توہینِ عدالت: عمران خان پر 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کی جائے گی: اسلام آباد ہائی کورٹ

ویب ڈیسک

جمعرات کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان توہین عدالت کیس میں آج عدالت نے جمع کرایا گیا جواب ’غیر تسلی بخش‘ قرار دے دیا۔ عمران خان پر فرد جرم 22 ستمبر کو عائد کی جائے گی

عدالت کی جانب سے قرار دیا گیا کہ جواب میں ’مشروط معافی کے الفاظ نہیں بلکہ ادا کیے گئے الفاظ کا جواز پیش کیا گیا ہے‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’پچھلی بار بھی آپ کو سمجھایا تھا کہ جرم بہت سنگین نوعیت کا ہے لیکن آپ کو اس کی سنگینی کا احساس نہیں ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا ’توہین عدالت تین قسم ہوتی ہے جسے فردوس عاشق اعوان کیس میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک جوڈییشل توہین ہوتی ہے ایک سول توہین اور ایک کرمنل توہین ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دانیال عزیز اور طلال چوہدری کرمنل توہین نہیں تھی۔ ان کے خلاف عدالت کو سکینڈلائز کرنے کا معاملہ تھا‘

چیف جسٹس نے کہا ’سب سے سیریس کرمنل توہین ہوتی ہے اس میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا ایسا کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔ کرمنل توہین میں ارادہ معنی نہیں رکھتا۔ عمران خان کا کیس کرمنل توہین کے زمرے میں آتا ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا ’بغاوت اور اکسانا ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ آپ کا جواب حتمی جواب ہے اور یہ تفصیلی جواب ہے۔‘

عدالت میں کیا ہوا؟

جمعرات کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان توہین عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ دو بج کر پینتالیس منٹ پر ججز کمرہ عدالت تشریف لائے۔ عمران خان سمیت تمام افراد ججز کے احترام میں کھڑے ہوئے

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے باقی افراد کو بیٹھنے کا کہا اور عمران خان کے وکیل حامد خان کو دلائل کا آغاز کرنے کا کہا۔ حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا ’عدالت کہے تو عدالت کے سامنے پڑھ کر وضاحت کر دیتا ہوں۔‘ حامد خان نے توہین عدالت کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے دو فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’طلال چوہدری اور دانیال عزیز کیسز عمران خان کیس سے بہت مختلف ہیں۔‘

عدالت نے توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی اور اس متعلقہ رولز حامد خان کو پڑھنے کو کہا۔ حامد خان نے حوالہ جات پڑھے جس میں لکھا تھا کہ ’کرمنل توہین عدالت کیس میں وضاحت نہیں بلکہ غیر مشروط معافی طلب کی جاتی ہے غیر مشروط معافی ملزم کا دفاع نہیں ہے بلکہ یہ اس کا اعتراف ہے کہ اس سے غلطی ہوئی ہے اور وہ معافی کا طلب گار ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’حامد صاحب پچھلی بار بھی آپ کو سمجھایا تھا کہ ایک شخص کا قد کاٹھ بہت اہمیت کا حامل ہے جب وہ کوئی بیان دے۔ معاشرہ بہت تقسیم کا شکار ہے اگر آپ کے فالورز اس جج کو بے عزت کریں تو پھر کون ذمہ دار ہے؟ ضلعی عدالتیں وہ سٹیٹس نہیں رکھتیں جو اعلی عدالتیں کو حاصل ہے۔ آپ سے کہا تھا کہ ضلعی عدالتیں اور اعلی عدالتیں ریڈ لائن ہیں۔ ہم نے قانون کے مطابق چلنا ہے۔‘

اس دوران عمران خان ماتھے پہ ہاتھ رکھے چیف جسٹس کے ریمارکس سنتے رہے۔ کبھی ایک ہاتھ کبھی دوسرا ہاتھ ماتھے پہ سوچنے کے انداز میں رکھتے رہے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس سُن کر عمران خان کی باڈی لینگویج سے وہ کچھ بے چین محسوس ہوئے

چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل حامد خان کو شوکاز نوٹس کا جواب پڑھنے کا کہا

حامدخان نے جواب پڑھا اور کہا ’شہباز گل پر ہونے والے تشدد کی وجہ سے پریشان تھا۔‘ ابھی اتنا ہی پڑھا تھا کہ چیف جسٹس نے حامد خان کو روک دیا کہ ’آپ نے تشدد کے ساتھ مبینہ کا لفظ کیوں نہیں لکھا جبکہ معاملہ ابھی متعلقہ عدالت میں زیر سماعت تھا۔ اتنے بڑے قد کاٹھ والا لیڈر اپنے فالوررز کو کیا بتا رہے ہیں؟ ہمیں یہ بتا دیں کہ یہ فیصلے جلسے میں ہوں گے یا عدالتوں میں ہوں گے؟‘

چیف جسٹس نے کہا ’ضلعی عدالتوں کے جج عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ سے زیادہ اہم ہیں کیونکہ وہ زیادہ مشکل حالات میں کام کرتے ہیں۔ کیا یہ الفاط سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کے بارے میں ہوتے تو کیا پھر بھی یہی جواب جمع کروایا جاتا؟‘

حامد خان نے جواب آگے پڑھنا شروع کیا تو چیف کسٹس نے اگلے جملے پہ پھر روک لیا جب انہوں نے کہا ’خاتون جج کے اگر احساسات مجروح ہوئے ہیں۔‘ چیف جسٹس نے ٹوکتے ہوئے کہا کہ ’یہ معاملہ جج کے احساسات کا نہیں ہے۔ ججوں کے احساسات نہیں ہوتے۔ یہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے۔ جب اکسایا جائے یا ایسا بیان جائے تو فالوورز کی جانب سے اس جج کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ وہ لاہور موٹر وے پہ جائیں راستے میں اُن کو کوئی نقصان پہنچا دے پھر؟ یہی بات عدالت آپ کو گزشتہ سماعت پر بھی سمجھانے کی کوشش کی تھی۔‘

حامد خان نے جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’کبھی ایسا ہوتا ہے لفظ کو زیادہ سنجیدہ لیا جاتا ہے ہو سکتا ہے بولنے والے نے اتنا سنجیدگی سے نہ کہا ہو؟‘

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ’ایک سیاسی رہنما عوامی اجتماع میں کھڑے ہو کر کیسے کہہ سکتا ہے کہ جج کے خلاف کارروائی کریں گے؟ قانونی کارروائی کا طریقہ ہوتا ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’قانون سے لاعلمی رکھنا جرم کا جواز نہیں ہو سکتا۔ یہ بھول جائیں کہ خاتون جج کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔ معاملہ جذبات یا احساسات کا نہیں ہے۔‘

حامد خان نے کہا کہ ’عدالت نے کہا ہے کہ خاتون جج کو نقصان پہنچ سکتا تھا تو میں عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ عمران خان نے کوئی دھمکی نہیں دی شاید محسوس زیادہ کرلی گئی۔‘

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ’جب سیاسی جماعت کا لیڈر دوبارہ اجتماع سے خطاب کرتا ہے تو وہ جواز پیش کرتے ہیں، وہ اپنے الفاظ واپس لے سکتے تھے، لیکن انہوں نے گزشتہ بیان کو ہی دہرایا تھا۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو تقریر ہم کمرہ عدالت میں چلا سکتے ہیں۔‘

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ’عمران خان نے جب اپنے کہے الفاظ کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے یہ سب شہباز گل کیس کی وجہ سے کہا تھا۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ سے اس لیے کہا تھا کہ جب آپ سپریم کورٹ کے فیصلے پڑھ لیں، آپ نے اس وقت جواب میں لکھا کہ اب سے آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ اس وقت ضلعی عدالتوں کے بارے میں شرمناک کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں آپ کو خبردار کیا تھا۔‘

چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل سے کہا کہ ’اس لیے آپ سے کہا تھا کہ محتاط رہیں لیکن اُسی لہجے انہی الفاظ میں دوبارہ بات کی گئی۔ آپ کو بار بار سمجھا رہے ہیں کہ یہ بہت سنگین توہین ہے۔‘

حامد خان نے کہا کہ ’دوسرے جواب میں ہم نے شوکاز نوٹس اور بیان کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ ’شرمناک کا لفظ ہمارے بارے میں کہتے کہ تو ہم کبھی بھی توہین عدالت کی کارروائی شروع نہ کرتے۔‘

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ’کیا اگر کوئی عوامی اجتماع میں کہے کہ میں آپ کے خلاف ایکشن لوں گا اور آپ کو شرم آنی چاہیے تو اس کو کیا کہیں گے۔‘ جسٹس بابر ستار نے مزید کہا کہ ’ان کو تو سمجھ ہی نہیں کہ جو لفظ بیان کیے ہیں ان کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟‘

حامد خان نے کہا کہ ’یہ وضاحت اور حالات وہی شخص بیان کر سکتا ہے جس نے یہ الفاظ ادا کیے ہیں۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ ’جو مدینہ منورہ میں ہوا تھا وہ بھی اشتعال دلانے کا نتیجہ تھا آپ کو بار بار یہی سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سیاسی لیڈر کے الفاظ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ کیا الفاظ استعمال کرے، ہمیں حضورﷺ کی ذات اور فتح مکہ سے سیکھنا چاہیے۔‘

حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالت اگر سمجھتی ہے کہ لہجہ درست نہیں تھا یا الفاظ کا چناؤ درست نہیں تھا۔ یہی الفاظ سپریم کورٹ نے بھی توہین عدالت کے زمرے میں لیے تھے۔ لیکن ہمارے ان الفاظ کا ارادہ منفی نہیں تھا۔‘

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ’جب عمران خان کو علم تھا کہ عدالت میں اپیل فائل ہو گی اس کے باوجود انہوں نے جلسے میں تقریر کر کے اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔‘

چیف جسٹس نے بھی تائید کرتے ہوئے حامد خان سے کہا ’جب اپیل فائل کرنی ہو تو کیا جلسے میں یہ بات کرنی چاہیے تھی؟ یا نظام ختم کر دیں اور سب فیصلے جلسے میں ہی ہوں۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے جن توہین عدالت مقدمات میں سزائیں دیں ان میں جرم کم تھا۔ ہمارے سامنے جوڈیشل اور کریمنل توہین ہے جو بہت حساس معاملہ ہے۔‘

اس دوران عمران خان کچھ مضطرب نظر آئے، پھر ساتھ بیٹھے وکیل سے مشاورت کی

چیف جسٹس نے حامد خان سے کہا ’گزشتہ سماعت پہ آپ کو باربار اس لیے سمجھایا تھا کہ یہ معاملہ سنگین ہے۔ حامد خان نے جواباً کہا کہ عدالتی ہدایت کی روشنی میں ہی جواب تیار کر کے افسوس اور ندامت کے الفاظ شامل کیے ہیں۔‘

عدالتی معاونین کے دلائل

حامد خان نے شوکاز نوٹس ختم کرنے کی استدعا کرتے ہوئے دلائل مکمل کیے

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے توہین عدالت کیس میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’توہین کرنے والے کی نیت اور مقصد بہت اہم ہوتا ہے۔ 2014 میں بھی عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس چلایا گیا تھا، ایسے ہی الزامات تھے، ایسا ہی طریقہ کار تھا لیکن معاف کردیا گیا تھا۔‘

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ’عمران خان نے اپنے جواب میں بیان حلفی نہیں دیا۔ عمران خان کے بیان حلفی کے بغیر جواب کی کوئی حیثیت نہیں۔ سپریم کورٹ نے معاف کیا یہ سمجھتے ہیں بار بار وہی کریں بار بار معافی ہو۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران خان کو اِس بار صرف نوٹس نہیں شوکاز نوٹس ہوا

اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے عدالتی معاونین سے کہا کہ وہ آ کر دلائل دیں

منیر اے ملک نے عدالت میں آ کر دلائل دیتے ہوئے کہا ’الزام ہے کہ خاتون سیشن جج کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی گئی۔ یہ بھی الزام ہے کہ زیر التوا مقدمے پر بھی اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی۔ عدالتیں توہین عدالت کیس میں تحمل اور گریز کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا جو معیار ہے کوئی اس کی ساکھ پر اثرانداز نہیں ہوسکتا۔‘

عدالتی معاون منیر اے ملک نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’الفاظ افسوسناک مگر انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ جو کہا گیا وہ جوش خطابت میں کہا گیا اور جواب میں اُن الفاظ پر ندامت کا اظہار بھی کیا گیا تو میرے خیال میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کر دینی چاہیے۔‘

منیر اے ملک کے دلائل مکمل ہونے کے بعد دوسرے عدالتی معاون مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’مفاد عامہ انصاف کی فراہمی میں ہے۔‘

چیف جسٹس نے عدالتی معاون سے کہا کہ ’کیا یہ درست ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹویٹر اکاؤنٹ معطل کر دیا گیا تھا؟ وہ سٹیٹ جہاں فریڈم آف اسپیچ بھی ہے وہاں بھی یہ ہوا؟ کیونکہ ان کے پیروکار اشتعال دلانے پر سڑکوں پہ نکل آئے اور توڑ پھوڑ کی۔ اس لیے کہتے ہیں کہ لیڈر کے الفاظ فالوررز پر اثرانداز ہوتے ہیں۔‘

عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ ’وہاں توہین عدالت کی کاروائی شروع نہیں کی گئی تھی۔ اس پہ چیف جسٹس نے کہا کہ ’کیا بیان دینے اور اشتعال دلانے میں فرق نہیں ہے؟‘

عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ ’مفاد عامہ انصاف کی فراہمی میں ہے تو اظہار رائے کی آزادی میں بھی۔ امریکہ میں صدر نے عدالتی فیصلے کو بدترین کہا تھا۔ وہاں عدلیہ نے گریز کا مظاہرہ کیا دوسرا راستہ نکالا اور وہ نکالتے ہیں۔ آپ نے خود کہا کہ آزادی اظہارِ رائے پر کوئی قدغن نہیں ہونا چاہیے۔‘

اس پہ چیف جسٹس نے کہا کہ ’لیڈر کا رول معاشرے میں اہم ہے جو معاشرے کو بدل سکتا ہے۔‘

دونوں عدالتی معاونین نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت ختم کرنے کی سفارش کی

جسٹس بابر ستار نے عدالتی معاون مخدوم علی خان سے کہا ’آپ یہاں پہ ضلعی عدلیہ کے وقار کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنی فکر نہیں بلکہ ماتحت عدالتوں کے ججوں کے وقار کا خیال ہے جن کو سیاسی جماعت کا لیڈر جلسے میں للکارتا ہے۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’یہ اگر ہمارے خلاف ہوتی تو ہم اس کارروائی کو ختم کر چکے ہوتے ہم نے تو کبھی اپنے لیے نوٹس بھی نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم صرف اس لیے سُن رہے ہیں کیونکہ یہ ضلعی عدالت کے جج اور اُن کے وقار کے بارے میں ہے۔‘

’میرا مشورہ یہ ہے کہ توہین عدالت کیس کے لیے اس کیس میں بنیاد نہیں ہے۔‘ عدالتی معاون مخدوم علی خان نے بھی توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کی رائے دی اور کہا کہ نوٹس ختم کر دیا جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آپ کیا مشورہ دیتے ہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم عمران خان کی وضاحت تسلیم کر لیں اور کیس ختم کر دیں؟‘

مخدوم علی خان نے عدالت کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالت عمران خان کو مہلت دے اور ندامت اور شرمندگی کے الفاظ کو معافی سمجھا جائے، غیر مشروط معافی کے الفاظ ہونا ضروری نہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ عدالت اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے کارروائی ختم کر دے۔

پاکستان بار کے نمائندے اختر نے بطور عدالتی معاون دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس درست طور پر جاری ہوا۔ عمران خان نے اپنے جواب میں غیر مشروط معافی بھی نہیں مانگی۔ دو مرتبہ جواب داخل کرایا جس میں صرف وضاحتیں دی گئی ہیں۔‘

لگ رہا ہے آج کلبھوشن عدالت آ رہا ہے: عمران خان

گہرے سرمئی رنگ کے شلوار قمیض اور بلیک واسکٹ پہنے عمران خان دو بج کر 32 منٹ پر کمرہ عدالت میں آئے

کمرہ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ حیران ہوں کہ ہائی کورٹ میں اتنی سیکیورٹی لگی ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ کلبھوشن یادیو عدالت آ رہا ہے۔ بعد میں بات کروں گا کوئی غلط ٹکرز ہی نہ چل جائے۔ ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ آج غیر مشروط معافی مانگیں گے؟ تو عمران خان نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ پہلے مطیع اللہ جان سے این او سی لوں گا

جبکہ کمرہ عدالت سے قبل احاطہ عدالت میں عمران خان سے صحافی نے سوال کیا کہ حکومت آپ کو گرفتار کرنے کا پلان بنارہی ہے۔ اس پر عمران خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت بہت دیر سے کوشش کررہی ہے، میں جیل میں جا کر اور زیادہ خطرناک ہوجاؤں گا

عمران خان توہین عدالت کیس کی سماعت سے قبل جیمرز بھی لگا دیے گئے جبکہ احاطہ عدالت اور عدالت کے اطراف پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی۔ چیف جسٹس کی عدالت کے باہر والے حصے پر قناتیں لگائی گئیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close