بلوچستان کے علاقے تربت میں حراست کے دوران بالاچ مولا بخش کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے ایس ایچ او اور دیگر عملے کے خلاف ہفتے کو مقدمہ درج کیا گیا ہے
سی ٹی ڈی تربت کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مقدمے کے اندراج کی تصدیق کرتے ہوئے ایف آئی آر کی کاپی بھی دکھائی۔ انہوں نے بتایا کہ مقدمہ تربت سٹی پولیس اسٹیشن میں مقتول کے والد مولابخش کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے
یہ مقدمہ بالاچ بلوچ کے ورثا کی مدعیت میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تربت کے احکامات پر سی ٹی ڈی کے ایس ایچ او سمیت دیگر اہلکاروں کے خلاف درج کیا گیا ہے
درخواست میں مقتول کے والد مولابخش نے موقف اختیار کیا کہ میرے بیٹے کو 29 اکتوبر 2023 کی رات نامعلوم افراد اٹھا کر لے کسی نامعلوم مقام پر لے گئے تھے اور اسے حبس بے جا میں رکھا اور پھر 20 نومبر 2023 کو میرے بیٹے کے خلاف سی ٹی ڈی تھانہ تربت میں مقدمہ درج کیا گیا، جس پر 21 نومبر 2023 کو تفتیشی افسر نے سیشن جج سے دس دن کا جوڈیشل ریمانڈ حاصل کیا تھا
درخواست گزار نے استدعا کی کہ میرا بیٹا سی ٹی ڈی کے زیر حراست جوڈیشل ریمانڈ میں تھا اور جعلی پولیس مقابلے میں تین دیگر افراد کے ہمراہ قتل کر دیا گیا، لہٰذا سی ٹی ڈی کے ریجنل آفیسر، تفتیشی افسر، ایس ای او اور لاک اپ انچارج کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے
ایف آئی آر میں سی ٹی ڈی کے ریجنل آفیسر، ایس ایچ او، تفتیشی آفیسر اور انچارج لاک اپ کو نامزد کیا گیا ہے
جبکہ بلوچستان حکومت نے معاملے کی تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے
محکمہ داخلہ بلوچستان نے بالاچ مولا بخش کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات کے لیے تشکیل کردہ پانچ رکنی فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کمیٹی کے سربراہ سیکریٹری فشریز عمران گچکی کو تبدیل کرتے ہوئے سیکریٹری بلدیات نور احمد پرکانی کو سربراہ مقرر کیا ہے
نوٹیفکیشن کے مطابق کمیٹی میں ڈی آئی جی کوئٹہ، ڈپٹی کمشنر کیچ، ایس ایس پی گوادر اور لواحقین کی تجویز پر کسی ایک شخص کو رکن نامزد کیا گیا ہے
واضح رہے کہ مقدمے کے اندراج کے لیے تربت میں تیرہ روز تک دھرنا دیا گیا تھا۔ دھرنے کے شرکا کی جانب سے حکومت کے سامنے چارٹر آف ڈیمانڈ رکھتے ہوئے مطالبہ کیا گیا تھا کہ سی ٹی ڈی کو غیر مسلح کیا جائے اور جعلی این کاﺅنٹرز کے نام پر لاپتا افراد کا قتل عام بند کیا جائے
اس کے علاوہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ لوگوں کو لاپتا کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، تمام لاپتا افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے اور تربت کے مبینہ جعلی این کاﺅنٹر میں شامل سی ٹی ڈی مکران کے ریجنل آفیسر سمیت ان کی ٹیم کو معطل کیا جائے
بعد میں مقدمہ درج نہ ہونے اور دیگر مطالبات نہ مانے جانے پر تربت سے کوئٹہ کے لیے لانگ مارچ شروع کیا گیا
دھرنے کے شرکا نے تربت سے لانگ مارچ کا آغاز کرتے ہوئے پہلا پڑاؤ ضلع پنجگور میں کیا
جمعرات کو لوگوں کی بڑی تعداد، جن میں خواتین اور بچے شامل تھے، جاوید چوک دھرنا گاہ میں جمع ہوئے، جہاں احتجاجی ریلی نکالی گئی
تربت سے کوئٹہ کے لیے روانہ ہونے والے لانگ مارچ کے شرکا کو انتظامیہ نے کنٹینر لگا کر خضدار کے مقام پر روک دیا تھا
احتجاجی دھرنا اور ریلی کی قیادت بلوچستان یکجہتی کونسل کی خواتین رہنما کر رہی ہیں، جبکہ ریلی میں شریک سول سوسائٹی تربت کے چیئرمین گلزار دوست بلوچ نے بتایا کہ دھرنے کے 13واں دن دھرنا ختم کر کے 5 دسمبر کو کوئٹہ کی جانب روانہ ہوئے اور پنجگور میں ایک دن اور ایک رات قیام کیا
انہوں نے بتایا کہ پنجگور میں رجسٹریشن کا عمل مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک احتجاجی ریلی اور جلسہ منعقد ہوا، جس کے بعد نال کی جانب روانہ ہوئے، اس دوران ریلی جن جن علاقوں سے گزرتی رہی، وہاں انٹرنیٹ سروس کو معطل رکھا گیا اور آج (ہفتہ) ہم خضدار پہنچے جہاں کنٹینر لگا کرایک بار پھر ہمیں روکا گیا
گلزار دوست نے گزشتہ روز بتایا کہ آج احتجاجی دھرنے اور ریلی کا 17واں روز ہے اور جس جس علاقے اور قصبوں سے ہم گزرتے ہیں ہمارا شاندار استقبال کر کے بالاچ بلوچ کی فیملی اور شرکا سے یکجہتی کا اظہار کیا جاتا ہے اور ہم ایک روز بعد کوئٹہ کے لیے دوبارہ روانہ ہوں گے
جمعرات کو کراچی پریس کلب کے باہر بھی اسی سلسلے میں ایک احتجاجی مظاہرہ ہوا تھا
دوسری جانب صوبائی نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ بالاچ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے۔ ان کے بقول ”جس شخص کے لیے لانگ مارچ کیا جا رہا ہے، اس نے خود گیارہ دہشت گرد حملوں کا اعتراف کیا“
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی سپورٹ سمجھ سے بالاتر ہے اور دہشت گردوں کی سپورٹ کرنے والے ان کے سہولت کار ہیں اور دہشت گردوں کے سہولت کار بھی دہشت گرد ہوتے ہیں
جان اچکزئی نے کہا کہ لواحقین کے مطالبے پر تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی اور اب ایف آئی آر بھی درج ہو گئی
قبل ازیں کوئٹہ میں گزشتہ روز ایک نیوز کانفرنس میں بھی نگران وزیر اطلاعات نے کہا کہ ”ریاست کی شفقت کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔“