ماحولیاتی تبدیلیوں کو دنیا بھر میں ایک بہت بڑے چیلنج کی حیثیت سے دیکھا جارہا ہے اور اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے اور ماحول کے تحفظ کے لیے خطیر سرماٸے کے ساتھ وسیع پیمانے پر اقدامات کیے جارہے ہیں۔
ہمارے یہاں مگر اجتماعی سوچ کے فقدان اور وژن نہ ہونے کے باعث اپنے ہی ہاتھوں سے ماحول کو تباہ کیا جا رہا ہے، اس کا سب سے بڑا ثبوت شہرِ کراچی کو آکسیجن، تازہ پھل اور سبزیاں فراہم کرنے والے شاداب ملیر کے ساتھ اپنوں اور غیروں کی جانب سے کیا جانے والا گھناؤنا سلوک ہے۔
ملیر کی زرخیز مٹی، میٹھے پانی، منفرد ذائقے کے حامل پھلوں اور سبزیوں کو دنیا بھر میں ایک ممتاز حیثیت حاصل تھی اور اسی امتیاز نے ایوب خان کے دور میں غیر ملکی ماہرین کی توجہ ملیر کی طرف مبذول کروائی تھی جنہوں نے ملیر کا دورہ کرکے ملیر کی مٹی، پانی، پھل اور سبزیوں کو پورے پاکستان کے مقابلے میں منفرد اور ممتاز حیثیت کا حامل قرار دیا تھا۔
ایوب خان کے عہد میں ملیر کے گوٹھوں کو یہ کہہ کر پینے کا پانی فراہم کرنے سےانکار کردیا گیا تھا، کہ ملیر ایک رہاٸشی نہیں بلکہ زرعی علاقہ ہے اور زرعی علاقے کو لاٸن کے ذریعے پانی فراہم نہیں کیا جاسکتا۔
ملیر کی صحت بخش آب و ہوا کے باعث بانیِ پاکستان قاٸدِ اعظم محمد علی جناح اکثر ملیر کا رخ کیا کرتے تھے۔۔ قاٸد اعظم کی قیام گاہ میمن گوٹھ ملیر کے عقب میں ڈملوٹی روڈ پر ملیر بنگلو کے نام سے آج بھی موجود ہے، جہاں نہ صرف وہ گاہ بہ گاہ قیام فرماتے تھے، بلکہ سیاسی امور بھی نمٹاتے تھے۔
ملیر کی تاریخی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قاٸدِ اعظم محمد علی جناح ملیر کی شادابی اور مثالی آب و ہوا کے باعث ملیر کو پاکستان کا دارالحکومت بنانا چاہتے تھے، تاہم قاٸدِ اعظم کی زندگی نے وفا نہیں کی اور بعد ازاں ایوب خان نے اسلام آباد کو پاکستان کا دارالحکومت بنایا جو فی الواقع کراچی کے ساتھ ان کا ظلمِ عظیم تھا۔
ایوب خان کے دور میں سرکاری سرپرستی میں جب ملیر ندی سے ریتی بجری کے اخراج کا سلسلہ شروع ہوا، ملیر کے لوگوں نے جب اس پر صدائے احتجاج بلند کی تو ان سے کہا گیا کہ ہم نے کراچی کو بسانا ہے، اس لیے ملیر ندی سے ریتی بجری کا حصول ناگزیر ہے۔
اس طرح شاداب ملیر کی رگِ جاں سے ریتی بجری کی صورت میں خون نچوڑ نچوڑ کر شہرِ کراچی کو فلک بوس عمارتوں سے سجایا گیا اور ملیر کے فطری حسن کو مسخ کر کے کراچی کے تمدن کی آبیاری کی گٸی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وسیع پیمانے پر ریتی بجری کے اخراج کے باعث زیر زمین موجود میٹھے پانی کے ذخائر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا، میٹھے پانی کی سطح گرتی چلی گٸی اور سمندر کے کھارے پانی کا غلبہ ہوتا چلا گیا۔ ایک طرف بڑی بڑی عمارتیں تعمیر ہوئیں اور دوسری طرف ملیر کے کاشتکاروں کے چولہے تک بھج گئے.
اس صورتحال نے رفتہ رفتہ ملیر کی زرخیز زمینوں کو بنجر کر دیا ، رہی سہی کسر سابقہ کے ای ایس سی اور موجودہ کے الیکٹرک کے بجلی کے ناقص نظام، طویل لوڈشیڈنگ اور بھاری بلوں نے پوری کر دی اور شاداب ملیر تباہ ہو گیا۔ بجلی کے اس ظالمانہ نظام کے باعث ملیر میں کاشتکاری کے لیے بچے کھچے پانی کا حصول شاید دنیا بھر میں سب سے مہنگا ہو.
اس تمام تر صورتحال کا فائدہ بلڈر مافیا نے بھانت بھانت کے ہاؤسنگ پروجیکٹس کی صورت میں اٹھایا۔ ان ہاؤسنگ پروجیکٹس نے شاداب ملیر کو اجاڑ کر اس کو سنگ و خشت کا جنگل بنا دیا۔ یوں بڑی بے دردی کے ساتھ ملیر کے فطری حسن، صحت بخش آب و ہوا اور دلکش مناظر کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کرتے ہوئے ملیر کی تاریخی حیثیت، جغرافیہ اور تہذیبی شناخت کو مسخ کر دیا گیا۔ فطرت کے ساتھ کھلواڑ کا بھیانک نتیجہ یہ ہے کہ آج شاداب ملیر کی بد دعائیں بھانت بھانت کی بیماریوں کی صورت میں ہمارے تعاقب میں ہیں۔ فطری نظام کو اجاڑ کر بلڈنگیں کھڑی کرنے کو ترقی سمجھنے کا خمیازہ بھگتنا اور اس کی قیمت چکانا تو ابھی شاید باقی ہے!
تباہی کے اس تمام عمل کے بعد بھی اہلِ ہوس کی تشفی نہیں ہوئی، چنانچہ اب ملیر ایکسپریس وے کے منصوبے کے ذریعے ملیر کے باقی ماندہ باغات کو اجاڑنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں!
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آبی بحران اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اس عہد میں دنیا کے کامیاب تجربات سے فائدہ اٹھا کر ڈرپ اریگیشن سسٹم کے ذریعے ملیر میں زراعت کے تحفظ اور فروغ کے لیے اقدامات کیے جاتے اور ماحول کے تحفظ کے لیے ملیر کے وسیع زرعی علاقے میں ہاؤسنگ پروجیکٹس اور رہائشی کالونیاں بسانے کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جاتی، لیکن جب ملیر کے اپنے ہی مقتدر فرزند اپنے ذاتی مفادات کے لیے اپنے نشیمن پر بجلیاں گرانے پر کمر بستہ ہوں اور ماحول کے تحفظ کی اہمیت سے نا آشنا ہوں تو پھر کیا کیا جاسکتا ہے۔
چراغ کو طوفان سے بچایا جاسکتا ہے مگر چراغ کے اندر ہی تیل نہ ہو، تو پھر کیا کیا جائے۔ ایسی المناک صورتحال پر فقط ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ دریا کے تلاطم سے تو شاید کشتی بچ سکتی ہے، مگر وہ کشتی کبھی ساحلِ مراد کو نہیں پہنچ سکتی، جس کے اندر تباہ کن تلاطم موجود ہو۔
آج ہاؤسنگ پروجیکٹس کو پینے کے لیے جو پانی فراہم کیا جارہا ہے اس سے کم مقدار میں پانی کو ڈرپ اریگیشن سسٹم کے لیے بروئے کار لاکر ملیر کے چمن کو دوبارہ آباد کیا جاسکتا ہے، اگر لائن کے پانی کو زرعی مقاصد کے لیے استعمال میں کوئی قانونی رکاوٹ ہے تو اس کو قانون سازی کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ ماحول کا تحفظ سب سے مقدم ہے اور یہ صرف اہلِ ملیر کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پورے کراچی اور اس کے ماحول کا مسئلہ ہے۔
ہمارا یہ آٸینی، قانونی اور جمہوری حق ہے کہ ہم اس مسئلے پر ہر ہر سطح پر آواز بلند کریں اور انفرادی سوچ، ذاتی مفادات اور سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر باقی رہ جانے والے سرسبز ملیر کو ہاؤسنگ پروجیکٹس کی بھینٹ چڑھانے سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔