45 سالہ وزیراں کو حال ہی میں چار سال کی اذیت سے بھرپور زندگی سے بالآخر اس وقت چھٹکارہ ملا جب ان کا فسٹیولا کا کامیاب آپریشن کیا گیا ہے۔ اس فسٹیولا کی وجہ نو عمری کی شادی تھی اور نہ ہی غیر تربیت یافتہ دائی یا سٹاف، بلکہ ایک سرکاری ہسپتال میں زچگی کے دوران وہ اس مرض کا شکار ہوگئیں۔
وزیراں کا تعلق سندھ کے ضلع سجاول کے پسماندہ علاقے جھوک سے ہے۔ بقول ان کے حیدرآباد میں سرکاری ہسپتال میں آپریشن کے ذریعے بیٹے کی پیدائش ہوئی، اس وقت یہ مرض لگ گیا۔ انھیں کچھ بتایا نہیں گیا صرف کہا کہ نسیں اوپر نیچے ہوگئی ہیں لیکن اس کا علاج نہیں کیا صرف نلکیاں نیچے اوپر لگائیں، اس سے اوپر سے پیشاب آرہا تھا اور زخم پڑ گئے۔
’ہم گاؤں لوٹ گئے۔ میرا شوہر غریب کسان ہے علاج کی طاقت نہیں تھی، اس مرض کی وجہ سے کپڑے وغیرہ سارے گیلے ہوجاتے تھے اور انھیں بار بار تبدیل کرنا پڑتا تھا۔ کسی نے کوہی گوٹھ ہسپتال کراچی کا بتایا، یہاں آپریشن کیا گیا اور اب میں ٹھیک ہوں۔‘
ماہرین کے مطابق دورانِ زچگی بچے کی پیدائش میں تاخیر کے دوران پیشاب اور پاخانے کی نالیوں پر دباؤ آتا ہے جس سے دونوں یا ایک میں سوراخ ہوجاتا ہے جس کو فسٹیولا کہا جاتا ہے۔
نو عمری کی شادیوں اور زچگی کے دوران غیر تربیت یافتہ عملے کو فسٹیولا کی ایک بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے۔
آئیٹروجینک فسٹیولا
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے مطابق پاکستان میں صرف 52 فیصد خواتین کو زچگی کے دوران تربیت یافتہ عملے تک رسائی ملتی ہے لیکن کبھی کبھار تربیت یافتہ ڈاکٹر اور سٹاف بھی غلطی کر دیتا ہے جس سے آئیٹروجینک فسٹیولا ہوجاتا ہے۔
فلاحی ادارے کوہی گوٹھ ہسپتال کے صدر ڈاکٹر ٹیپو سلطان کا کہنا ہے کہ آئیٹروجینک فسٹیولا یہ ہوتا جب بڑے بڑے سرجن سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں مختلف مسائل کے لیے پیٹ کا آپریشن کرتے ہیں۔ زچگی کے آپریشن کے لیے بھی یا عورتوں کے امراض کے دوسرے سلسلے میں، ان آپریشنز کے دوران غلطی سے یا ناتجربے کاری کی وجہ سے وہ بھی فسٹیولا بنادیتے ہیں۔
’وہ جو اصل آپریشن تھا وہ ہوگیا، لیکن مریض جب اچھا ہوگیا تو پتہ لگا ایک سوراخ ہے جس سے پیشاب گر رہا ہے۔‘
ڈاکٹر فوزیہ چانڈیو شہید بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ میں یورولوجسٹ ہیں اور وہاں فسٹیولا شعبے کی انچارج بھی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس تقریباً 40 فیصد آئیٹروجینک فسٹیولا کی مریض آرہی ہیں، ان میں زیادہ تر جو کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں وہ سی سیکشن کے ہیں جس میں پیٹ کے چیرا کے ذریعے بچے کی پیدائش ہوتی ہے، جو طبی تعلیم یافتہ لوگ کر رہے ہیں۔
بقول ان کے اس وقت زچگی میں سی سیکشن کی شرح 60 سے 70 فیصد ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے 22 فیصد کی سفارش ہے۔
نو عمری کی شادی اور فیسٹولا
کوہی گوٹھ ہسپتال کے بانی ڈاکٹر شیر شاہ سید کا شمار فسٹیولا کے ابتدائی ماہرین میں ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی نو عمری میں شادی ہوجاتی ہے یعنی 11 سے 12 سال کے قریب، اس وقت ان کا جسم ابھی بچے کی تولید کے لیے تیار نہیں ہوتا اور جب زچگی کا عمل شروع ہوتا ہے تو بچہ پھنس جاتا ہے۔
’گاؤں دیہات میں یہ بچیاں چار چار دن تک دردِ زہ میں مبتلا رہتی ہیں۔ بچہ مر جاتا ہے اور اس دوران بچے کا سر پیشاب اور پاخانے کی تھیلی پر دباؤ ڈالتا رہتا ہے، نتیجے میں دونوں تھیلیوں میں یا کسی ایک میں سوراخ ہوجاتا ہے۔ مرجانے کے بعد بچہ تو نکل آتا ہے لیکن جو سوراخ بن جاتا ہے، اس میں سے پیشاب یا پاخانہ یا دونوں مسلسل رستے رہتے ہیں۔‘
اس کے برعکس ڈاکٹر فوزیہ چانڈیو کا کہنا ہے کہ اب اس رجحان میں تبدیلی آرہی ہے۔ پہلے سب سے بڑی وجہ بچے کا پھنس جانا تھی۔ جو روایتی دائیاں یا عملہ ہے ان میں تربیت کا فقدان تھا، جس کے نتیجے میں بچہ پھنس جاتا اور مریض دو دو روز سفر کر کے کسی بڑے یا بہتر ہسپتال پہنچتی تھیں، لیکن اب اس نوعیت کے فسٹیولا کے کیسز بہت کم آرہے ہیں، اور سرجیکل پیچیدگیوں والے فسٹیولا کے مریض زیادہ آرہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’سی سکیشن جتنا زیادہ بڑھ رہا ہے، اس سے خدشہ ہے کہ صورتحال میں خرابی پیدا ہوگی۔ گلی محلوں میں جو میڈیکل سینٹر کھلے ہوئے ہیں، ان میں جونیئر ڈاکٹر بیٹھے ہیں جن کے پاس تجربے اور مہارت کا فقدان ہے۔ اس کے علاوہ اب صرف وزائیکو وجائنل فسٹیولا نہیں ہے جس سے وجائنا اور مثانے کے درمیان سوراخ ہو جاتا ہے، اب ایسے مریض آرہے کہ بچہ دانی اور مثانے کے درمیان میں سوراخ ہوگیا ہے یا جو گردے سے پیشاب لے کر مثانے میں آنے والی نالیوں کو سرجری کے دوران کٹ لگ جاتا ہے اور فسٹیولا بن جاتا ہے۔‘
کوہی گوٹھ ہسپتال کے صدر ڈاکٹر ٹیپو سلطان کا کہنا ہے کہ زچگی کا جو مرحلہ ہوتا ہے وہ صرف چند گھنٹے چلتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ مرحلہ عام طور پر چار پانچ گھنٹے چلتا ہے مگر بعض اوقات اس سے زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔
’نوجوان لڑکی کی پہلی ڈلیوری ہو رہی ہے تو اس میں وقت لگتا ہے۔ اگر سرکاری یا نجی ہستال میں زچگی ہو رہی ہے اور وہاں تربیت یافتہ ڈاکٹر ہے لیکن اس کو تجربہ یا مہارت نہیں ہے تو وہ زچگی کے دوران ماں کو نقصان پہنچاتے ہیں جس سے فیسٹولا بن جاتا ہے۔‘
پاکستان میں فیسٹولا کے کتنی مریض ہیں، اس بارے میں کوئی حتمی اعداد و شمار دستیاب نہیں، تاہم اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 3500 کیسز ہوتے ہیں، ماہرین کے مطابق جو مریض ہسپتالوں تک آتے ہیں، ان کی بنیاد پر ہی اعداد و شمار کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
اس مرض کی شکار خواتین کی عمر 18 سال سے لے کر 70 سال تک ہوتی ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ چانڈیو کا کہنا ہے کہ فسٹیولا کی دیگر بھی وجوہات ہیں جن میں ٹی اے ایچ یعنی جو بچہ دانی نکلتی ہے، اس کے آپریشن کی وجہ سے تقریباً 20 فیصد فسٹیولا کے مریض ہیں، اس کے علاوہ کینسر کے مریض کو جو شعاعیں لگتی ہیں یا دوسری دوائیں دی جاتی ہیں اس سے متاثرہ فسٹیولا کے مریضوں کی تعداد کل مریضوں کا دو فیصد بنتا ہے۔
کیا فسٹیولا کا علاج ممکن ہے؟
کراچی کے کوہی گوٹھ ہسپتال میں گذشتہ 15 سالوں میں فسٹیولا کے 6000 آپریشن کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر ٹیپو سلطان کے مطابق اگر مرض برسہا برس کا ہوتا ہے، تو اس کا تین مرحلوں میں آپریشن ہوتا ہے جس میں چار سے پانچ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے، لیکن اگر چھوٹا موٹا مسئلہ ہے تو مریضہ دو چار ہفتوں میں صحتمند ہوکر چل جاتی ہے لیکن اس کا ڈرائی ہونا ضروری ہے۔ آپریشن کی کامیابی کے 95 فیصد تک امکانات ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر فوزیہ چانڈیو کے مطابق اگر مرض اپنے ابتدائی دور میں ہے تو اس کا علاج ممکن ہے لیکن مرض سے نجات کی کوئی دوائی نہیں ہے، یہ ایک تکنیکی معاملہ ہے۔ ’یہ عضو کا مسئلہ ہے، اگر کوئی عضو پھٹ جائے تو کسی پھٹی ہوئی چیز کو ادویات کے ساتھ ٹھیک نہیں کرسکتے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ فسٹیولا کے علاج کے بعد خواتین دوبارہ حاملہ ہوسکتی ہیں، ڈاکٹر ٹیپو سلطان اور ڈاکٹر فوزیہ چانڈیو کا کہنا ہے کہ ان کے سامنے کئی ایسی مثالیں ہیں جن میں خواتین دوبارہ حاملہ ہوئیں اور ان میں صحرائے تھر کی رہائشی 36 سالہ رضیہ بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ دائی کے ذریعے دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد وہ پیشاب کی بیماری میں مبتلا ہوئیں اس کے بعد اویئر نامی سماجی تنظیم کے ذریعے کوہی گوٹھ ہسپتال پہنچیں جہاں ان کا کامیاب علاج ہوا اور اس وقت وہ حاملہ ہیں۔
مریض کا سماجی بائیکاٹ
کریماں کی عمر 28 برس ہے وہ دو بچوں کی ماں ہیں۔ پہلے بچے کی پیدائش دائی کے ذریعے ہوئی جس دوران انھیں فسٹیولا کا عارضہ لاحق ہوگیا۔ ان کا کھانا پینا محدود کردیا گیا تھا۔ بقول ان کے، ان کے اہل خانہ اور پڑوسی قریب بھی نہیں بیٹھتے تھے، کہتے تھے کہ بہت بو آتی ہے بالآخر ان کا علاج ہوا، اب بہتر ہیں۔
کوہی گوٹھ ہسپتال میں زیر علاج ثمینہ کا کہنا ہے کہ پہلے تو شوہر کا رویہ ٹھیک تھا لیکن اب تبدیل ہے بلکہ بہت ہی زیادہ تبدیل ہے۔ ’ظاہر ہے بیماری بھی ایسی ہے، بچے بھی نہیں ہیں اور بچہ دانی بھی نکل گئی ہے۔ شوہر کا کبھی دل کرتا ہے تو فون کرلیتا ہے اور اب گھر بھی نہیں آتا۔ اب وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہے۔ مجھ سے کہتا ہے کہ آپ اپنی مرضی سے دوسری شادی کروائیں۔ پھر میں کہاں جاؤں گی؟‘
فسٹیولا کی وجہ سے کئی مریضوں کو رشتوں میں دوری اور ذہنی اذیت کا سامنا بھی کرنا پرتا ہے۔ ڈاکٹر شیر شاہ کی سربراہی میں چند سال قبل فسٹیولا کی مریض خواتین کے نفیساتی تجزیے کی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ شوہر کے ساتھ تعلقات پریشانی کی سب سے اہم وجہ تھی۔ خاندان کے اراکین بشمول شوہر اور بچے ان کے ساتھ وقت گزارنا پسند نہیں کرتے، یہاں تک کہ ان کا بنایا گیا کھانا بھی نہیں کھاتے۔
ڈاکٹر ٹیپو سلطان کے مطابق اس مرض میں مبتلا خواتین زندہ درگور ہوجاتی ہیں، ان کا پیشاب رستا رہتا ہے، شوہر گھر سے نکال دیتا ہے، طلاق ہوجاتی ہے اور وہ بے چاری والدین کے گھر پڑی رہتی ہیں۔
ڈاکٹر فوزیہ چانڈیو کہتی ہیں کہ ’پانچ سال کے بچے کو بھی اجازت نہیں ہوتی کہ وہ یہاں وہاں پیشاب کرتا رہے، جب عورت متاثر ہو یعنی جس کے پیشاب کی بو ہر وقت ہوگی تو کون اس بے چاری کو اپنے قریب رکھتا ہے؟ وہ ہر وقت افسردہ رہتی ہیں۔‘ ان کے مطابق یہ سرجیکل مسئلے سے زیادہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔
فسٹیولا کی مہارت پرکشش نہیں؟
پاکستان میں فسٹیولا کے ماہرین کی تعداد اور صحت مراکز انتہائی محدود ہیں۔ کوہی گوٹھ فلاحی ہسپتال پورے ملک میں اس شعبے میں مہارت رکھتا ہے جہاں مریض کو مفت علاج معالجے کے ساتھ تیماردار کو رہائش اور خوراک فراہم کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر ٹیپو سلطان کے مطابق یہ مرض زیادہ تر غریب خواتین کو لگتا ہے اور امیر لوگوں میں شاذ و نادر ہوتا ہے، لہٰذا اس میں ڈاکٹروں کے لیے پیسے کی ترغیب نہیں، کیونکہ غریب کے پاس پیسے دینے کے لیے نہیں ہوتے۔
’بہت کم ایسے ڈاکٹر ہیں جو خدمت خلق کے جذبے کے تحت یہ کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں مہارت ہونا ضروری ہے اور آپریشن میں وقت زیادہ لگتا ہے، اس لیے بہت کم ڈاکٹر اس میں دلچپسی لیتے ہیں۔ ہمارے زیادہ تر پروفیسر اور ڈاکٹر ایسے شعبوں میں دلچپسی لیتے ہیں جن میں وہ زیادہ پیسے کمائیں۔‘
ڈاکٹر فوزیہ چانڈیو کا کہنا ہے کہ شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی میں فسٹیولا سینٹر 2006 سے بند تھا، انھوں نے اس کو فعال کیا ہے اور ہر ہفتے چار سرجریاں کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بڑی مشکل سے انھیں چار بستر فراہم کیے گئے ہیں اور انھیں فسٹیولا فاؤنڈیشن مالی مدد فراہم کرتی ہے۔
ان کا خیال ہے کہ لوگوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کے رویوں میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
’سینئرز بہت ہنستے تھے کہ اس مہارت میں کوئی پیسہ نہیں ہے، لیکن اگر آپ ایک مریض کو اذیت ناک زندگی سے بچاتے ہو تو یہ سب سے بڑی آمدنی ہے۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو