٹری شہر کی جانب گھوم گئے ہیں۔ ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم۔

’خانوٹ‘ اگلا قصبہ ہے۔ آمری سے خانوٹ تک کا سفر زیادہ تر خشک بنجر زمین پر مشتمل ہے۔ آبادی کم، گھر کچے اور ریگستانی طرز کے ہیں جبکہ لوگ غریب، بھلے مانس اور تابعدار۔ جیسے غربت ان کے چہروں سے عیاں ہے، ویسی ہی ان کے گھروندوں سے بھی ٹپکتی ہے۔ ہمارے سامنے پھیلی ہریالی گہری ہونے لگی ہے۔ سنگ میل ”پٹارو صفر“ دکھا رہا ہے۔ نظروں میں ابھرتی شاندار عمارت ’کیڈٹ کالج پٹارو‘ ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری اسی درس گاہ کے طالب علم رہے ہیں۔ حد نظر پھیلے کھیت ان میں چلنے والے جدید اور دیسی طرز کے ہل کسان کی محنت، پسینہ اور کوٹری بیراج کے پانی کی مرہون منت ہیں۔ ڈھلتی سہ پہر کا سورج ابھی بھی اپنی تمازت دکھا رہا ہے ۔سیہون سے کوٹری کی ایک سو پنتیس (135) کلو میٹرلمبی مسافت طے کرنے میں ہمیں 4 گھنٹے لگے ہیں۔(رنی کوٹ کا سفر شامل کرکے)۔

کوٹری بیراج ”غلام محمد بیراج“ بھی کہلاتا ہے۔ نو سو (900) میٹر لمبے اس بیراج کے ساٹھ (60) فٹ چوڑے چوالیس در (44 گیٹ) ہیں، جن سے چوبیس ہزار (24000) کیوسک پانی فی سیکنڈ گزرنے کی گنجائش ہے۔ یہاں سے 4 نہریں 2 سالانہ اور 2 ششماہی نکالی گئی ہیں۔ سندھو کے چمکتے پانی پر کچھ دخانی کشتیاں اور کچھ موٹر بوٹس شاندار نظارہ پیش کر رہی ہیں۔ ایسا ہی نظارہ مجھے ”گولڈن گیٹ برج“ سان فرانسیسکو (بحیرہ سان فرانسیسکو اور بحرالکاہل پر تعمیر کیے گئے پل جو گولڈن گیٹ برج سطح آب سے سات سو چھیالیس (746) فٹ بلند اور ایک اعشاریہ سات میل لمبا ہے۔) امریکہ میں بھی دیکھنے کو ملا تھا، لیکن وہاں سینکڑوں کشتیاں چھوٹے بڑے بحری جہاز سمندر کے پانی پر تیرتے دلکش نظارہ پیش کرتے ہیں۔ہزاروں سیاح روزانہ اس برج کو دیکھنے آتے ہیں۔ یہ پل سان فرانسیسکو اور مارٹن کاؤنٹی کو ملاتا ہے۔ اس کا شمار جدید دنیا کے عجوبوں میں ہوتا ہے۔ چلچلاتی گرمی کی دوپہر میں کوٹری برج پر ٹریفک انتہائی کم ہے، ورنہ صبح کے وقت اور شام ڈھلتے ہی کوٹری اور حیدرآباد کے جڑواں شہروں کے (سندھو کے ایک کنارے پر کوٹری اور دوسرے پر حیدرآباد آباد ہے۔) کے درمیان آنے جانے والوں کا رش ہوتا ہے۔ ان میں طالب علم بھی ہوتے ہیں، تاجر بھی، مزدور بھی، بابو بھی، افسر بھی اورسیاح بھی۔ ہم کوٹری (جامشورہ ضلع) سے کوٹری بیراج کو کراس کرکے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد چلے آئے ہیں۔ سندھو اس پل کے نیچے سے پرسکون بہہ رہا ہے۔

حیدر آبا قدیم شہر ہے۔ رگ وید میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ قدیم زمانے کا ”نیرون کوٹ“ جو اس دورکے حکمران ”نیرون“ کے نام کی نسبت سے نیرون کوٹ کہلایا۔ مچھیروں کی قدیم بستی۔ تاریخ کے مطابق سندھو کے مشرق میں واقع ”گنجو ٹکر“ (gunju takkar) کی پہاڑیوں پر ہندو پوجا کے لئے جاتے تھے۔ یہاں آنے والے مہنت اور پجاریوں کا ماننا تھا کہ ایک دن ان کی پوجا نیرون کوٹ کی تعمیر و ترقی کا باعث بنے گی۔ بعد کے دنوں میں ایسا ہی ہوا۔ وادی سندھ کی تہذیب کے وقت اس جگہ جنگل اور وسیع زمین تھی۔ نیرون کے دور حکمرانی تک یہ جگہ ایسی ہی رہی۔ ارد گرد جنگل اور بیچ مچھیروں کی یہ بستی تھی۔ 0711ء میں محمد بن قاسم نے یہ علاقہ فتح کیا تو مقامی آبادی کی بڑی تعداد نے اسلام قبول کر لیا۔ عرب گئے تو دوبارہ ہندوؤں کی حکومت قائم ہوئی۔ اس کے بعد مسلمانوں کا دور پھر سے شروع ہوا۔ مقامی ”سومرو خاندان“ کی حکومت قائم ہوئی جو نووارد مسلمان تھے۔اس کے بعد ”سماں خاندان“ کا دور آیا۔ سولھویں سے اٹھارویں صدی تک سندھ مغل سلطنت کا حصہ رہا ہے۔ اُن کے زوال کے ساتھ سندھ اُن کے مقرر کردہ گورنروں کے تسلط میں چلا گیا۔ پہلے کلہوڑا خاندان حکمران رہا جن کی وفاداری پہلے افغان سردار نادر شاہ اور پھر درانیوں کے ساتھ رہی ہے۔ اٹھارویں صدی کے وسط میں تالپور خاندان نے انہیں حکمرانی سے محروم کر دیا۔ 1843ء میں فرنگی اُن پر غالب آئے اور پھر 1947ء میں آزادی آئی۔ اس شہر کی بنیاد میاں غلام محمد کلہوڑا نے 1767ء میں رکھی۔ وہ 1757ء سے 1772ء تک سندھ کے حکمران رہے ہیں۔ ان کا مقبرہ اسی شہر کے محلہ ”ہیرا آباد“ میں ہے۔ یہ سندھ کا پایہ تحت 1789ء میں بنا جب میر فتح کلہوڑانے ”خدا آباد“ کو خیر آباد کہا۔

یہ وہ وقت تھا جب میرا دوست سندھو جو خداآباد کے قریب سے بہتا تھا اپنا راستہ تبدیل کر رہا تھا۔ شدید سیلاب سے اُس نے تباہی مچا دی تھی۔ میر فتح حیدرآباد چلے آئے اور پکا قلعہ کو اپنا مسکن بنایا۔ قلعہ میں نئی عمارات تعمیر کی گئیں اور اسے حرم کی رونق سے آراستہ کیا گیا۔ (اس دور کے حکمران حرم کو امارت کی نشانیوں میں ایک سمجھتے تھے۔ حکمران کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب سے ہو حرم شاہی ثقافت کا لازمی حصہ رہے ہیں)۔ خاندان کے افراد کو نئی تعمیر شدہ عمارات میں آباد کیا گیا۔

”تالپور محل یا بادشاہی محل“ اس دور کی ایک شاندار نشانی ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ یہ حیدرآباد کے ماتھے کا جھومر ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ 1863ء میں میر حسن علی خاں تالپور کا تعمیر کروایا یہ محل سندھی ثقافت، تاریخ اور روایات کی داستان سناتا آنے والوں کو اپنے سحر میں سمو لیتا ہے۔1843ء میں میروں کو ”میانی“ کے میدان جنگ میں انگریز سے شکست ہوئی۔ قلعہ پر انگریز کا قبضہ ہوا اور ارد گرد کی عمارات، جہاں عام پبلک رہتی تھی، گرا دی گئیں تاکہ فوج کا سامان رسد رکھا جا سکے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران یہ قلعہ اور بھی اہمیت اختیار کر گیا جب یہاں سامان حرب و ضرب کو محفوظ کیا گیا تھا۔ ”پکا قلعہ“ جسے سندھی زبان میں ”پکو قلعہ“ کہتے ہیں، تاریخی اور اہم جگہ ہے۔ کبھی یہاں مسلمان حکمران اور انگریزی فوج رہا کرتی تھی آج ہزاروں مہاجر خاندان آباد ہیں، جن میں سے اکثر ناجائز قابض ہی ہیں۔ یاد رہے 1993ء میں پکا قلعہ اپریشن بی بی کی حکومت کے خاتمہ کا باعث بنا تھا۔ ”رانی باغ زو“ جو دراصل1861ء میں بوٹینیکل گارڈن“ botanical garden) کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا، قابل ذکر تفریحی مقام ہے۔ ”میرن کا جبہ“ تالپور حکمرانوں کے مقبروں کی بدولت ایک اور تاریخی مقام ہے۔ اس کے علاوہ شاہی بازار میں واقع1921ء میں تعمیر ہونے والا مکھی خاندان کا محل نما دو منزلہ گھر، جس کے بارہ کمرے، بے شمار کھڑکیوں کے ساگوان اور شیشم کی لکڑی سے بنے دروازے، بڑے بڑے روشن دان جن میں لگے رنگین نقش و نگار والے شیشے، آج بھی آنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ یہ اس دور کا جدید گھر تھا۔ مکھی خاندان حیدرآباد کا معزز اور بااثر ہندو خاندان تھا جس کے بہت سے افراد1957ء میں ہمیشہ کے لئے ہندوستان چلے گئے۔ 2008ء میں وہ اس گھر کی ملکیت سے اس بات پر دستبردار ہوئے کہ اسے میوزیم میں بدل دیا جائے۔ اسی سال ڈاکٹر کلیم لاشاری جو سندھ کے محکمہ آثار قدیمہ کے سربراہ تھے کی سربراہی میں اس گھر کی تزائین و آرائش کا کام شروع ہو اور پھر اسے میوزیم میں بدل دیا گیا۔2013ء میں مکھی خاندان کے لوگ پاکستان آئے اور باقائدہ طور پر اسے حکومت سندھ کے حوالے کر دیا گیا۔ مکھی خاندان کے اس محل نما گھر کی سیر نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے حیدرآباد نہیں دیکھا۔ 1937ء میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھی یہاں قیام کیا تھا۔

حیدرآباد سونے کے کام اور کانچ کی چوڑیوں کے لئے بھی مشہور ہے۔ یہاں کے سنار اور کانچ کے کاریگر ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ باہر کی دنیا میں بھی بڑا نام رکھتے ہیں۔ حیدرآبادی چوڑیاں اپنی نفاست اور بناوٹ میں ثانی نہیں رکھتی ہیں۔ آج کا جدید حیدرآباد بڑی بڑی بلڈنگز، پلازوں، شاندار شاپنگ مالز، جدید ہاؤسنگ سوسائیٹیز پر مشتمل ایک ماڈرن شہر بن چکا ہے۔

لوگوں کی طرح شہروں کے بھی کردار ہوتے ہیں، عجیب بات یہ ہے کہ ان شہروں کے گنجان محلوں میں رونق ہے جبکہ شہروں پوش علاقوں کے بڑے گھروں میں دل دہلا دینے والی ویرانی ہے۔ اگر ان بڑے گھروں کے دروازوں پر باوردی دربان اور نوکر چاکر نہ ہوں تو انسان شکل دیکھنے کو بھی ترس جائے۔ نہ جانے ہمارے آج کے شہروں میں خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا پلازوں اور دوکانیں بنا نے کا کیارواج ہو گیا ہے۔جہاں زمین کا ٹکڑا ملا پلازہ یا دوکان بنا ڈالی۔ نپو لین نے انگریزوں کے بارے کہا تھا؛”یہ دکانداروں کی قوم ہے۔“ اگر وہ دنیا میں واپس آئے تو یقیناً اُسے اپنے کہے پرنظر ثانی کرنی پڑے گی۔ ویسے آج کا حیدرآباد جیتا جاگتا، ہشاش بشاش چاق و چوبند شہر ہے۔

میرا عظیم دوست سندھو ان جڑواں شہروں کو چھوتا اپنا ڈیلٹا بنانا شروع کرتا ہے اور اب اس کے سمندر میں اترنے میں زیادہ فاصلہ نہیں بچا ہے۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close