دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود گوادر میں احتجاج جاری، سو سے زائد مظاہرین گرفتار

ویب ڈیسک

بلوچستان حکومت کی جانب سے گوادر میں مظاہرین سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے اور ایمرجنسی کے نفاذ کے سبب پانچ یا اس سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی عائد کیے جانے کے باوجود مظاہرین اور ان کے رہنماؤں کی سڑکوں پر آمد کا سلسلہ جاری ہے، جنہیں گرفتار کیا جا رہا ہے جبکہ دیگر علاقوں سے بھی مظاہرین مسلسل آ رہے ہیں

بنیادی حقوق کے حصول کے لیے کئی ماہ سے جاری پُرامن احتجاج کے بعد ضلع میں کشیدگی پیدا ہونے کے نتیجے میں پولیس نے گزشتہ چار دنوں میں لگ بھگ سو سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا ہے، جمعرات کو صوبائی حکومت نے گوادر میں ایک ماہ کے لیے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 نافذ کر دی ہے

صوبائی وزیر داخلہ ضیاءاللہ لانگو نے کہا ہے کہ حکومت ریاست کی رٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی اور پرتشدد مظاہروں اور ہمدردی حاصل کرنے کے لیے خواتین کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے والے عناصر سے سختی سے نمٹے گی

مظاہروں کی قیادت کرنے والے مولانا ہدایت الرحمٰن نے کہا کہ لوگ موٹروے یا اورنج لائن نہیں بلکہ محض اپنے بنیادی حقوق جیسے پانی، بجلی اور نوکریاں مانگ رہے ہیں

محکمہ داخلہ بلوچستان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دفعہ 144 کے تحت گوادر کے ساحلی شہر میں ہر قسم کے جلسے، احتجاج، دھرنے اور پانچ یا اس سے زائد افراد کے اجتماعات پر پابندی ہوگی، اس کے علاوہ اسلحے کی نمائش پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے

تاہم مولانا ہدایت الرحمٰن کی زیر قیادت حق دو تحریک کے کارکنوں اور حامیوں نے جمعرات کو گوادر میں اپنا احتجاج جاری رکھا اور تحریک کے تمام افراد اور کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا

پورٹ ٹاؤن کی مختلف سڑکوں پر احتجاجی مارچ کے دوران تمام بازار، بینک، دکانیں اور کاروباری مراکز دن بھر بند رہے، ساحلی ضلع کے دیگر علاقوں میں چوتھے روز بھی شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری رہی

گوادر کے کئی علاقوں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور ایک روز قبل منتشر ہونے والے لوگ دوبارہ جمع ہو گئے اور شہر کو مکران ڈویژن کے دیگر اضلاع سے ملانے والی مرکزی شاہراہ کو بلاک کر دیا

ساحلی شہر کا کراچی اور دیگر علاقوں سے رابطہ منقطع رہا اور تمام آنے اور جانے والی ٹریفک معطل رہی اور اسی طرح انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی سروسز بھی معطل رہیں

کچھ سیاح ہوٹلوں میں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ پرل کانٹینینٹل ہوٹل کی طرف جانے والی سڑک کو مظاہرین نے بند کر دیا تھا

مختلف ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پسنی، اورماڑہ، جیوانی اور تربت میں بھی لوگوں نے حق دو تحریک کے مظاہرین کے حق میں احتجاج کیا

تربت میں لوگ تربت پریس کلب کے سامنے جمع ہوئے اور ریلی نکالنے کی کوشش کی تاہم پولیس کی بھاری نفری نے انہیں سڑکوں پر آنے سے روک دیا

ذرائع کا کہنا ہے کہ مزید افراد کو گوادر اور پسنی ٹاؤنز سے بھی گرفتار کیا گیا ہے، گزشتہ چار دنوں کے دوران سو سے زائد گرفتار کیے گئے ہیں

دریں اثنا، جمعرات کو گوادر کے معاملے پر ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ ضیااللہ لانگو نے کہا کہ صوبائی حکومت نے گوادر میں کام کرنے والے چینی باشندوں کی سیکیورٹی اور ریاست کی رٹ پر سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ ان عناصر سے نمٹے گی، جو حکومت کی طرف سے ان کے تمام مطالبات کو تسلیم کرنے کے باوجود اپنے پرتشدد مظاہروں کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ خواتین کو ہمدردی حاصل کرنے کے لیے انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں

انہوں نے کہا کہ احتجاج کے دوران تشدد میں ملوث افراد اور سرکاری عمارتوں پر حملہ کرنے والوں کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close