گوگل ڈوڈل نے آج ایک ڈوڈل جاری کیا ہے، جس میں ہاتھیوں اور سیاحوں کی تصویروں کے ساتھ احمد ہاتھی کو دکھایا گیا ہے
‘احمد’ ایک ہاتھی کا نام رکھا گیا تھا، جو 1919 میں کینیا کے جنگلات میں ماؤنٹ مارسابیت میں پیدا ہوا تھا
احمد ہاتھی کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بہت کم معلوم ہے، لیکن اس نے 1960 کی دہائی میں شمالی کینیا کے پہاڑوں میں پیدل سفر کرنے والوں کی طرف سے دیکھے جانے کے بعد اپنی شہرت حاصل کی
احمد 1960 کی دہائی میں شمالی کینیا کے پہاڑوں میں پیدل سفر کرنے والوں کے ذریعے دیکھے جانے کے بعد توجہ کا مرکز بنا۔ احمد کی اپنے بڑے دانتوں کے لیے اس دریافت کے بعد، اس نے عالمی شہرت حاصل کی اور اسے "مارسابیت کا بادشاہ” کہا جانے لگا
پیدل سفر کرنے والوں نے دعویٰ کیا کہ احمد کے دانت اتنے بڑے تھے کہ انہوں نے زمین کو کھرچ دیا، اس انوکھی صفت نے اسے دوسرے ہاتھیوں سے ممتاز کر دیا۔
دی کنگ آف مارسابیت "The King of Marsabit” کی کہانیاں پورے کینیا میں گردش کرنے لگیں۔ اس افسانے نے میڈیا کی توجہ بھی مبذول کروائی۔ احمد ہاتھی بہت سے ٹیلی ویژن پروجیکٹس کا موضوع بن گیا، جس میں سال 1970 میں ABC سیریز اور ایک دستاویزی فلم شامل تھی۔
تاہم، پاپ کلچر کے عروج کے ساتھ اسکول کے بچوں نے احمد کے شکاریوں سے تحفظ کے لیے مہم شروع کی۔ اسکول کے ان بچوں نے کینیا کے پہلے صدر مزی جومو کینیاٹا کو خطوط بھیجے جن میں ان شکاریوں سے ان کی حفاظت کی درخواست کی گئی تھی جو ہاتھی کے بڑے بڑے دانتوں کے لیے اس کے پیچھے تھے۔ اس کے بعد صدر مزی جومو کینیاٹا نے احمد کو صدارتی فرمان کے ذریعے اپنے تحفظ میں رکھا۔
شکاریوں سے اس کی جان بچانے کے لیے دن بھر ہاتھی پر نظر رکھنے کے لیے دو سکیورٹی گارڈز تعینات کیے گئے تھے۔ احمد کی موت 55 سال کی عمر میں قدرتی وجوہات کی وجہ سے ہوئی۔ کینیا نے اس کی موت کے بعد ہاتھی کی میراث کا جشن منایا۔ صدر کینیاٹا نے ماہرین سے مطالبہ کیا کہ وہ نیروبی کے قومی عجائب گھر میں احمد کی لاش کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ کرنے کے انتظامات کریں، جہاں اس کی لاش کو احتیاط سے محفوظ کیا گیا ہے اور وہ آج بھی وہاں دیکھا جا سکتا ہے
اس ڈوڈل کی رسائی کینیا، آئس لینڈ، یوراگوئے، چلی، پاکستان، فرانس، آئرلینڈ یونائیٹڈ کنگڈم، سوئٹزرلینڈ، آسٹریا اور جرمنی سمیت دیگر ممالک تک پھیلی ہوئی ہے۔
گوگل ڈوڈل اور اس کا مقصد
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ گوگل کے ویب صفحے پر کمپنی کے لوگو یا علامتی نشان کی جگہ ہر دن نظر آنے والے ایک نئے ڈیزائن کے پیچھے کس کا دماغ کار فرما ہوتا ہے؟ اس ڈیزائن کو ڈوڈل‘ بھی کہا جاتا ہے جسے ہر روز کروڑوں افراد دیکھتے ہیں
ڈوڈل کے لیے مخصوص گوگل کی ٹیم کے لئے روزانہ ایک ڈوڈل کا انتخاب نیا چیلنج ثابت ہوتا ہے۔ گوگل کے صفحے پر کس چیز یا موضوع کو جگہ دینی ہے، اس بات کا فیصلہ کافی حد تک جمہوری انداز سے کیا جاتا ہے
گوگل کے ویب صفحے پر جو چیز 1998 میں انگریزی میں لکھے گئے گوگل کے لفظ ’او‘ سے بنی ایک شکل ہوا کرتی تھی اب وہ کسی کھیل، مقبول واقعہ یا کسی شخصیت سے متعلق ایک فنی شے بن چکی ہے۔ اب تک تقریباً کئی ہزار ڈوڈلز بن چکے ہیں، انہیں کافی پسند کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے ہر روز گوگل کا استعمال کرنے والے کروڑوں لوگوں کی توجہ ان ڈوڈلز کی طرف جاتی ہے
لندن 2012 کے اولمپکس مقابلے جتنے روز جاری رہے ہر دن کسی ایک کھیل سے منسلک ایک نیا ڈوڈل گوگل کے ہوم پیچ پر نظر آتا رہا۔ ہر دن ایک ایسی نئی چیز کے ساتھ لوگوں کو لبھانا کوئی آسان کام نہیں۔ مثلاً چارلی چیپلن کے ڈوڈلز دیکھیں تو انہیں دیکھ کر آپ کو اس ٹیم کے بارے میں تھوڑا بہت سمجھ میں آئے گا جو خود کو بھی ”ڈوڈلرز“ کہلواتے ہیں اور اس کام کو سرانجام دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ایک چھوٹے سے دفتر میں بیٹھ کر ہر روز ایک نیا ڈوڈل بناتے ہیں
ان ڈوڈلز کا بنیادی مقصد دفاتر میں روزمرہ کے کام میں مصروف لوگوں کی دلچسپی بڑھانا اور انہیں ایک مختلف قسم کا احساس دلانا اور معلومات فراہم کرنا ہے۔ 2019 مئں اس ڈوڈل ٹیم کے تخلیقی لیڈر رہنے والے ریان جرمک کے مطابق ان کے ذہن پر یہ بات کبھی حاوی نہیں ہوتی کی ان کے کام کو لاکھوں لوگ دیکھ یا پڑھ رہے ہیں۔
جرمک کا کہنا تھا ”انسانی دماغ یہ سمجھنے میں ناکام رہتا ہے کہ لاکھوں لوگ کسی ایک چیز کے بارے میں آخر کس طرح سوچیں گے؟ لیکن میرے لئے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ میں اپنے ساتھیوں اور دوستوں کو کتنا ہنسا سکتا ہوں یا کیسے کوئی نئی ٹیکنالوجی سیکھ سکتا ہوں۔ ہمیں فنکار یا ڈیزائنرز کے زمرے میں مت رکھیں۔ ہم بس یہ یقین کرنا چاہتے ہیں کہ ہم فن اور ٹیکنالوجی کو سب سے بہتر شکل میں دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔“
جرمک کا کہنا ہے کہ وہ تفریح، فن، ٹیکنالوجی اور گرافک ڈیزائن کے درمیان ایک پل کا کام کرتے ہیں۔ ڈوڈل کا انتخاب اس ٹیم کے لئے روز ایک نیا چیلنج ثابت ہوتا ہے۔ گوگل کے صفحے پر کس چیز یا موضوع کو جگہ دینی ہے، اس بات کا فیصلہ کافی حد تک جمہوری انداز سے کیا جاتا ہے۔ اس تخلیقی عمل کو دیکھ کر یہ بھی سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ آیا ڈوڈل بنانا ایک فن ہے، یا اسے محض کاروباری نقطہ نظر سے ہی دیکھا جائے؟ فن کے بارے میں جو بات کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ فن کا کوئی کاروباری پہلو نہیں ہوتا لیکن دیکھا جائے تو ڈوڈل کے معاملے میں تجارتی فن کا ایک عملی پہلو بھی ہے۔ گرافک ڈیزائنر سی اسکاٹ کے مطابق ڈوڈلز ایک طرح سے جدید آرٹ کی ہی ایک شکل ہیں، لیکن مارکیٹنگ کمپنی سیون براڈز کی چیف ایگزیکٹو آفیسر جیسمن منٹگمری اس سے اتفاق نہیں کرتیں۔ ان کے مطابق ”جب آپ کو تخلیقی صلاحیت کے لئے معاوضہ دیا جاتا ہے تب آپ کا کام فن کے دائرے سے باہر ہو جاتا ہے، کیونکہ ایسے میں آپ اپنے کاروباری کرتا دھرتا کی بات مانتے ہیں، نہ کہ تخلیقی گرو کی۔“
یہ فن ہے یا کاروبار، یا پھر دونوں کا مرکب، اس بات پر بھلے ہی اختلاف ہو لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ڈوڈلز کافی دلچسپ اور دلکش ہوتے ہیں اور جب تک گوگل کا انٹرنیٹ بازار پر تسلط برقرار رہے گا اس وقت تک اس کے ہوم پیج پر نظر آنے والے ڈوڈلز انٹرنیٹ سرفنگ کا ایک اہم حصہ بنے رہیں گے۔