زرد پتوں کا بن

جاوید قاضی

مجھے نہیں لگتا کہ میں نے اپنے پڑھنے والوں کو بے خبر رکھا ہوگا کہ جس کی بہار یہ ہو اس کی خزاں نہ پوچھ۔ کہ جس طرح ہم چل رہے تھے اس کی منزل مہنگائی کا طوفان ہی تو تھا۔ مہنگائی نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ،وہ ایک الگ بحث ہے، اس میں ہم نہیں پڑتے ،اس مہنگائی نے امریکا میں بائیڈن کو غیر مقبول کردیا ہے

فرانس کے اندر گیس کا شدید بحران ہے۔ برطانیہ، اٹلی، جرمنی وغیرہ۔ وہاں تو افراط زر دہائیوں سے ایک سے دو فیصد رہی ہے، اب جو کورونا کے بعد ان کی معیشت نے پھر سے انگڑائی لی، جس طرح دوسری جنگ عظیم میں ان کی شرح نمو بہت منفی ہوگئی تھی کہ پھر سے جب دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تھی تو ان کی معیشت نہ صرف جنگ کے زمانے میں جو منفی شرح نمو تھی اس کو cover  کیا بلکہ بہت تیزی سے آگے نکلی تو اس کی وجہ سے جو سپلائی چین کے اندر مسائل پیدا ہوئے کہ طلب بڑھ گئی کہ رسد پیچھے رہ گئی، ہمارا ان سے کوئی مقابلہ یا تقاضہ نہیں۔ وہ ،وہ ہیں، ہم، ہم ہیں، وہ ٹھہرے ترقی یافتہ ممالک اور ان کی افراط زر

ہم ٹھہرے ترقی پذیر ہمارا تقابلی تناظر بنے گا ،ہندوستان سے بنگلہ دیش اور سری لنکا سے ۔صرف افراط زر کیوں، جو بھی پیمانہ اٹھا لیجیے فی کس آمدنی ہو، شرح نمو، ڈالر کا بھائو ہو، چینی کی قیمت ، آٹا گھی وغیرہ سب کچھ ۔ ہم نے روپے کی قدر گرائی پھر بھی ہماری امپورٹ، ایکسپورٹ کی نسبت دگنی ہے، بھلا ہو، تارکیں وطن کا جو باہر کماتے ہیں اور اپنے احباب و خاندان کو بھیجتے ہیں، تب جاکے کچھ نہ کچھ ہمارا گذارا ہوتا ہے

ہمارا مسئلہ کیا ہے، جس کی وجہ سے یہ ہوا ہے کہ ہر دو سال کے بعد ہم آئی ایم ایف کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں ، ہر تین سال بعد ہم سعودی عرب سے قرضے پر تیل مانگ رہے ہوتے ہیں،ہم دنیا کی مہنگی ترین بجلی پیدا اور صارفین کو دے رہے ہیں۔ ہمارے جو شرفاء ہے وہ خود اس لوٹ کھسوٹ میں برابر کی شریک ہے۔ یہ وہ شرفاء ہے جو ٹیکس چور بھی ہے جب کہ غریبوں کے پاس، متوسط طبقے کے پاس ٹیکس چوری کرنے کا تصور ہی نہیں وہ سب سے زیادہ ٹیکس جمع کراتا ہے

مہنگائی کیا ہے؟ یہاں یہ مہنگائی اس لیے آتی ہے کہ حکومتindirect taxes لگا لیتی ہے، یہ جو سارے کے سارے ٹیکس جمع ہوتے ہیں یہ indirect taxes ہیں۔ پٹرول پر جو پچھلے جمعہ کو آٹھ روپے بڑھا وہ تو جو petrolium levyوغیرہ یا اس پر sales tax ہے اس کے لگانے سے بڑھے جو کہ آئی ایم ایف کی فرمائش تھی

ہم آئی ایم ایف سے ایک لحاظ سے خوامخواہ ناراض ہیں، آئی ایم ایف صرف یہ کہتا ہے کہ ہم اپنی آمدنی اور اخراجات میں توازن لائیں۔ اب آئی ایم ایف کوئی گاندھی تھوڑا ہے کہ غریب نواز ہو، یہ کام تدریسی حوالے سے ورلڈ بینک یا ایشین بینک کا ہے۔ آئی ایم ایف انتہائی بے رحم اور بالکل ایسا ادارہ ہے جس کا کام دنیا کے سینٹرل بینک والا ہے کہ آپ ان سے ڈالر مانگتے ہیں کہ آپ کے زرمبادلے کے ذخائر کم ہورہے ہوتے ہیں کہ آپ نے امپورٹ زیادہ اور ایکسپورٹ کم کرنی ہوتی ہے جس کی وجہ سے بیلنس آف پے منٹ کے مسائل پیدا ہورہے ہوتے ہیں

ہم ٹھہرے نظریاتی ریاست، ہم نے ڈنکے کی چوٹ پر جنون بیچا، کبھی ہمیں یہ فتح کرنا تھا ، کبھی وہ۔ ہم نے دنیا کے مسلمانوں کی جنگ لڑنی تھی۔ ہماری کرکٹ ٹیم اگر جیت بھی گئی تو ہمارے ایک وزیر صاحب نے ایک دم اس پر سیاست کھیلی اور کہا کہ یہ عالم اسلام کی فتح ہے، اگر یہ فتح عالم اسلام کی ہے تو کیا ، دنیا میں جتنی بھی ترقی کرکے سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے نکل کے جو وہ فتوحات کرکے ہمیں مقروض کرتے جارہے ہیں وہ کون لڑے گا۔ یہ تو بڑا آسان طریقہ ہے کہ چلو ایک چھکا ماردو اور جنگ آپ جیت گئے

ہمارا اتنا بڑا ادارہ جو کرپٹ لوگوں سے پیسے نکلواتا ہے ، ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے 812 ارب روپے کرپٹ لوگوں سے recover کیے اور ریاستی خزانے میں جمع کروائے۔ وزارت خزانہ کے مطابق کل چھ ارب اب تک نیب نے جمع کروائے ہیں۔ ہم نے نیب قوانین میں مزید ترمیم کرکے جو تھوڑا بہت اس کا بھرم تھا وہ بھی ختم کردیا۔ معاملہ یہ ہے کہ اب یہ ملک 42000 ارب روپے کے اندرونی اور بیرونی قرضوں میں پھنسا ہوا ہے۔ ایف بی آر جتنا ٹیکس جمع کرتاہے اتنا ہم قرضوں کی ہر سال اقساط جمع کرواتے ہیں۔اس سارے بحران میں بجائے یہ کہ ہم نکلنے کی حکمت عملی بناتے، ہم اس پرانے ماڈل پر کام کرتے رہے، وہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہو یا افغان پالیسی کے حوالے سے

ہم وہی منجن بیچتے رہے، لیکن کارکردگی صفر۔ خان صاحب این آر اور نہ دیتے دیتے ٹی ایل پی کو تو این آر او دے گئے۔ نہ جانے کون سا رات کے اندھیرے میںمعاہدہ ہوا ،جو ابھی تک عوام کو نہیں دکھایا گیا، ہم دنیا میں تنہا رہ گئے ہیں، خود سعودی عرب اندر سے تبدیل ہورہا ہے، جن کو ہم نظریاتی اعتبار سے اہم سمجھتے تھے ۔ اب ہم دوبارہ ان لوگوں کو منجن بیچنے کے لیے اب ترکی کو اپنا نظریاتی دوست سمجھتے ہیں ۔ ترکی اورپاکستان دونوں پر ایف اے ٹی ایف نے گرے لسٹ لگائی ہوئی ہیں

میری انگلیوں میں لکھنے کی جرات بھی نہیں مگر یہ سچ ہے کہ یہ مہنگائی اب رکے گی نہیں، یہ مہنگائی پاکستان کے اندر سیاسی بحران کی ایک شکل ہے، یہ ملک جب تک ایک بہت بڑی تحریک سے نہیں گذرے گا جب تک ہم بحیثیت قوم ایک صفحے پر نہیں ہونگے کہ ہم صرف اور صرف فلاحی ریاست ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ ہم نے لوگوں کو تعلیم ، صحت، صاف پانی ، روزگار دینا ہے

ہم اپنے انسانی وسائل بہتر کرنے ہیں کہ وہ پاکستان کے لیے معیار کی چیزیں پیدا کریں ،جنھیں ہم ایکسپورٹ کرسکیں جس سے ہم زرمبادلے کما سکیں۔ یہ سب اس آف شور کمپنی والی شرفاء سے نہیں ہوگا، جو آجکل خان صاحب کی پارٹی میں ہیں، کل یہ جنرل مشرف کے ساتھ تھے اور پرسوں یہ جنرل ضیاء الحق کے ساتھ تھے اور ان کے اجداد انگریز سامراج کے ساتھ تھے

اب معاملہ ہے اخراجات کم کرنے کا اور آمدنی بڑھانے کا ہے۔ خان صاحب تو میاں صاحب، زرداری، مشرف سب کو اخراجات بڑھانے میں پیچھے چھوڑ گئے۔ اب معاملہ ہے انسانی وسائل پر خرچ کرنے کا ، ترقیاتی اخراجات بڑھانے کا اور غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنے کا۔ کیوں جرات ہوئی آئی ایم ایف کو یہ کہنے کی کہ پٹرول مہنگا کرو، بجلی کی شرح بڑھائو ، گیس مہنگی کرو۔ سب سے اہم بات، کیوں 1990ع کے بعد اب تک بھارت آئی ایم ایف کے پاس نہیں گیا۔ ہر سال سات سے آٹھ ارب بنگلہ دیش اپنے زرمبادلے کے ذخائر میں اضافہ کرتا ہے

ہماری آزادی یہ ہے کہ جب ہم بیلنس آف پے منٹ پر قابو پالیں، جب یہاں کے سارے شہر، سیالکوٹ کی طرح ایکسپورٹ زیادہ کریں ، زرمبادلے کماکر دیں۔ یہ وطن ہمارا ہے ، ان بھوکے پیاسے ، نہتے لوگوں کا ہے۔ یہ بھوک سے نڈھال جنتا کا ہے، بے روزگار فاقہ کشی کی وبا میں غلطاں لوگوں کا ہے ۔ ہم کب تک ان کو نظریاتی ورد پڑھاتے رہیں گے؟

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close