غزہ میں یکم دسمبر کو عارضی سیز فائر کے خاتمے کے اعلان کے فوراً بعد اسرائیلی فوج نے ایک بار پھر سے غزہ پر حملے تیز کر دیے، جس کے اسرائیلی جارحیت جہاں فلسطینی شہریوں پر موت بن کر برسنے لگی ہے، وہیں غزہ میں رپورٹنگ کرنے والے صحافی بھی زندگی کی امید کھو بیٹھے ہیں
غزہ میں موجود کئی صحافیوں نے گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر دل دہلا دینے والی کہانیاں شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ کیسے دنیا ان تمام مظالم کو دور سے دیکھ تو رہی ہے، لیکن کچھ بھی کرنے میں ناکام ہے
اسرائیل کے نہتے فلسطینیوں پر حملوں کو دنیا تک پہنچانے والے ان صحافیوں کو اب اس بات کا یقین ہو چکا ہے کہ وہ بھی جلد اسرائیلی طیاروں کی بمباری یا ٹینکوں کی گولہ باری کا نشانہ بننے والے ہیں۔ کیونکہ اسرائیل نے تمام جنگی اصول اور اخلاقیات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لگ بھگ سولہ ہزار شہدا میں آدھی سے زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی ہے
جبکہ اس میں رپورٹرز بھی شامل ہیں۔ الجزیرہ چینل کے ایک صحافی کے پورے کنبے کی اسرائیلی حملے میں موت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسرائیل کسی غیر ارادی غلطی کے نتیجے میں نہیں بلکہ جان بوجھ کر فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے
وڈیوز میں انہیں یہ کہتے سنا جا سکتا ہے ”ہم تب تک یہیں رہیں گے، جب تک درد دھندلے نہیں ہو جاتے۔ ہم تب تک یہیں رہیں گے، جب تک نغمے سریلے نہیں ہو جاتے“
غزہ کے ایک چوبیس سالہ صحافی معتز عزیزہ اسرائیلی حملوں کے آغاز سے مسلسل رپورٹنگ کر رہی ہیں۔ معتز نے تین دسمبر کو ایکس پر لکھا ”یہ اب زندگی اور موت کی جنگ ہے، میں جو کر سکتا تھا میں نے کیا، اب ہم اسرائیلی ٹینکوں میں گھر چکے ہیں“
ان کے اکاؤنٹ سے شیئر کی گئی وڈیوز میں جہاں اسرائیل کے تازہ حملوں میں ہونے والی تباہی دیکھی جا سکتی ہے، وہیں اسرائیلی ٹینکوں سے ہونے والی بمباری کی آوازیں بھی سنی جا سکتی ہیں
فلسطینی فلم ساز بيسان عوده نے انسٹاگرام پر لکھا ”مجھے اب زندہ رہنے کی کوئی امید نہیں، جیسی مجھے اس نسل کشی کے آغاز میں تھی۔۔۔ اور مجھے یقین ہے کہ میں اگلے چند ہفتوں یا شاید دنوں میں مر جاؤں گی۔“
وہ لکھتی ہیں ”میں کئی دنوں سے شدید وائرل انفیکشن کی وجہ سے اٹھ بھی نہیں پائی ہوں، میں ایسے ڈراؤنے خوابوں سے دوچار ہوں، جو حقیقت سے اتنے قریب ہوتے ہیں کہ میں حقیقت اور خواب میں فرق نہیں کر پا رہی۔“
انہوں نے اپنی طویل پوسٹ میں دنیا کو ایک پیغام دیتے ہوئے لکھا، ”ہمارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، اس میں آپ بےقصور نہیں، آپ بطور حکومت اور انسان اسرائیل کی جانب سے میرے لوگوں کے خاتمے کی حمایت کر رہے ہیں۔“
انہوں نے دکھ کے ساتھ لکھا ہے ”ہم آپ کو معاف نہیں کریں گے، انسانیت آپ کو معاف نہیں کرے گی، ہم نہیں بھولیں گے، ہم مر بھی جائیں، تاریخ کبھی نہیں بھولے گی۔“
تاہم ان سخت ترین حالات میں بھی انہوں نے اپنے دوستوں کو امید نہ چھوڑنے کا پیغام بھی دیتے ہوئے لکھا ”ہم یہیں رہیں گے۔۔ ہم یہیں جئیں گے۔۔ میرے آبائی وطن، اے میرے آباؤ و اجداد کے دیس!“
ایک اور نوجوان صحافی نے انسٹاگرام پر ’آخری پیغام‘ کے کیپشن سے اپنی امید کے ختم ہونے کا پیغام دیتے ہوئے لکھا ”ہم ان لوگوں کو معاف نہیں کریں گے، جو سچ بولنے کے قابل تھے اور خاموش رہے۔ دنیا نے ہم پر ثابت کیا کہ یہ منافق ہے، لیکن ہماری دنیا دوسرے مقام پر ہوگی، جہاں ہمارے خالق کی طرف سے زیادہ انصاف پسند، محفوظ اور زیادہ یقین دہانی ہوگی۔“
غزہ کی رپورٹنگ کرنے والی الجزیرہ کی خاتون صحافی خوالہ الخلیدی نے بھی اسرائیلی حملوں میں اپنا گھر گنوا دیا۔ وہ اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے انہیں دور بھیجنے کے بعد اب بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں
چونتیس سالہ صحافی اپنے بہت سے ساتھیوں کی طرح عملی طور پر الاقصیٰ شہدا ہسپتال میں رہتی ہیں، جو ایک عارضی بیورو بن گیا ہے، کیونکہ یہ ہسپتال ان چند جگہوں میں سے ایک ہے، جہاں انٹرنیٹ کام کرتا ہے۔
ایک ایسے وقت میں، جب غزہ میں اسرائیلی بمباری کی وجہ سے رپورٹرز اپنی جانیں گنوا رہے ہیں، مغربی میڈیا غزہ میں اپنے صحافی ساتھیوں کو بھی کم تر سمجھ رہا ہے
عالمی میڈیا جیسے بی بی سی، سی این این، اسکائے نیوز اور یہاں تک کہ ترقی پسند اخبارات جیسے کہ برطانیہ کے گارجیئن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی ساکھ خراب ہوتی جارہی ہے
افسوسناک طور پر ان صحافتی اداروں میں سے بہت سی تنظیموں نے اپنی حکومتوں کے اس نظریے کی عکاسی کی، جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازع کی ابتدا 7 اکتوبر 2023ء سے ہوئی نہ کہ 1948ء میں نکبہ سے کہ جب فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بڑے پیمانے پر بے دخل کیا گیا
چونکہ ان کی اپنی حکومتیں قابض اسرائیل کے نقطہ نظر کی تائید کر رہی تھیں، اس لیے میڈیا اداروں نے بھی اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا۔ مثال کے طور پر غزہ میں شہید ہونے والوں کی تعداد کو لے لیجیے، ان اعداد و شمار کو ہمیشہ ’حماس کے زیرِ کنٹرول‘ محکمہ صحت سے منسوب کیا جاتا ہے تاکہ اس حوالے سے شکوک پیدا ہوں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر ہیومن رائٹس واچ اور غزہ میں کام کرنے والی چھوٹی تنظیموں تک سب ہی نے کہا کہ حماس کے اعداد و شمار ہمیشہ درست ہوتے ہیں
اس کے باوجود عالمی میڈیا نے معتبر ویب سائٹس پر خبریں شائع کرنے کے لیے بہت کم کام کیا، حتیٰ کہ اسرائیلی ریڈیو پر ایک عینی شاہد کی گواہی کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے ان گھروں کو بھی نشانہ بنایا، جہاں حماس نے اسرائیلیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا، یوں دھماکوں اور اس کے نتیجے میں بھڑک اٹھنے والی آگ میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے
اگر غزہ میں صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوریج کو دیکھا جائے تو نیویارک ٹائمز کے صحافی ڈیکلن والش نے ایک ٹویٹ میں غزہ میں رپورٹنگ کرنے والے رپورٹرز کو صحافت کے ’ٹائٹن‘ کہا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں کو درپیش خطرے کو نظر انداز کیا اور غزہ میں جاری نسل کشی کی خبریں پہنچائیں
مین اسٹریم میڈیا میں الجزیرہ کے نامہ نگار کے خاندان کی ہلاکت کے بارے میں بے دلی سے خبریں شائع تو ہوئیں، لیکن دنیا کو سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے کم از کم ساٹھ صحافیوں اور ان کے خاندانوں میں سے کچھ کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی علم ہوا۔ یعنی کہ کچھ مغربی میڈیا ہاؤسز نے غزہ میں مارے جانے والے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کو بھی کم تر درجے کے انسان کے طور پر دیکھا
بہادر صحافیوں کی بے لوث رپورٹنگ کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہری آبادی کو بے دریغ نشانہ بنانے اور خون میں لت پت بچوں کی تصاویر دنیا کے سامنے پہنچ رہی ہیں، نسل کشی کرنے والے انتہائی دائیں بازو کے نیتن یاہو کو حاصل مغربی ممالک کی اندھی حمایت بھی اب آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے
امریکا اور برطانیہ میں رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ جن جماعتوں اور امیدواروں نے اسرائیل کو غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ دی ہے، وہ اپنے ووٹرز کو گنوا رہے ہیں
بڑے صحافتی اداروں کی جانب سے اپنے فرائض سے غفلت برتی گئی، سوائے چند مواقع کے، جہاں باضمیر صحافیوں نے پابندیوں کو توڑ کر حقائق کی رپورٹنگ کی۔ اس کے باوجود یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہی تھے، جنہوں نے اس رجحان کو بدلنے میں مدد کی
سوشل میڈیا اب روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے اور اگرچہ اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود منفی مواد کے بارے میں شکایت کی جاتی رہی ہے، لیکن دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان پلیٹ فارمز کے شکر گزار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید غزہ میں جاری نسل کشی کی پوری ہولناکی ان کے بغیر ابھر کر سامنے نہیں آ سکتی تھی۔