اگر ’آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت‘ کے توریتی اصول پر ہی انتقام لیا جاتا تو بھی بارہ سو کے بدلے بارہ سو جانوں کا کفارہ بنتا ہے۔۔ مگر جب نشہ ہی طاقت کا ہو اور باز پرس سے مکمل چھوٹ بھی ہو اور مقصد بدلے کے بجائے مکمل نسلی بیخ کُنی ہو اور غصہ کھوپڑیوں کے مینار بنائے بغیر اترنا محال ہو تو تمام الہامی احکامات بھی دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
یقین نہ آئے تو عصرِ حاضر کے چنگیزوں اور ہٹلروں کے گُرو ہنری کسنجر کا تصدیقی قول سن لیجیے کہ ’طاقت کا نشہ قوتِ مردانہ سے بھی زیادہ سکون آور ہے۔‘
بارہ سو جانوں کو اٹھارہ ہزار انسانوں کے قتل پر تقسیم کر کے دیکھ لیں۔ فی جان کا بدلہ پندرہ لاشیں بنتی ہیں اور ابھی یہ خونی جمع ضرب تفریق مسلسل جاری ہے۔ لاشیں اس قدر گرتی چلی جا رہی ہیں کہ تخمینے کا بھی سانس پھول رہا ہے۔
نازیوں کی ’فائنل سلوشن‘ والی تھیوری اس کے سوا کیا تھی کہ ایک پوری کی پوری مخصوص نسل ہی تمام سیاسی، اقتصادی و سماجی خرابیوں کی جڑ ہے، لہٰذا سزا بھی اجتماعی بنتی ہے۔
وہ بوڑھا بھی قصور وار ہے جو یہ مطعون نسل بڑھانے کا ذمہ دار ہے۔ وہ عورت بھی خطا وار ہے، جس نے اس بچے کو جنا کہ جو ہوش سنبھالتے ہی اس سزا وار گروہ کے مزید وارث پیدا کرے گا۔ لہٰذا ان سب کا ایک ہی علاج ہے، گیس چیمبرز۔۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔۔ مگر بانسری مکمل نہ بج پائی۔
سربوں نے بوسنائیوں پر یہی فارمولا آزمانے کی کوشش کی۔ روانڈا کے ہوتوؤں نے بھی تتسیوں کا حتمی علاج (فائنل سلوشن) کرنے کی کوشش کی، مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔
جدید لیبارٹری فلسطین ہے، اوریجنل فائنل سلوشن سے بچ نکلنے والوں کے ورثا نے اس نظریے میں وہ وہ جدت کاری کی کہ نسل کُشی کی سائنس کو آرٹ میں بدل دیا۔
اوریجنل فائنل سلوشن میں نازی حکام فیصلہ کرتے تھے کہ کسے زندہ رکھنا ہے، کسے مارنا ہے۔ آج موت اور زندگی کے فیصلے اے آئی (آرٹیفشل انٹیلیجینس) کر رہی ہے۔ فائدہ یہ ہے کہ صنعتی پیمانے پر نسل کشی میں جتنا وقت پہلے لگتا تھا، اب اسی وقت کے دسویں حصے میں کام ہو جاتا ہے۔
پہلے والوں کے پیشِ نظر یہ خدشہ نہیں تھا کہ عالمی ردِعمل کیا ہوگا، دنیا کیا کہے گی، لہٰذا نسل کُشی کو عالمی ضمیر کے لیے زود ہضم بنانا اتنا اہم نہیں سمجھا جاتا تھا۔
اب چونکہ نسل کشی کو سوشل میڈیا کا بدتمیز چیلنج درپیش ہے، لہٰذا ایک سلیقہ مند پروپیگنڈا ڈھانچے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ پہلے کے برعکس آج کی جنگ بھی دو محاذی ہے، زمینی محاذ اور پروپیگنڈے کا محاذ۔ مطلوبہ کامیابی کے لیے دونوں کو بیک وقت فعال رکھنا پڑتا ہے۔
محمد حنیف کا کالم: اسرائیل کے بم اور فلسطین کے ایک شاعر اور استاد کا مارکر
مثال کے طور پر پہلے ان فلسطینیوں کے وجود سے ہی انکار کر دو۔ دنیا نہ مانے تو حرف، صوت اور تصویر کی پوری طاقت لگا کے ثابت کرنے کی کوشش کرو کہ یہ دیکھنے میں تو انسان لگتے ہیں، مگر دراصل یہ دو ٹانگوں پر چلنے والے نیم جانور ہیں۔ ان کا دماغ بیل کا سا ہے، ان کا مرنا جینا اتنا ہی اہم ہے، جتنا کسی بھیڑ یا بھیڑیے کا۔۔
نیز یہ کہ جانور بھلے دو ٹانگوں پر چلے یا چار پر، شعور سے عاری ہوتا ہے لہٰذا اس کی تکلیف بھی انسانی معیار پر پوری نہیں اترتی۔ چنانچہ جب بھی وہ خود پر ہونے والی زیادتی کے ردِ عمل میں کبھی سینگ مارے یا دُلتّی جھاڑنے کی کوشش کرے یا باربرداری کے قابل نہ رہے تو اسے بیابان کی جانب ہنکال دو، بیچ دو یا مار ڈالو۔
جدید نسل کُشی مرحلہ وار ہوتی ہے، یعنی کسی بھی تاریخی، سماجی یا قانونی بہانے سے ہدف کمیونٹی سے چھت اور پاؤں تلے کی زمین چھین لو، معاشی سکت مفلوج کر دو، اندر کا سکون اغوا کر لو۔ گھر سے باہر نکلے تو خود کو ایسے دیدہ و نادیدہ محاصرے میں محسوس کرے کہ زمین اور فضا بھی دشمن لگے۔
ہدفیہ نسل کی عزتِ نفس کو زبانی و عملاً مسلسل کچلتے رہو، کسمسانے کی جرأت کرے تو جیل میں بھر دو، چیختے ہوئے سڑک پر آئے تو ٹھنڈا کرنے کے لیے سر کا نشانہ لو۔ بالکل ہی آپے سے باہر ہو کے رسیاں تڑانے لگے اور عالمِ غیض میں حملہ کر دے تو نسل ہی مٹا دو۔ دھیرے دھیرے قسط وار۔۔ مبادا باقی دنیا کا ضمیر نہ جاگ پڑے۔
اور جاگ بھی پڑے تو سوکھے منھ سے کہہ دو ’آپ کو ان نیم انسانوں کی بہت تکلیف ہے نا، ایسا کرو آپ انہیں اپنے ہاں لے جا کے رکھ لو۔‘ ظاہر ہے کہ یہ فارمولا یا فائنل سلوشن سے بچنے کا واحد حل کوئی نہیں مانے گا۔۔ لہٰذا اپنا نسل کُش کام پوری توجہ سے جاری رکھو۔
چلیں امریکی انتظامیہ اور اس کے مغربی اتحادی تو ہیں ہی گھٹیا۔۔ آپ کیا ہیں؟ اپنا بھی تو تعارف کروایے حضور۔۔۔
بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)