مطالعہ بلاشبہ ذہنی تناؤ کو کم کرتا ہے، آپ کے دماغ کو متحرک رکھتا ہے اور آپ کی ہمدردی اور شعور کی سطح کو بہتر بناتا ہے۔ مزید یہ کہ آپ کو کتابوں میں نہ صرف بے بہا معلومات ملتی ہیں، بلکہ یہ ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو بھی پروان چڑھاتی ہیں
محقق ماریانے وولف بتاتی ہیں ”پڑھنے کا فن تقریباً چھ ہزار سال پہلے شروع ہوا تھا۔ اس کی شروعات ان چیزوں سے ہوئی جیسے کہ ہمارے پاس کتنی شرابیں یا بھیڑیں ہیں۔ جب حروف تہجی بنائے گئے تو لوگوں نے کچھ پڑھ کر حفظ کرنا اور معلومات حاصل کرنا سیکھا“
نیویارک کے ’دی نیو اسکول فار سوشل ریسرچ‘ کے مطابق جو لوگ کتابیں پڑھتے ہیں، وہ اپنے تصورات اور خیالات کو بھی بدل سکتے ہیں
لیکن آج کل لوگ کاغذ پر شائع ہونے والی کتابوں سے مطالعہ کرنے کے بجائے رفتہ رفتہ کمپیوٹر، ٹیبلیٹ، موبائل جیسے ڈجیٹل آلات پر پڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ خاص طور پر کووڈ کی وبا کے بعد اس میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے
اگرچہ ڈجیٹل میڈیا یعنی اسکرین پر پڑھنے کے بھی واضح فوائد ہیں۔ جیسے، مہنگی مجلد کتابیں کم قیمت پر پڑھی جا سکتی ہیں، لیکن کئی تحقیقات کے مطابق اس کے نقصانات بھی ہیں
تیس سے زائد ممالک کے اسکالرز اور سائنسدانوں کو ڈیجیٹلائزیشن کے اثرات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنایا گیا تھا یعنی انہوں نے اس بات پر تحقیق کی کہ جب ہم اسکرین پر پڑھتے ہیں تو ہمارے دماغوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
تحقیق کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کی مصنف اور ناروے کی اسٹیوینگر یونیورسٹی کی پروفیسر این مانجین کہتی ہیں ”بہت سی چیزیں ہیں، جو ہم سمارٹ فونز پر پڑھ سکتے ہیں، جیسے کہ مختصر خبروں کی اپ ڈیٹس۔ لیکن اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہم اسکرین پر جو کچھ پڑھتے ہیں وہ کاغذ پر پڑھنے کے مقابلے میں نسبتاً کم آسانی سے سمجھا جاتا ہے“
مطالعے کے نتائج کے مطابق اسکرین پر جو کچھ پڑھا جاتا ہے، اسے دیر تک یاد رکھنا مشکل ہوتا ہے
اسی طرح امریکی غیر سرکاری تنظیم ’سیپین لیبز‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کم عمری میں بچوں کو سمارٹ فون دینے کے منفی اثرات کم عمری میں ہی نظر آنے لگتے ہیں
سائنٹیفک امریکانا کے مطابق ہمارا دماغ کاغذ کے مقابلے اسکرین پر پڑھتے وقت زیادہ وسائل استعمال کرتا ہے اور یہ یاد رکھنا مشکل ہوتا ہے کہ ہم اسکرین پر طویل عرصے تک کیا پڑھتے ہیں
ایسے میں ’ہم کیا اور کتنا پڑھتے ہیں‘ سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ’ہم کس ذرائع سے پڑھتے ہیں‘
کیونکہ مطالعہ انسانی ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ آپ کے بصری فہم، لسانی فہم، اور سوچ اور جذباتی فہم کو ایک نئے انداز میں جوڑتا ہے
بچے اور الیکٹرانک گیجٹ
طالبہ اشویکا بھٹاچاریہ نویں جماعت میں پڑھتی ہیں۔ اشویکا کلاس میں ہمیشہ اول آتی ہیں اور وہ اپنے مطالعے کے لیے زیادہ تر اسکرین پر ہوتی ہیں
والدین نے ان کے مطالعے کے شوق کو پورا کرنے کے لیے کنڈل ٹیبلٹ لے دیا ہے، لیکن اب وہ اپنی بیٹی کو مکمل طور پر کتابوں پر واپس لانا چاہتے ہیں
اشویکا کی والدہ اسیما کہتی ہیں، ”ہم پڑھتے رہتے ہیں کہ گیجٹس کے زیادہ استعمال سے آنکھوں پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس لیے میں چاہتی ہوں کہ میری بیٹی کتابوں کی طرف متوجہ ہو“
اشویکا کی دوست آدیا کہتی ہیں ”آپ روزانہ تھوڑا تھوڑا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اپنے دوستوں اور اساتذہ سے اچھی کتابوں کے بارے میں پوچھیں اور ایسی کتابیں پڑھیں جو آپ کی دلچسپی کے مطابق ہوں“
برٹش کونسل لائبریری کی رکن آدیا کہتی ہیں کہ آپ کو ہر کتاب خرید کر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ”آپ اسکول یا قریبی لائبریری کے ممبر بھی بن سکتے ہیں“
انڈیا کی معروف ٹیک کمپنی انفوسس گروپ کی ڈائریکٹر اور مصنف سودھا مورتی بھی کہتی ہیں کہ بچوں کو کتابیں پڑھنے کی ترغیب دی جانی چاہیے
وہ کہتی ہیں، ”آج بہت سی چیزیں ایسی ہیں، جو بچوں کا دھیان بھٹکاتی ہیں، جیسے الیکٹرانک گیجٹس۔ میں چاہتی ہوں کہ بچے اس نقصان سے بچیں جو الیکٹرانک گیجٹس ان کی آنکھوں کو پہنچاتے ہیں“
پدم شری ایوارڈ یافتہ سدھا مورتی نے جے پور لٹریچر فیسٹیول میں کہا، ”بچوں کو کم از کم چودہ سال کی عمر تک کتابیں پڑھنے کے لیے کہیں۔ اس عرصے کے دوران والدین کو اپنے بچوں کو الیکٹرانک گیجٹس سے مکمل طور پر دور رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔۔ اور جب بچہ سولہ سال کا ہو جائے تو پھر یہ ان پر چھوڑ دیں کہ آیا وہ کس طرح کتابیں پڑھنا جاری رکھنا چاہتے ہیں“
مطالعے کے کرشماتی اثرات
برطانوی مصنف اور مصور کریسیڈا کوول کا کہنا ہے ”جب ہم اسکرین پر پڑھتے ہیں تو ہمارے دماغ میں پڑھنے سے تین شاندار خوبیاں آتی ہیں۔ ان سے ہمارے اندر تخلیقی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اور ہمدردی بڑھتی ہے“
وہ کہتی ہیں، ”اگر کوئی بچہ پڑھنا پسند کرتا ہے تو اس کے دو فائدے ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ مستقبل میں مالی طور پر کامیاب ہو سکتا ہے“
مزید یہ کہ کتابوں کے مطالعے سے تخلیقی صلاحیت، علم اور ہمدردی میں اضافہ ہوتا ہے۔ دماغ میں بصری، لسانی اور جذباتی فہم کے درمیان نئے رابطے قائم ہوتے ہیں۔ تعلیم سے علم اور معاشی اسکوپ میں اضافہ ہوتا ہے۔ کتاب پڑھنے سے دماغ پرسکون ہوتا ہے اور ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے
آرٹس اینڈ ہیومینٹیز میں اکیڈمک ایڈوائزر ڈاکٹر ایملی بولک کہتی ہیں: ”کتابیں ہمیں زندگی کا تجربہ دیتی ہیں۔ وہ معلومات سے بھری ہوتی ہیں۔ وہ ہمیں اپنے معاشرے کے بارے میں بتاتی ہیں۔ میرے خیال میں مستقبل میں ہم مختصر کہانیوں کے مزید مجموعے دیکھیں گے اور کتابیں سائز میں چھوٹی ہوں گی۔ اگر کتابیں نہ ہوتیں تو ہم مر چکے ہوتے، زندگی بہت بورنگ ہوتی“
ایلا بارتھڈ ببلیوتھراپسٹ یعنی کتابوں سے علاج کرتی ہیں۔ کسی شخص کی دماغی حالت کا علاج ببلیو تھراپی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اس میں شفایابی کے دیگر روایتی طریقوں کے ساتھ کتابیں پڑھنا بھی شامل ہے۔
ایلا بارتھڈ کہتی ہیں ”ہم آج وہ لوگ نہ ہوتے اگر کتابیں نہ ہوتیں۔ انسانی زندگی میں سب سے بڑی تبدیلی ’آگ پیدا کرنے کی طاقت‘ اور ’پڑھنے کی مہارت‘ کی آمد تھی“
ایلا نے کہا ”اچھی کہانی پڑھنا کسی بھی تفریح سے بڑھ کر ہے۔ پڑھنے کا معالجانہ اثر ہوتا ہے“
وہ ایک مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں ”محدود جگہ میں گھٹن محسوس کرنے، تھکاوٹ اور غصے جیسی چیزوں سے نجات کے لیے ’زوربا دی گریک‘ پڑھنے کی سفارش کی جاتی ہے“
وہ کہتی ہیں کہ اس عمل کے دوران انسانی ذہن مراقبہ کی حالت میں چلا جاتا ہے۔ ”یہ ایک ایسا عمل ہے جو دل کی دھڑکن کو متوازن کرتا ہے۔ یہ آپ کو پرسکون کرتا ہے اور یہ آپ کے دماغ میں چل رہی بے چینی کو کم کرتا ہے۔“