تریسٹھ سالہ حکیمہ عُمر، ان چند ماہی گیر خواتین میں سے ایک ہیں، جو کراچی کے ساحل پر بحیرہ عرب سے مچھلیوں کا شکار کرتی ہیں
حکیمہ گزشتہ چالیس برس سے ہر صبح گھر سے اپنی ہلکی پھلکی کشتی سر پر اٹھا کر نکلتی ہیں اور خستہ حال جیٹی کی طرف چل پڑتی ہیں
اگرچہ ان کی کشتی چھوٹی سی ہی ہے، لیکن مشقت بھری زندگی نے انہیں اس کشتی کے ذریعے بھی سمندر سے نپٹنا سکھا دیا ہے
وہ ہر صبح سمندر کا رخ کرتی ہیں اور وہاں پہنچ کر اپنی ناتواں کشتی کو پانی میں ڈال کر اسے کھیتی ہوئی، گہرے سمندر میں نکل جاتی ہیں، جہاں وہ بڑی مہارت سے جال کو پانی میں پھینکتی ہیں
ممکن ہے وہ ان سارے جھنجھٹوں سے آزاد، ایک خاتون خانہ ہوتیں، لیکن زندگی کب ہماری توقعات کی ڈگر پر چلتی ہے
حکیمہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا، جس نے سمندر سے ان کا ایک اٹوٹ رشتہ قائم کر دیا
تین دہائیاں قبل جب ان کے شوہر گردوں کے عارضے کی وجہ سے شدید بیمار پڑے تو چھ بچوں کی ماں حکیمہ نے خاندان کی زمہ داری سنبھالی اور گھر کی واحد کفیل بننے کا بِیڑا اٹھایا
انسان سرکاری نوکری سے ساٹھ سال میں رٹائرڈ ہو جاتا ہے، لیکن حکیمہ کام سے رٹائرمینٹ لینا افورڈ نہیں کر سکتیں
پاپی پیٹ کی ضروریات ایک گھریلو خاتون کو گہرے سمندر میں اپنی کمزور سی کشتی کھینے پر آمادہ رکھتی ہیں
آج عمر کے آخری حصے میں یہ محض ان کی قوت ارادی اور سمندر سے محبت ہی ہے، جو انہیں خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے صبح سے شام تک مچھلیاں پکڑ کر گھر لانے پر مجبور کرتی ہے
یہ بھی ان کی چار دہائیوں میں ایسا ہی ایک دن ہے، جب وہ مچھلی کے شکار پر نکلی ہیں
کراچی کے ساحل سے کئی میل دور کشتی لنگر انداز کر کے حکیمہ بتاتی ہیں ”مجھے دریا اور سمندر سے محبت ہے جو ختم نہیں ہوتی“
وہ کہتی ہیں ”میرے بچے مجھے گھر پر رہنے کے لیے کہتے ہیں، کیوں کہ میں ایک بوڑھی عورت ہوں۔۔ لیکن میں بچپن سے یہ کام کر رہی ہوں، اس لیے میں آرام سے نہیں بیٹھ سکتی“
حکیمہ کو اب اس مشکل اور مشقت بھرے کام سے کوئی شکوہ نہیں ہے، ”میں اس کام سے بہت لطف اندوز ہوتی ہوں۔ میں مچھلی اور کیکڑے پکڑتی ہوں اور میں اس کام کا انتظار کرتی ہوں“
یہاں تک کہ بارش طوفان اور سمندر میں اونچی لہریں بھی ان کو مچھلیاں پکڑنے سے نہیں روک سکتیں۔ وہ بڑے وثوق سے کہتی ہیں ”میں درخت کی شاخ پر بیٹھ کر مچھلیاں پکڑ لوں گی“
حکیمہ نے گزشتہ روز کی بپتا سناتے ہوئے بتایا ”میں نے جو مچھلیاں پکڑیں، ان میں سے کچھ بیچ دیں، جس سے ڈھائی ہزار روپے تک آمدن ہوئی۔ باقی بچ جانے والی مچھلیاں گھر کے لوگوں کے لیے لے گئی“
حکیمہ بتاتی ہیں ”اگر میں سمندر میں نہیں جاتی اور مچھلی نہیں پکڑتی تو ہم گھر پر صرف سادہ روٹی کھاتے ہیں۔ جب مچھلی مہنگی ہو جاتی ہے تو ہم اسے کھانے اور بیچنے کے لیے نہیں خرید سکتے“
وہ کہتی ہیں ”اگر میں خود جا کر مچھلی پکڑوں تو میں کھا بھی سکتی ہوں اور بیچ بھی سکتی ہوں۔ میں نے بھی کچھ قرضہ ادا کرنا ہے، اس لیے میں صرف مچھلی پکڑ کر ہی قرضہ اتار سکتی ہوں“
ماحولیاتی آلودگی نے حکیمہ کے لیے مچھلی کے شکار کو مشکل بنا دیا ہے، گئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتی ہیں ”ماضی میں مچھلی پکڑنا بہت آسان ہوا کرتا تھا، لیکن کراچی کی دو بندرگاہوں سے فضلے اور تیل کے اخراج نے حالیہ برسوں میں آبی حیات اور پاکستانی ماہی گیروں کے ذریعہ معاش کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔“
وہ کہتی ہیں ”آپ ماضی میں اپنے گھر کے قریب کے پانیوں میں مچھلیاں پکڑ سکتے تھے لیکن اب آپ کو گہرے پانی میں مچھلی پکڑنے کے لیے میلوں کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے اور آلودگی اور گندے پانی کی وجہ سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے“
بڑے بحری جہازوں کے گزرنے سے حکیمہ جیسے ماہی گیروں کا کام بھی مشکل ہو جاتا ہے، جو ہلکی کشتیاں استعمال کرتے ہیں۔ ”جب بھی کوئی جہاز گزرتا ہے لہریں اور پانی کا بہاؤ بلند ہو جاتے ہیں اور مجھے ساحل کی طرف جانا پڑتا ہے۔۔ جب بھی میں کسی جہاز کو دیکھتی ہوں، میں ساحل کی طرف لوٹ جاتی ہوں اور گہرے پانیوں میں تب واپس جاتی ہوں، جب جہاز گزر جاتا ہے اور لہریں پرسکون ہو جاتی ہیں“
حکیمہ نے بتایا ”میں کئی بار اپنی کشتی سے گر گئی اور مجھے تیر کر واپس جانا پڑا۔۔ کوئی بھی میری مدد کے لیے نہیں آیا۔۔“
وہ بتاتی ہیں ”دراصل میں کسی انسان کی مدد سے ایسا کرنے کے قابل نہیں ہوں۔۔ بلکہ اللہ مدد کرتا ہے اور ایسا ہی چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں سخت محنت کرنے کے قابل ہوں“
حکیمہ کے شوہر عمر ہارون نے، جنہیں گردے کی شدید بیماری ہے اور وہ گھر پر رہتے ہیں، کہا کہ وہ اپنی بیوی کی ہمت اور خاندان کے لیے ان کی محبت کے معترف ہیں۔
ہارون نے مسکراتے ہوئے کہتے ہیں ”پہلے میں کماتا اور وہ گھر میں کام کرتی تھیں۔ اب میں گھر میں کام کرتا ہوں اور وہ کماتی ہیں۔“
زندگی مشکل ہے۔۔ لیکن مشکل زندگی کی یہی مشکلات زندگی گزارنا بھی سکھا دیتی ہیں۔۔ حکیمہ اور عمر نے بھی زندگی کے اس فلسفے کو سمجھ لیا ہے۔۔ انہوں نے مشکلات کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور دنیا کے سمندر میں اپنی زندگی کی کشتی کو ہمت سے کھہ رہے ہیں۔۔