سیاسی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے اراکین نے بلوچستان کی نگران حکومت کی جانب سے موجودہ ڈومیسائل رولز کو پی آر سی سسٹم سے تبدیل کرنے کے منصوبے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نگران حکومت لوکل اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹ معاملے پر اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے
ان خدشات کا اظہار طاہر محمود، مبین خلجی، اختر حسین لانگو، رضا الرحمٰن، طارق بٹ اور ملک شعیب اعوان نے کوئٹہ میں کی گئی مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر اس معاملے پر نگران حکومت کوئی فیصلہ کرتی ہے تو وہ ’اپنے مینڈیٹ سے تجاوز‘ کرے گی
انہوں نے کہا کہ مقامی اور ڈومیسائل کا مسئلہ اٹھانا سپریم کورٹ کے اس معاملے پر حکم امتناع اور بلوچستان اسمبلی کی منظور کردہ قراردادوں کی بھی خلاف ورزی ہے
انہوں نے کہاکہ 1974 میں لوکل ڈومیسائل کے حوالے سے ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا تھا مگر اس نوٹیفکیشن پر عمل درآمد نہیں کیا گیا نگران حکومت لوکل ڈومیسائل کی بجائے پی آر سی سم شروع کر رہی ہے پی آر سی سٹم سے ہر کوئی آسانی سے بلوچستانی بن سکتا ہے، جس سے صوبے میں دہائیوں سے رہنے والوں کے مفادات کو نقصان پہنچے گا
انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت میں ڈومیسائل اور لوکل کی تفریق کے خاتمے کے لئے کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کی بجائے خود ساختہ طور پر صوبے میں پی آر سی نظام لانے کی کوشش کی جارہی ہے
انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال ہم نے بلوچستان اسمبلی میں قرار داد پیش کی جو کہ مشترکہ طور پر منظور ہوئی نگراں حکومت نے سیٹلر کو نکالنے کے لئے کمیٹی بنائی ہے، ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ نگران حکومت کا کام صرف اور صرف صاف وشفاف انتخابات کروانا ہے نگراں حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی اور نگراں کا بلینہ کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کو مسترد کرتے ہیں
مقررین نے اس معاملے پر بنائی گئی کمیٹی پر بھی خدشات کا اظہار کیا، اختر حسین لانگو کہا ”ہم ایسی کمیٹی کو قبول نہیں کریں گے اور اس کی بھرپور مخالفت کریں گے کیونکہ نگران حکمرانوں کے پاس صرف آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کرانے کا مینڈیٹ ہے“
ضیا الرحمٰن نے مطالبہ کیا کہ کمیٹی کا 11 دسمبر کو ہونے والا اجلاس منسوخ کیا جائے
انہوں نے خبردار کیا کہ 11 دسمبر کو ہونے والے اجلاس اور اکتوبر کے کابینہ کے غیر قانونی فیصلے کو مسترد کرتے ہیں اگر نگراں حکومت نے اسٹیک ہولڈز کو اعتماد میں نہ لیا تو احتجاج اور عدالت سے رجوع کریں گے
اس موقع پر سابق صوبائی وزیر طاہر محمود خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پی آر سی پر اسٹے بھی دیا ہوا ہے نگران کابینہ سپریم اور اور اسمبلی کے قرارداد کے خلاف جارہی ہے۔ نگران حکومت کے پاس اتنے بڑے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں انہیں چاہئے وہ آنے والے وقت میں منتخب ہو نے والی حکومت کا انتظار کریں، اگر نگراں حکومت نے پھر بھی کوئی کارروائی کی تو ہم عدالت سے رجوع کریں گے۔ ہم کوئی غیر قانونی تارکین وطن تو نہیں جو ہمیں بلوچستان سے نکالنے کی پالیسی بنائی جارہی ہےن ہم 1950 سے کوئٹہ میں آباد ہیں۔ ہم بلوچستان کے لوکل باشندے ہیں
انہوں نے کہا کہ ہم نگراں حکومت سے 11 دسمبر کو ہونے والے اجلاس کو منسوخ کرنے کی درخواست کرتے ہیں نگراں حکومت کو کابینہ کا اجلاس طلب کرنے قبل ہماری تجاویز بھی سننی چاہئے۔
اس موقع پر سینئر صحافی رضاء الرحمن نے کہا کہ جب 1974 میں لوکل ڈومیسائل کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری ہوا تھا تو لوگوں نے اسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی۔ آج نگراں حکومت کی جانب سے پی آرسی کے معاملات کو دیکھنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے، لیکن اس میں اصل اسٹیک ہولڈز کو طلب نہیں کیا گیا
انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت کے پاس اتنے بڑے فیصلے کرنے کے اختیارات موجود نہیں اگر نگراں حکومت نے سابقہ حکومت کے فیصلوں کے خلاف کوئی فیصلہ کیا تو کورٹ سے رجوع کریں گے
انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت کس ایجنڈے کے تحت کام کر رہی، وہ ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔ اگر کوئٹہ کے اصل باشندوں کو دیکھنا ہے تو عید کے تین دنوں میں دیکھا جا سکتا ہے
اس موقع پر سابق صوبائی وزیر مبین خان خلجی نے کہا کہ نگراں حکومت کے پاس سابقہ اسمبلی سے پاس شدہ قرار کے خلاف فیصلہ کرنے کا کوئی حق موجود نہیں ہے نگراں حکومت اس فیصلے سے عوام کے دلوں میں نفرت کا بیج بو رہی ہے
انہوں نے کہاکہ نگراں حکومت کی جانب سے بنائی کمیٹی اور نگراں کابینہ کے فیصلوں کو یکسر طور پر مسترد کر تے ہیں
اس موقع پر طارق محمود بٹ نے کہا کہ ہم صدیوں سے بلوچستان میں آباد ہیں لیکن بلوچستان میں باہر سے آنے والوں کو ایک دن میں لوکل اور ڈومیسائل مل جاتا ہے نگراں حکومت اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہی ہے اگر نگراں حکومت نے نگراں کابینہ کے اجلاس اور فیصلے کو منسوخ نہیں کیا تو احتجاج کا راستہ اپناتے ہوئے عدالت سے بھی رجوع کریں گے۔