پاکستان پیپلز پارٹی نے بھٹو قتل کیس کے صدارتی ریفرنس کی سماعت کو براہِ راست نشر کرنے کا مطالبہ کیا ہے
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کے مقدمے پر صدارتی ریفرنس گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ 12 دسمبر کو ذوالفقار علی بھٹو کیس کی سماعت کرے گا
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کے معاملے میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کیس کی لائیو ٹیلی کاسٹ کے لیے سپریم کورٹ میں باقاعدہ درخواست دائر کی ہے
درخواست، جو بلاول بھٹو کی جانب سے ان کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دائر کی، میں استدعا کی گئی ہے کہ صدارتی ریفرنس میرے والد آصف زرداری کی جانب سے دائر کیا گیا، لہٰذا کیس کی سماعت براہ راست دکھائی جائے۔ عدالتی نظام پر لگے اس دھبے کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے ریفرنس کی کارروائی براہ راست دکھائی جائے
بلاول بھٹو کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ ذوالفقار بھٹو کو ایک قتل کی سازش کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی، ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دے دی گئی
موقف اپنایا گیا کہ بھٹو نے تمام عمر قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کی، بھٹو کو پھانسی دینا پورے عدالتی نظام پر دھبہ ہے، عدالتی کارروائی پورے پاکستان کو دیکھنی چاہیے تاکہ شفافیت آئے
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کُنڈی نے بھی اپنے ایک وڈیو بیان میں سپریم کورٹ سے یہ اپیل اور مطالبہ کیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کا ٹرائل لائیو دکھایا جائے
اُن کا کہنا تھا ”اس سے پہلے بھی ایک کیس لائیو دکھایا گیا تھا تو ہمارا مطالبہ ہے ذوالفقار علی بھٹو کے کیس کو بھی لائیو نشر کیا جائے“
فیصل کریم کُنڈی نے اپنے وڈیو بیان میں کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو اُس وقت کے ڈکٹیٹر نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت 4 اپریل 1979 کو پھانسی دلوائی تھی
اُنہوں نے کہا ”آصف علی زرداری جب پاکستان کے صدر تھے، تو انہوں نے 4 اپریل 2010 کو صدارتی ریفرنس بھیجا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا ہے، اس کا ٹرائل ہونا چاہیے، سالوں کی جدوجہد کہ بعد اب سپریم کورٹ نے کیس لگایا ہے اور منگل کو ذوالفقار علی بھٹو کا کیس سنا جائے گا“
فیصل کنڈی کا کہنا تھا ”منگل کو پیپلزپارٹی اپنے وکلا کے ساتھ سپریم کورٹ میں ہوں گے تا کہ دنیا کو بتایا جائے ذوالفقار علی بھٹو کا قتل کیسے ہوا“
یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپریل 2011 میں مذکورہ صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا
ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اب تک سپریم کورٹ میں 6 سماعتیں ہو چکی ہیں
صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو جبکہ آخری سماعت 12 نومبر 2012 کو ہوئی تھی
صدارتی ریفرنس پر پہلی 5 سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کیں
صدارتی ریفرنس پر آخری سماعت 9 رکنی لارجر بینچ نے کی تھی۔ اس آخری ساعت کے آٹھ چیف جسٹس صاحبان اپنی ملازمت کی مدت پوری کر چکے ہیں اور کسی نے بھی اس صدارتی ریفرنس کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا
سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پانچ سوالات پر مبنی ہے۔ صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا؟
دوسرا سوال: کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟
تیسرا سوال: کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟
چوتھا سوال: ہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟
جبکہ پانچویں سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟