”ہاں دوست! تم اپنے پڑھنے والوں کو مکلی کے قبرستان کے بارے بھی بتاؤ۔ سندھ کی دھرتی کا یہ اہم تاریخی قبرستان یونیسکو ورلڈ ہیرٹیج“ کا حصہ ہے۔“ میرا داستان گوکہنے لگا۔ مجھے پہلی بار اپنے داستان گو کی آواز کمزور سی محسوس ہوئی ہے۔ ڈیلٹا کے قریب پہنچ کر اس کی آواز میں پہلی والی بات اور کڑک سنائی نہیں دی ہے۔ اس کی روانی کے ساتھ اس کی آواز میں بھی بڑھاپے کی جھلک ہے۔ میں اسے کچھ نہ کہہ سکا لیکن شاید وہ میری بات بھانپ گیا ہے، کہنے لگا؛ ”جانِ سندھو! یار بڑھاپے میں سب چیزیں ہی کمزور ہو جاتی ہیں۔ تم نے ٹھیک محسوس کیا میری روانی اور آواز میں بھی جوانی والی بات نہیں رہی ہے۔“
داستان گو کہنے لگا؛ ”قبر ہستی سے بستی کی طرف پہلا پڑاؤ ہے۔ یہ وہ مقام ہے جس کا کوئی حکمران نہیں ہوتا ہے۔ روحوں پر صرف انسان کے اعمال حکمرانی کرتے ہیں۔۔۔
”مکلی کا شہرِ خموشاں سطح مرتفع نما زمین پر دس (10) کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا تقریباً چار سو (400) سال پرانا قدیم، مشہور اور شاید دنیا کا سب سے بڑا شہر خموشاں (قبرستان) ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دس (10) لاکھ انسان یہاں ابدی نیند سوئے ہیں اور یہ میرے ڈیلٹا سے زیادہ دور نہیں ہے۔ یہاں بادشاہ، حکمران، راجے مہاراجے، درویش، بزرگ، علماء و اسکالر، امیر اور غریب سبھی دفن ہیں۔ چودھویں صدی عیسوی میں ایک صوفی درویش ”شیخ جمال ؒ“ نے درویشوں کو اکٹھا کرنے کے لئے یہاں ایک خانقاہ تعمیر کی اور ان کی وفات پر انہیں یہیں دفن کیا گیا۔ ان کی تدفین ہی اس شہر خموشاں کی بنیاد بنی۔ پھر اس دور کے نامور حکمران ”جام تماچی“ نے یہ خواہش ظاہر کی کہ اس کی وفات کے بعد اسے درویش جمال ؒ کی تربت کے قریب دفن کیا جائے یوں مکلی کی حیثیت ایک قبرستان کی ہو گئی۔ پھر آنے والے زمانے نے دیکھا کہ کیا بادشاہ، کیا ملکائیں، کیا کنیزیں، کیا درویش، کیا خیش، کیا بزرگ، کیا جوان، کیا امیر اور کیا غریب سبھی یہاں ابدی نیند سوئے ہیں۔ ان میں عام قبریں بھی ہیں، مزار بھی ہیں، مقبرے بھی ہیں اور گمنام ابدی آرام گاہیں بھی ہیں۔ یہاں کے مزاروں کو بام عروج مغلوں کے دورِ حکومت میں ملا جب یہاں شاندار مقبرے تعمیر ہوئے۔ چونے، پتھر اور اینٹوں سے بنے یہ مقبرے ہندوستانی، ایرانی، ایشیائی اور افغانی طرز تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ ان میں نیلی روغنی ٹائیلز کااستعمال انہیں دیدہ زیب بناتا ہے۔ ’اسلامی‘ ثقافت کی ان یادگاروں کو دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور بے ساختہ ان معماروں کے ہاتھ چومنے کو دل چاہتا ہے جنہوں نے یہاں سوئے لوگوں کی آخری آرام گاہوں کو اپنے فن کی کاریگری سے یادگار بنا دیا ہے۔ ان میں سے کچھ معمار بھی اسی شہر خموشاں میں آسودہِ خاک ہیں۔ یہ کسی ایک معمار کی ہی قبر نہیں بلکہ پورا پورا عہد دفن ہے یہاں۔ مکلی کا شہر خموشاں 1981ء سے ”یونیسکو“ کے ورلڈ ہیریٹیج کا بھی حصہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس تاریخی ورثہ کی طرف توجہ دے اور 1975ء کے ایکٹ اور بیسویں آئینی ترمیم کی شقوں پر عمل درآمد کر کے اسے آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ بنائے۔“
کچھ مقبرے، جن کے کتبے سنگ مرمر کے ہیں، خاص طور پر قابلِ دید ہیں۔ ان میں جام نظام الدین ثانی عیسیٰ خاں ترکھان ، خان بابو، دریا خان اورجام تماچی کے مقبرے قابل ذکر ہیں۔ مربع شکل میں تعمیر کردہ جام نظام الدین کا مزار تو اپنی بناوٹ کی وجہ سے مکلی کے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ دریا خان کا مقبرہ راجستھانی قلعہ سے ملتا جلتا ہے۔ مکلی کے مقیم چودھویں سے اٹھارویں صدی کے درمیان یہاں ابدی نیند سوئے۔ سماں خاندان کے دور حکومت میں اس قبرستان کی شہرت دور دور تک پھیلی۔
”مکلی کا شہر خموشاں سندھی تاریخ اور ثقافت کی اچھوتی مثال ہے تو کراچی سے انتیس (29) کلو میٹر کی دوری پر واقع چوکنڈی کا قبرستان جو پندرھویں سے اٹھارویں صدی کے درمیان آباد ہوا، سندھ کی دھرتی کا ایک اور قابل ذکر تاریخی مقام ہے۔ اس شہر خموشاں میں ”جوکھیو“ قبیلے کے افراد دفن ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان دونوں قبرستانوں کے بہت سے مزارات بری حالت میں ہیں۔ وقت، ماحولیاتی تبدیلی، موسمی تغیر، مٹی کے طوفانوں، آندھیوں، طوفانی بارشوں، شور اور نمی نے یہاں سوئے انسانوں کی قبروں اور مزارات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔“
”راجاؤں کے محل ہوں یا شہر خموشاں کے مقبرے۔ باعظمت محلوں کے اجڑے ایوان اب راہزنوں کی پناہ گاہیں اور مقبرے چمگادڑوں کے ٹھکانے ہیں۔ مقبروں کی چھتیں گر گئی ہیں اور یہ دھوپ میں تپتے رہتے ہیں۔ کچھ میں سے تو ہڈیاں بھی کوئی نکال لے گیا ہے۔ یہ شاید قدرت کا انتقام ہے۔ ان کی روحیں ہمیشہ کے لئے ناشاد رہیں گی اور انہیں چین نصیب نہیں ہوگا، نہ ہی کوئی نذر نہ ہی کوئی نیاز ان کے کام آئے گی۔ بڑے بڑے محل نما مقبرے اب کھنڈر ہیں، جن میں بھوت پریت بستے ہوں گے۔ انسان اور وقت نے ان عمارتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ہے۔ وقت نے اپنے نشان یوں چھوڑے ہیں کہ ان کے رنگ و روغن ختم ہوگئے ہیں، درو دیوار ڈھے (گر) گئے ہیں۔ انسانوں کی جگہ چمگاڈروں نے ان کو اپنا مسکن بنا کر ماحول تعفن زدہ کر دیا ہے جبکہ انسان نے اپنے نشان یوں ثبت کئے ہیں کہ دسمبر 2000ء میں کوئی اعجاز حسین، کوئی غفور، 2015 ء میں کوئی حفیظ اور 2019ء میں کوئی جمشید، بابر وغیرہ یہاں آئے اور ان مقبروں کے درو دیوار اور ہر گوشے پر اپنا نام کھود کر اپنے دل میں تیر اتار گئے ہیں کسی نازنین کی محبت کا یا کسی حسینہ کی بے وفائی کا۔ خود تو زخمی تھے یا نہیں البتہ ان کھنڈر عمارتوں پر ضرور زخم لگا گئے ہیں۔ بد نما زخم۔۔ ہم بھی عجیب سوچ کے لوگ ہیں۔ اپنی نفرت یا محبت کے اظہار کے لئے تاریخی عمارات کو بھی نہیں بخشتے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں تعلیم بھی جن کا کچھ بگاڑ نہیں سکی ہے۔
مکلی کا یہ شہر خموشاں چودھویں صدی سے اٹھارہویں صدی تک 3 سلطنتوں کے دارلحکومت رہنے والے ٹھٹہ شہر سے پانچ (5) کلو میٹر کے فاصلے پر پانچ چھ کلو میٹر کے رقبے پر پھیلا سندھی تہذیب کے ثقافتی ورثہ کی زرخیزی کا عکاس ہے۔
”مکلی قبرستان سے تقریباً پانچ(5) کلو میٹر کی مسافت پر چودھویں صدی کے تعمیر کردہ ”کلاں کوٹ“ قلعہ کے کھنڈر ہیں۔ شہنشاہ اورنگ زیب کے دور تک یہ قلعہ آباد رہا پھر کب کیسے اور کیوں برباد ہوا، تاریخ کے اوراق خاموش ہیں۔ ایک سو پچاس ایکڑ (150) میں پھیلے اس قلعہ کے بیرونی دروازے کے باہر بڑی جھیل تھی، جس میں میرا (سندھو)کا پانی آتا تھا۔ شاید یہ دشمنوں کے حملے سے محفوظ بنانے کے لئے دفاعی حکمت عملی کے طور پر کھودی گئی ہو گی۔“ داستان گو کی آواز نحیف سی ہے لیکن گفتگو کی روانی برقرار بلکہ سحر انگیز ہے۔
مکلی کا قبرستان سندھ کے قدیم شہر اور 3 حکومتوں کے صدر مقام ٹھٹہ کے قریب واقع ہے۔ اس شہرکے بارے خیال ہے کہ یہ قدیم ”پٹالہ“ ہے جو سکندر اعظم کے وقت میں سندھ کی مشہور بندرگاہ تھی۔ اس بندرگاہ کا اصل مقام عرصہ دراز سے زیر بحث رہا ہے۔ یہ 3 سلطنتوں سومرو، سماں اور تالپور کا دارالحکومت رہا ہے۔ محمد بن قاسم نے بھی راجہ داہر کو ٹھٹہ کے جنوب میں ہی شکست دی تھی۔ بہت سے مورخ ٹھٹہ ہی کو قدیم دیبل کی بندرگاہ قرار دیتے ہیں جبکہ بعض مورخین اس سے اختلاف کرتے دیبل کو کراچی کے قریب خیال کرتے ہیں۔ بنو امیہ کے دور میں یہاں خانہ بدوش طرز کی زندگی تھی۔ سومرو خاندان نے یہاں 300 سال (1051ء تا 1351ء) حکومت کی اس کے بعد سماں خاندان (یہ سیہون کے راجپوت تھے) کا دور شروع ہوا جو 1520ء تک قائم رہا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب ہندوستان پر محمد بن تغلق کی حکومت تھی۔ سماں خاندان کو ترکھان خاندان نے شکست دی لیکن 1550ء میں یہ حکومت کمزور پڑی تو انہوں نے پرتگیزیوں سے مدد طلب کی تھی۔ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے بھی جب شہزادگی کے دنوں میں اپنے باپ شہنشاہ ہند نورالدین جہانگیر کے خلاف بغاوت کی تو دوران بغاوت یہیں پناہ لی اور عنان حکومت سنبھالنے کے بعد یہاں شاندار ”شاجہانی مسجد“ تعمیر کی تھی۔ اس مسجد کا ٹائل ورک یکتائے زمانہ اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں ہندوؤں کے کچھ اہم مندر بھی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ٹھٹہ ”جھولے لال یا استا دیو“ کی جنم بھومی بھی ہے۔ شاہ جہاں کا تیرویں بیٹا ”لطف اللہ“ بھی یہیں پیدا ہوا تھس۔
قبرستان سے باہر آئے تو حضور بخش بتانے لگا؛ ”سائیں! عجیب بات ہے ہم لوگ جب کسی کو دل سے اتارتے ہیں تو اس سے نفرت کی انتہا کر دیتے ہیں۔ یہ جو سامنے آپ کو اجڑا ہوا مزار نظر آ رہا ہے یہ لاکھو قبیلے کے سردار کا ہے اس کی قبر کی اینٹیں بھی اس کے مخالف قبیلے کے لوگ اکھاڑ لے گئے ہیں اور اس عمارت کا کیا حال کر دیا ہے۔“ بھائی جان قیس اس کی بات سن کر بولے؛ ”ہم محبت کے اظہار میں گونگے اور نفرت کے اظہار میں منہ پھٹ لوگ ہیں۔ ویسے بھی نہ جانے کیوں نفرت کے اظہار میں لمحے لگتے ہیں جبکہ محبت کا یقین دلانے میں عمر بیت جاتی ہے۔دنیا میں تکلیفیں بڑھ جانے کی ایک وجہ انسانوں کی کمی اور لوگوں کی کثرت ہے۔سائیں جی! جس نے رب کے سامنے جھکنا سیکھ لیا وہی علم والا ہے کہ علم کی پہچان عاجزی اور جاہل کی پہچان تکبر ہے۔ ویسے لوگوں نے محبت کا پانامہ بھی کھول رکھا ہے۔“ باس بولے؛ ”سر! یہ آخری بڑی ذو معنی بات کر گئے ہیں آپ۔“
سڑک پر دوڑتی جیپ اگلی منزل کو رواں ہے۔ چٹیل زمین اور سوکھی جھاڑیاں تیزی سے سڑک کے ساتھ دوڑتی پیچھے رہتی جا رہی ہیں اور ہم آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔