
یہ جون کا مہینہ تھا، آسمان آگ برسا رہا تھا، یار محمد گوٹھ کی تنگ گلی میں سکونت پذیر لوگ دہری مصیبت سے دوچار تھے، ایک طرف شدید گرمی کے موسم میں طویل لوڈشیڈنگ نے ان کا جینا دوبھر کر دیا تھا تو دوسری طرف حاجی عبدالرب کے مکان کی تعمیر ان کے لیے غیر معمولی اذیت کا باعث تھی۔ گلی پہلے سے بہت تنگ تھی، اوپر سے حاجی عبدالرب کے مکان کا تعمیراتی مٹیریل اور اس کی ترسیل کے لیے گاڑیوں کی آمد و رفت لوگوں کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہی تھی۔
حاجی عبد الرب کے بیٹے کی شادی تاریخ طے ہو چکی تھی، اس لیے مکان کی تعمیر ان کی مجبوری تھی، وہ دوسری جگہ منتقل بھی نہیں ہو سکتا تھا اور نہ ہی ان کے لیے پلاٹ خریدنا ممکن تھا۔
چھت بھرائی سے چند روز قبل ہی سے تنگ گلی میں ریتی بجری کا انبار پڑا ہوا تھا، ریتی بجری کے اس انبار کے باعث بچوں کو کھیلنے کا بہترین موقع مل گیا تھا۔
بچے بھی بیچارے کہاں جاتے۔۔ گرد و پیش کے کھلے میدان پلاٹنگ کی بھینٹ چڑھ چکے تھے، کھیل کے لیے ان معصوم بچوں کے لیے کھیل کا کوئی میدان باقی نہیں بچا تھا۔۔ پلاٹنگ کے باعث کھیل کے میدان تو دور کی بات معمولی پارک کی جگہ بھی نہیں بچی تھی، چنانچہ موقع ملتے ہی بچے ریتی بجری کے اس انبار پر کھیلتے رہتے۔
بچوں کے کھیل کے باعث ہر سُو ریتی بجری بکھری ہوئی تھی اور ٹوٹے پھوٹے مین ہولز کے اندر داخل ہو رہی تھی۔
حالانکہ گلی کی تنگی کے باوجود اس ریتی بجری کو سلیقہ سے رکھا جا سکتا تھا اور مین ہولز کو اس سے محفوظ بھی رکھا جا سکتا تھا، مگر کسی کو سیوریج کے نظام کی اس تباہی سے کوئی سروکار نہیں تھا، کوئی اس نظام کو تحفظ فراہم کرنے اور اس کو ”اون“ کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔۔۔ یہاں تک حاجی عبدالرب صاحب کو بھی اس ضمن میں کوئی پریشانی نہیں تھی، ان کو صرف اپنے تعمیر ہوتے مکان سے دلچسپی تھی۔۔۔ گویا کہ انفرادی خود غرضی، اجتماعی بے حسی کے سانچے میں ڈھل گئی تھی۔
اللہ اللہ کرکے چھت کی بھرائی کا عمل مکمل ہو گیا اور کچھ عرصے میں حاجی عبدالرب کے مکان کی تعمیر مکمل ہوگئی۔
مکان کی تعمیر کے بعد حاجی عبدالرب کے بیٹے کی شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔۔ شادی کے دن یار محمد گوٹھ کی اس تنگ گلی میں گٹر کا سمندر پھوٹ پڑا یہاں تک کہ گھروں میں گٹر کا گندا پانی داخل ہونا شروع ہو گیا۔۔۔ گٹر کے پانی اور اس سے ابھرتے شدید تعفن نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا، خاص طور نمازی حضرات کے لیے اس نجاست سے محفوظ رہنا امرِ محال بن گیا۔
اس گندگی کے باعث حاجی عبدالرب کے بیٹے کی شادی کی تقریبات بری طرح متاثر ہو رہی تھیں۔۔ شدید غصے سے حاجی عبد الرب کا برا حال ہو رہا تھا۔۔۔
”کہاں ہیں ہمارے منتخب نمائندے؟ کہاں مر گئے ایم پی اے اور چیئرمین صاحب؟ اب آ جائیں نا ووٹ کے لیے۔۔۔ میں ان کو جوتے ماردوں گا۔“ حاجی عبدالرب شدید غصے کی حالت میں چیخ رہے تھے۔۔۔
”ایم پی اے یا چیئرمین صاحب آج اگر حاجی عبد الرب کے سامنے آ جائیں تو ان کی خیر نہیں ہے۔“ قریب ہی کھڑے ماما نورو نے بچل کے ساتھ سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔
حاجی عبد الرب ایم پی اے، ایم این اے اور چیئرمین صاحب کو مسلسل گالیاں دے رہے تھے، اچانک استاد خدابخش نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔
”جب تک ہمارے دماغ کا ’سیوریج سسٹم‘ ٹھیک نہیں ہوتا، ہماری گلی کے سیوریج سسٹم کو ایم پی اے، ایم این اے اور چیئرمین صاحب تو کجا، اقوامِ متحدہ بھی ٹھیک نہیں کر سکتی۔“ خدابخش نے اطمینان سے کہا اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔